’کون چیتا کون لومڑی‘
سنہ انیس سو پچاسی میں فوجی آمر جنرل ضیاءالحق اس ساری رات مصلے پر کھڑے رہے تھے جب دوسرے روز پیپلز پارٹی سمیت ان کے بڑے حزب مخالف اتحاد ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کو فیصلہ کرنا تھا کہ ان کے اعلان کردہ غیر جماعتی انتخابات میں ایم آر ڈی حصہ لے گی یا نہیں۔
جنرل ضیاء کی دعائیں بر آئيں کیونکہ ایم آر ڈی نے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل ضیاء کی دعائيں اب بھی بر آئي ہوں گي جب ان کے انیس سو نناوے کے ایڈیشن جنرل پرویز مشرف سے ابوظہبی کے قصر شاہی میں پاکستان کے اکثر غریب عوام کی محبوب رہنما بینظیر بھٹو نے ملاقات کی ہوگی۔
قصر شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
سمجھوتہ جنرلوں سے بینظیر بھٹو نے کرنا کیا ہے یا جنرلوں نے بینظیر بھٹو سے۔ یہ سوال چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر والی بات ہے۔ لیکن ان تین دہائيوں پر محیط لمبے، بقول طارق علی ’چیتا اور لومڑی‘ والے کھیل میں خربوزے فقط پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے ثابت ہوئے ہیں۔
آصف زرداری نیویارک کے میڈیسن ایونیو پر مہنگی گاڑیوں میں فراٹے بھرتے گزرتے ہیں اور جیالے اسلام آباد میں بموں کے دھماکوں میں مر رہے ہیں۔
جنرل ضیاءالحق سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک خربوزوں کی طرح کٹتے مرتے جیالے اس شعر کے مصداق بنے ہوئے ہیں:
’ہم جیئے بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی
مگر یہ نہ کھل سکا آپ کی خوشی کیا تھی‘
محل ابو ظہبی کے غیر جمہوری فرمانروا کا، ملاقات بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیاں، موجودگی آئي ایس آئي کے چیف کی اور معاونت سندھ کے گورنر عشرت العباد کی، نہ فقط بارہ مئي کو مرنے والوں اور جمہوریت سے مذاق ہے بلکہ قرائن کہہ رہے ہیں ’پاکستان جیسے جنگل میں اب کون چیتا ہے کون لومڑی‘۔ یاد رہے کہ طارق علی نے علامتی طور پہ بھٹو کو چیتا اور ضیاء کو لومڑی قرار دیا تھا لیکن اب ایسے تصورات پر بھی ڈیل ہونا چاہتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
کاش پاکستان کا کوئی سياستدان اس ملک سے مخلص ہوتا، کاش۔
پہلی مرتبہ آپ نے کوئی بہت اچھا بلاگ لکھا ہے۔ مبارکباد قبول کيجيے۔ بہت خوشی ہوئي۔ ہاں اب اگر بھٹو کی ذہين بيٹی چوہدری شجاعت يا الطاف حسين کی صف ميں شمار کی جائيں گی تو اس سے زيادہ افسوسناک بات کيا ہو سکتی ہے۔ خود بھٹو کی روح کانپ اٹھے گي۔
محترمہ کو معلوم ہونا چاہيے، جو ڈيل وہ کرنے جا رہی ہيں، کيا ويسی ہی ڈيل بھٹو نہيں کر سکتے تھے؟ کم از کم ان کی عظيم زندگی تو بچ جاتي۔ افسوس صد افسوس۔ بھٹو مرحوم کے سياسی اثاثے کا جتنا نقصاں ضياء الحق اور تمام سرکاری پراپيگنڈا مل کر بھی نہ کر سکا وہ محترمہ کی فقط ايک ملاقات نے کر ديا ہے۔
افسوس کے سوا کيا کيا جا سکتا ہے۔ ميرا تو دل جل گيا اپنی ايک بھانجی جيالی کا اسلام آباد کچہری دھماکے ميں جلا ہوا جسم ديکھ کر۔ يہ ڈيليں ويليں ان خود کش بمباروں کا کيا بگاڑ ليں گی۔
بينظير کو صرف اقتدار چاہیے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قيمت خواہ وہ پارٹی کے نظريات کی موت ہی کيوں نہ ہو ادا کر سکتی ہيں۔
ميرے خيال ميں ڈيل کی ضرورت نہيں۔ بس اليکشن کرنے دیں۔ قوم اپنا فيصلہ خود کرےگی۔ بينظیر آتیں يا نواز يا کوئی اور۔۔ آنے دیں اور ان کو پاکستانی عوام کا نمائندہ تسلم کریں۔۔۔ ڈيل ہمیشہ غير قانونی کام کے ليے يا کچھ چھپانے کے ليے کی جاتی ہے۔
محترم و مکّرم
حسن مجتبٰی صاحب
واہ کيا غضب کی تحرير ہے۔ ضيا الحق تو مصّلے پر کھڑا رہا اور کی دعا قبول ہوئی۔
موجودہ صورت ميں مشرف نے کعبہ اور مينہ ميں حاضری بھی مقصد پانے کے بعد ہی حاصل کی۔
تاشقند ميں بھٹو جنرل ايوب سے روٹھے کہ وہ شاستری سے اکیلے ہی معاہدہ کرنے جا رہے تھے اب بی بی نے ساتھ بھی ليا تو کم از رحمان ملک کے ايجينسيوں کے سابقہ ملازم اور بشير رياض کو
اگر کور کمانڈرز کے ذريعے امريکہ کی بالا دستی قبول ہوتی تو بھٹو تاريخ ميں زندہ رہنے کی بجائے فوجيوں سے سمجھوتا کر کے کچھ دير تک جی ليتے۔
اب تو نہ اعتزاز احسن کی وکالت کی ضرورت محسوس کی گئی نہ عوام سے رائے لی گئی۔ طارق علی کی لومڑی اور شير دونوں جيت گئے اور جيالے شايد آخری مرتبہ بھی ہار گئے۔
فروختند و چہ ارزاں
اپنا خيال رکھیے گا
آصف محمود
ميری لينڈ
امريکہ
حسن بھائي
لگتا ہے وکلا کو اگلی جنگ وردی والوں بشمول جنرل مشرف اور بی بی اتحاد کے خلاف لڑنا پڑے گی۔ بی بی کب سمجھيں گی کہ ضيا، اسحاق، لغاری کے پتلوں کی رسی ان ہی کے ہاتھ ميں تھی جن کے ہاتھ ميں مشرف کی ہے۔ کيا بھٹو کی بيٹی باپ اور بھائيوں کے قتل کے بعد اگلی سول مارشل لا ايڈمنسٹيٹر بھی بن جائیں گي؟
خير انديش
آصف محمود
يک نہ شد دو شد۔ کيا اقتدار کی ہوس کا مارا جنرل پاکستان کے غريب عوام کو کم تھا جو ايک اور کو ساجھے دار بنا ليا؟ اب صورت حال دو ملاؤں ميں مرغی حرام کی سی ہو گي۔
وہ کام جس کا بیڑہ ضیاالحق نے اٹھایا تھا اس کو انجام تک پرویز مشرف پہنچانے جا رہے ہیں اور وہ بھی بھٹو کی بیٹی کی مدد سے۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔
حسن صاحب يہ بلاگ ايسا دل کو لگا ہے کہ
ميں نے يہ جانا کہ گويا يہ بھی ميرے دل ميں ہے۔
جو ڈيل يہاں ابُوظہبی ميں ہُوئی ہے اس سے مُتعلقہ لوگ تو مُسلسل مُکر رہے ہيں کہ ايسا کُچھ ہُوا ہی نہيں جبکہ جس دن يہ مُلاقات ہُوئی ميرے شوہر کا پُر زور اصرار تھا کہ چلو ہمارے لوگ آئے ہُوئے ہيں۔ مل کر آتے ہيں اور ميری ہنسی رُکنے کا نام نہيں لے رہی تھی کہ ہم جيسے غريب غُرباء کو ہی تو بھلا ملنے ديا جائےگا ناں، سو اپنے دل کی تو رہنے ہی ديں کہ يہ تو ايک ديگر بات ہے۔ اصل بات يہی ہے کہ ہر حال ميں مرتے عام عوام ہی ہيں۔ وہ جيالے وہ جاں نثار جو اپنی جانيں ہتھيلی پر لے کر گُھومتے ہيں کبھی خُود سوزی کر کے اور کبھی کسی بھی اور ايسے طريقے سے جانيں دے ديتے ہيں جو اُن کی سمجھ ميں آتے ہوں گے شايد يہ نہيں جانتے ہيں کہ اُن کی جان کی اہميّت گاجر مُولی يا خربُوزے سے زيادہ نہيں اور آج جو کُچھ تازہ ترين صُورتحال ہے وہ اتنی دُکھی کر دينے والی ہے کہ محترمہ نے ڈيل کر کے نہ صرف اپنے جاں نثاروں کو بلکہ پکّی بات ہے اپنے باپ کی رُوح کو بھی شرمسار کر ديا ہے کہ لاکھ غلط باتيں ہوں بُھٹو کی جو باتيں ہميں معلُوم اور ياد ہيں اُن ميں سر فہرست نہ جُھکنے والی عادت تھی اور يہاں تو باقاعدہ سودے بازی کی گئی ہے اور يہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے سب جانتے ہيں۔ جس کے سرے اب جا کر مل رہے ہيں ليکن مزے کی بات يہ ہے اس سارے فسانے کی کہ ہم اس سب سے انکاری ہيں۔ ہم تو ملے ہي نہيں جبکہ ڈيل کی شکل اتنی واضح تھی کہ پہلے مُقدمے ختم کئیے گئے اب آج بينکوں کے آدھے اثاثے اوپن کر دئیے گئے۔ کيا يہ سب پيار و مُحبّت يا رواداريوں کی علامت ہے يا ڈيل ہے؟ کيا اب دُنيا اتنی بھولی ہے؟ کہ کُچھ بھی نہ سمجھ پائے گی کہ چيتا کون تھا اور لومڑی کون؟ وقت کا پہيّہ شايد اُلٹا چل پڑا ہو گا ليکن حقيقت يہی ہے جو صاف نظر آ رہي ہے ،ہم دعاگو ہيں بہتری کے لیے کہ يہی کر سکتے ہيں
دعاگو
شاہدہ اکرم
جب تک معاہدہ طے نہيں پا جاتا اور تفصيلات منظر عام پر نہيں آجاتيں آپ کا واويلا مخالفت برائے مخالفت کے سوا کچھ نہيں۔ يہ ميری بھی خواہش ہے کہ فوج کو بالوں سے پکڑ کر ايوان سياست سے پرے ہٹا ديا جائے۔ ليکن يہ سب جانتے ہيں کہ امریکہ بہادر کی مرضی ہے کہ فوج عوامی طاقت سے تشدد کی اس لہر کو روکے اور عام شہری اس بات سے اختلاف نہيں کر سکتا کہ نامنہاد جہاديوں کو لگام ڈالنا اکيلے فوج کے بس ميں نہيں اور ناں ہی کوئی بھی سياسی پارٹی بغير فوجی مدد کے کچھ کر سکتی ہے۔ يہ حق تو صرف عوام کو حاصل ہونا چاہيے کہ بےنظير کا فوج سے معاہدہ انہيں قبول ہے کہ نہيں، اور اليکشنز ميں قوم اپنا فيصلہ سنا دے گی۔
ہے اعتماد انہیں اپنی بےخودی پہ مگر
کسی نے رکھ ديا قدموں ميں سر تو کياہوگا
بی بی صاحبہ کا خيال ہے اقتدار پليٹ ميں سجی ہوئی مل رہی ہے مگر جيالوں کی قربانيوں کا خيال نہيں۔ ثابت کر ديا کہ جيالے اگر نظريات کے ليے مرتے ہيں تو مرتے رہيں۔ بی بی اقتدار کے ليے سب کچھ کر سکتی ہے۔