لال بازار سےلال مسجد تک
میرے ایک دوست بتاتے ہیں برسوں بیتے کہ جب لاہور کے شاہی محلے پر پولیس نے دھاوا بولا تھا تو ایک بائی نے انتظامیہ کو بد دعا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم لوگوں نے میرے گھر کی چاردیواری لتاڑی ہے اللہ کرے گا تمہارے گھر کی چار دیواری بھی سلامت نہیں رہے گی‘۔
لوگ کہتے ہیں کہ ایشیا کے ماڈل ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کو بھی ناچنے گانے اور جسم بیچنے والیوں کی ’بد دعائيں‘ کھا گئيں کہ اس فوجی آمر نے دنیا کے قدیم ترین پیشے (دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ صحافت ہے) پر پابندی ڈالی تھی۔
:میرے شاعر دوست حسن درس کی تازہ ’احمد فراز کے نام‘ ایک نظم میں ہے
’ایوانِ صدر سجا ہے
کوٹھا نہ اسکو کہنا
کوٹھا کسی کا گھر ہے
رنڈی تو محترم ہے
رنڈی تو معتبر ہے۔‘
اگر دعائيں یا بد دعائيں واقعی اثر کرتی ہیں تو پھر لال مسجد والوں کو انکی محلے دار آنٹی شمیم کی بد دعا کھا گئي۔ لال مسجد کی برقعہ تھنڈر اسکواڈ نے تو وہ بنیادی اخلاقیات کی بھی لکیریں لتاڑ ڈالی تھیں جو کہاوت میں ہے کہ محلہ پیغمبروں کو بھی پیارا ہوتا ہے۔
آنٹی شمیم، پھر نیلوفر بختیار اور کچھ روز قبل جو اسلام آباد میں چینی خواتین کے ساتھ ہوا، اس سے پاکستان جیسی خواتین دشمن جگہ میں کام کرنے والی خواتین میں ایک دہشت کی فضا میں بڑھاوا ہی ہوا تھا۔
ٹی وی پر ضیاء الحق کے صاحبزادے اور وفاقی وزیر اعجاز الحق ( مجھے تو حیرت ہے کہ ضیا اور مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کو بھی کوئي ابا جی اور ڈیڈی کہتا ہوگا!) کو لال مسجد کے آپریشن پر آبدیدہ دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ضیاء کی صرف ایک کھیتی اجڑ جانے پر انکو کتنا دکھ تھا۔ اسطرح کی تو ہزاروں کھیتیاں ہیں۔ پورا ملک یا تو لال مسجد ہے یا پھر لال بازار ہے۔
ماضی وحال کے جہادیوں اور مستقبل کے خودکش بمباروں اور بمبارنیوں کی نسلوں کی وہ فصلیں جو فوج اور لال اینٹوں والی آئي ایس آئی نے بوئيں وہی کاٹ رہے ہیں۔
'برقعے میں تو مولانا ہے
برقعے میں تو جنرل ہے
برقعے میں اسلام نہیں!!
تبصرےتبصرہ کریں
اس سے بس آپ کے سوچنے کا طریقہ سامنے آتا ہے۔ آپ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ آپ ماڈرن ہیں اور آپ کی سوچ جدید ہے۔ ہمیں اس ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ خود ہی سوچیے کہ یہ ہآپ کیا لکھ رہے ہیں۔ اس سے بس آپ کی چھوٹی ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔
محترم حسن مجتبٰی صاحب
آپ نے بہت اچھے انداز سے اس مکرو صورتِ حال کے چہرے بے نقاب کيے۔ اکيلے بھٹو کے چاہنے والوں کی آہیں ہی بہت اثر رکھتی ہيں۔
کوئی محاذ ايسا نہيں جس پر اس فوج نے کاميابی حاصل کی ہو سوائے اقتدار پر قبضہ کرنے کے جو 60 سال سے قائم ہےِ۔
حسن صاحب ضرُوری تو نہيں کہ ہر موضُوع پر ايک ہی انداز سے لکھا جائے تو ہی ہم آزادی کے متوالے کہلائيں گے؟ سو اس بات پر ذرا ہتھ ہولا ہی رکھيں تو بہتر ہوگا۔ ہاں آپ کے اس پُورے بلاگ ميں صرف ايک ہی لائن اچھی اور دل کو لگی ہے کہ’حيرت ہے کہ مُشرف اور ضياء جيسے ڈکٹيٹروں کو بھی کوئی ابّا جی يا ڈيڈی کہتا ہوگا‘۔۔۔ديکھ ليں پھر ايسے لوگ بھی صاحب اولاد بھی ہوتے ہيں اور مزے کی بات يہ کہ ان کو بھی اپنی اولاد سے پيار ہوتا ہے حيرت ہے، ورنہ مُجھے تو نہ جانے کيوں يہ لگتا ہے فوجيوں کے سينے ميں دل ہي نہيں ہوتا آپ کو لگتا ہے کيا؟
مع السلام
شاہدہ اکرم
حسن بھائی، ابھی تو آئی ایس آئی اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہی ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب سی آئی اے اور ایم آئی سکس اپنی بوئی ہوئی فصل کاتیں گے۔
بی بی سی کی مرمت کب ہو گی؟
ضیاالحق کے لیے اپنی نفرت میں آپ مسجد کا مقابلہ ایسی عورتوں سے کر رہے ہیں؟
اگر کوٹہھے والوں کی بدعائیں لگا کرتیں تو آج دنیا میں امیر نہ ہوتے۔
حسن صاحب آپ کے منہ سے جام وشراب کے تذکرے اور بازاروں کی لال پریوں کے قصے اچھے لگتے ہیں۔ آپ ان مدرسے والوں کے چکروں میں نہ پڑیں۔ ہاں اگر آپ سرور میں ہیں تو ضرور کہیے۔۔۔
آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔
حسن صاحب بہت خوب۔
بول کے لب آزاد ہيں تيرے
بول کہ زبان اب تک تيری ہے
ہمارے ملک ميں حسن جيسے کچھ لوگ ہيں جو اسلامی نظام سے خائف ہيں۔
غلام ذہنیت کے مالکوں نے یہ فصل بوئی بھی کسی اور کے لیے تھی اور کاٹی بھی کسی اور کی ایما پر جا رہی ہے۔ لیکن کٹنے والوں کا کیا قصور؟