تجھ کو کس پھول کا کفن دیں ہم
آ میری دھرتی کہ تیری شاعرہ کو اسکے جواں سال بیٹے کی موت پر پُرسہ دیں جس شاعرہ نے تیرے تمام دکھوں کو اپنی شاعری میں ایک لمبی چیخ کی صورت سمادیا۔ یہ چيخ تھی احتجاج کی ، عزم کی اور اس سپنے کی جو آج بھی پتہ نہیں کیوں یقین ہے کہ اک دن حقیقت بنے گا۔
میں نے اس کھلنڈرے سے بچے کو صرف ایک بار دیکھا تھا جب اسکے ماں باپ فہیمدہ ریاض اور ظفر اجن جنرل ضیاء کی آمریت کے دنوں میں آٹھ سال کی جلاوطنی گزار کر بھارت سے وطن واپس ہوئے تھے۔ کراچي میں طارق روڈ کے ایک گھر میں، زلفی اور اقبال سیف ( میرے دوست سیف بنوی کا بیٹا، وہ بھی جواں سالی میں مرگيا :
’ہم پیار سے جینے کی دعا دیتے ہیں جنکو
وہ لوگ بھی مر جاتے ہیں معلوم نہیں کیوں‘)
ہم تب فہیمدرہ ریاض کو سندھی ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے انکی جلا وطنی سے واپسی پر ایک استقبالیہ کی دعوت د ینے گئے تھے۔ اس بچے کا نام کبیر تھا۔ اس عظیم شاعر کبیر کے نام پر جسکی شاعری پراچین ہندستان کے زمانوں سے لیکر آج تک چرخڑا سائيں کا بنی ہوئی ہے۔
’ماتا کہے پوتر ہمارا، بہن کہے ویر میرا
بھائي کہے پوجا ہماری، پریا کہے نر میرا رے
من بھولا بھولا پھرے جگت میں کیسا ناتا رے‘
(کبیر)
کہتے ہیں کبیر سات اکتوبر کو یہاں امریکہ میں ویسٹ ورجینیا کی جھیل پر دوستوں یا کسی دوست کے ساتھ تفریح کیلیے گيا تھا، کچھ گھنٹوں بعد اسکی لاش سطح جھیل پر تیر رہی تھی۔ کئي دنوں تک پولیس اس جواں لاشے کے ورثا کی تلاش میں رہی اورگزشتہ دن اسکی شناخت کبیر کے طور پر ہوئی۔ یہ خزان اور یہ سال کوئي اچھی خبریں نہیں لائے۔
ابھی کراچي کی ماؤں کی آنکھوں سے آنسو تھمنے بھی نہ پائے تھے کہ دھرتی کی یہ شاعرہ اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے امریکہ آئی ہیں۔ آؤ کہ اس شاعرہ کے جواں مرگ بیٹے کی موت پر اس سے کہیں:
’تجھ کو کس پھول کا کفن دیں ہم
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں‘