| بلاگز | اگلا بلاگ >>

فکر نہ کرو سر جی

وسعت اللہ خان | 2007-08-02 ،15:17

جسٹس محمد اکرم کے صاحبزادے یعنی لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک عبدالقیوم نے اپنی ججی کے دوران صائمہ وحید کیس سمیت انسانی حقوق کے کئی کیسوں میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مدد کی ہے اور اسکی گواہی عاصمہ جہانگیر دے سکتی ہیں۔
qayum_judges203.jpg

لیکن ایک متضاد حسنِ اتفاق یہ بھی ہے کہ شریف فیملی کے جتنے بھی اہم جائیدادی یا انتقامی یا سیاسی کیسز قابلِ فیصلہ ہوتے تھے وہ کسی اور جج کے پاس نہیں بلکہ جسٹس قیوم کی عدالت میں ہی جاتے تھے۔ اسی سبب جسٹس قیوم اپنے کلائنٹ اور انکے وکلاء کو بھی اتنا ہی پروٹوکول دیتے تھے جتنا کہ وہ اپنے کسی برادر جج کو دے سکتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس زمانے میں شریف حکومت نے آصف زرداری اور انکی اہلیہ کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں اپنے فیملی جج جسٹس قیوم کی عدالت میں گھسیٹ رکھا تھا تو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے شریف حکومت کے اٹارنی جنرل خالد انور اور جسٹس قیوم کی ٹیلی فونک گفتگو کی ٹیپ کا متن شائع کردیا۔اس گفتگو کا لبِ لباب یہ تھا کہ ایک جج ایک وکیل سے کہہ رہا ہے کہ فکر نہ کرو سرجی۔۔میں جناب کا خادم۔۔۔۔۔۔

اس سکینڈل کے بعد ملک قیوم کو ججی سے استعفی دینا پڑا لیکن وہ گھر پر نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سٹے میں ملوث ہونے اور میچ فکسنگ کے معاملات کی بھی تحقیقات کی اور وسیم اکرم سمیت کئی کھلاڑیوں کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ یہ وہ سورما کھلاڑی تھے جو صرف قیومی انصاف کے ہی قابو میں آ سکتے تھے۔

یہ ملک قیوم کی ہی جرات ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں مشرف حکومت کا مقدمہ لڑا جب برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کے حامی وکلاء کے غیض و غضب کا کوئی اور وکیل مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا۔

ملک قیوم اگر جنرل ہوتے تو انہیں اس جرات کے صلے میں ہلالِ جرات مل سکتا تھا۔ لیکن چونکہ کسی سویلین کو یہ تمغہ نہیں مل سکتا اس لیے انہیں اٹارنی جنرل آف پاکستان بنا دیا گیا۔ یوں حکومت کو وصی ظفر کے بعد ایک اور پائے کا قانونی دماغ باضابطہ طور پر میسر آگیا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:05 2007-08-02 ,ظہيرچغتائی :

    جسٹس صاحب کی ہی کمی رہ گئی تھی سو وہ بھی پوری ہوئي۔ اب پاکستان ميں ايسا انصاف ہو گا کہ شير اور بکري ايک ہی گھاٹ پر پاني پيئں گے۔ سرکار خوش ہم خوش۔ وسعت صاحب تسی وی فکر نہ کر و سر جي۔ آپ صحافيوں کے جنرل ہو۔

  • 2. 16:32 2007-08-02 ,ڈاکٹر رضيہ خان :

    جس حکومت کا وکيل اور اب اٹارنی جنرل ملک قيوم جيسے لوگ ہوں اس حکومت کی ذہني پستی کا اندازہ لگانا کونسا مشکل کام ہے۔ حکومت کو اس بات کی داد ضرور دينی چاہيے۔

  • 3. 16:47 2007-08-02 ,واجد علی سید :

    کاش کہ پاکستان میں کبھی تو قیومی کی بجائے قانونی انصاف کی امید ہی پیدا ہو سکے۔

  • 4. 16:57 2007-08-02 ,myna :

    بہت اچھا بلاگ لکھا ہے۔

  • 5. 18:02 2007-08-02 ,Ali :

    مبارک ہو ملک قیوم صاحب ! آپ کا وطیرہ رہا ہے مظلوموں کی مدد کرنا۔ آپ سے پہلے شریف الدین پیرزادہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کی کیا بات وہ تو کہتے رہیں گے کہ
    بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا۔

  • 6. 19:13 2007-08-02 ,بابر سلطان علی خان :

    جی ہاں، اِس ميں کوئی شک نہيں کہ جسٹس قيوم صاحب ہر لحاظ سے جناب وصی ظفر کے ہم پلہ ہيں۔ ليکن ميری خدا سے دعا ہے کہ وہ ان کو انگريزی زبان ميں وصی ظفر جيسی اہليت سے نہ نوازے۔

  • 7. 19:58 2007-08-02 ,اے رضا :

    وسعت اللہ صاحب، جيسا کھيت ہوگا ويسي فصل، جيسے قائد ہوں گے ويسے کارندے اور بيچ ميں اگر ايک آدھ ڈھنگ کا بندہ آيا بھی تو آپ جيسے اہل قلم کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کا جو چاہيں بنا ڈاليں۔ کون آ رہا ہے پوچھنے والا ؟

  • 8. 23:39 2007-08-02 ,وحيد :

    اور کيا کہنے کی گنجائش ہے وسعت صاحب ؟ کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ اس طرح کے پائے کے دماغ پاکستان کی ماضی کی تمام حکومتوں خاص کر فوجی حکومتوں کو ہميشہ دستياب ہوتے رہے ہيں؟

  • 9. 6:11 2007-08-03 ,abbas :

    اسے کہتے ہيں چڑھتے سورج کو سلام

  • 10. 11:34 2007-08-03 ,ASghar Zaidi :

    وسعت جي! آپ کو کونے ميں بيٹھ کر دہی کھانے والا کيوں پسند نہيں آ رہا ؟ کيا کہہ رہا ہے بےچارہ کسي کو۔

  • 11. 11:39 2007-08-03 ,نجيبالرحمان سائکو :

    جناب محترم وسعت اللہ خان، مودبانہ عرض ہے کہ وکيل کا کام سچ يا جھوٹ کو پرکھنا نہيں ہوتا بلکہ اس کا کام صرف اور صرف شروعات سے لے کر اختتام تک کيس ميں اپنے مؤکل کا بھلہ ديکھنا ہوتا ہے اور جيسا کہ آپکے علم ميں ہے کہ مؤکل کوئي بھي ہوسکتا ہے، عام بندہ بھی ہوسکتا ہے، جنرل بھي، چور لٹيرا بھي، بھلے اور معصوم لوگ بھي، نيب کے ستائے ہوئے بھي اور سياسی شخصيات بھي۔

  • 12. 16:31 2007-08-04 ,shahidaakram :

    وسعت بھائی آپ جہاں کہيں بھی ہيں وہاں سے واپس آجائيں۔ آپ کو کچھ نہيں کہا جائے گا۔ تا کہ ہم پھر سے اُن کے زبردست بلاگ پڑھ کر اُن سے لُطف لے سکيں خاص طور پر وصی ظفر صاحب والے بلاگ جيسا تڑ پتا پھڑکتا بلاگ پڑھنا چاہتے ہيں۔ صاحب اب قيُّوم صاحب کی ججی سے آپ اور کيا کُچھ کروانا چاہتے ہيں۔ اتنا بڑا کام تو اُنہوں نے کر ديا ہے۔ اب انعام کے طور پر اُنہيں اس سے بہتر اور کيا انعام ملے گا جو ہم سب کو بھی مل گيا ہے۔ شايد اُن کو خُود بھی نہيں علم اس بات کا کہ اُنہوں نے کيا ديا ہے قوم کو۔ رہی بات پائِے کے دماغ کي تو سُنا ہے پائے تو پھجے کے بھی بہت مشہُور ہيں، ہيں نا؟

  • 13. 11:00 2007-08-06 ,Ali :

    وصی ظفر اور ملک قیوم : اللہ نے ملائی جوڑی اب تو ’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے سیانے دو‘

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔