ایمرجنسی پلس یا چوتھا مارشل لاء
انیس سو اٹھاون میں جب ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو انہوں نے جنرل ٹکا خان کو حیدر آباد سندھ میں سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے بھیجا تھا۔ ٹکا خان مارشل کے نفاذ کے کچھ دن بعد اندرون ڈویژنز کا دورہ کرتے ہوئے ٹنڈو اللہ یار میں ایک گاؤں سے گزر رہے تھے کہ وہاں اپنی جیپ روک کر اسوقت محکمہِ اطلاعات کے افسر علی احمد بروہی سے کہا کہ وہ وہاں سے گزرتے ہوئے معمر شخص سے پوچھیں کہ مارشل لاء کے بارے میں کیا خیال ہے۔
علی احمد بروہی نے ٹکا خان کو بتایا تھا کہ یہ بزرگ کہہ رہے ہیں ’مری عمر اسی سال ہے میں نے انگریز کا دور دیکھا ہے، دو بڑی جنگيں دیکھی ہیں، حروں پر مارشل لاء دیکھا ہے، پلیگ کی بیماری، سیلاب اور بہت سی آفات دیکھی ہیں۔ وہ آئیں اور گزر گئيں تو یہ ایک اور مارشل لاء کی آفت بھی گذر جائيگي۔‘
سنیچر کی صبح ٹیلیفون کی گھنٹی پر آنکھ کھلی جو لاہور سے میرے قاری محمد عمران کا تھا۔ ’حسن بھائی، میں اسوقت ایوان عدال کے باہر کھڑا ہوں، پاکستان میں عدل اور انصاف قتل ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس برطرف کردیئے گئے ہیں۔ جنرل مشرف نے ایمر جنسی نافذ کردی ہے۔‘ میں نے سوچا پاکستان میں ایمرجنسی اتری کب تھی کہ نافذ ہوگئي۔ ہم نسل در نسل آمریت در آمریت میں داخل ہوتے، پیدا ہوتے، جوان ہوتے ، بوڑھے ہوتے، مرتے اور جیتے رہے ہیں۔ یہ ایمرجنسی بھی ایک اور ڈرامہ در ڈرامہ اور آمریت در آمریت ہے۔
پہلے انہوں نے سوات اور ملک کے دیگر حصوں میں اپنے ’کرنل فرشتہ‘ ٹائپ لوگوں سے خون خرابے کروائے، ایمرجنسی کی افواہیں اور دھمکیاں اپنے وزیروں، مشیروں سے اڑواتے رہے اور پھر کہا ’عزیز ہموطنو اسلام علیکم‘۔ اسی تاریک رات میں ، بھاری بوٹوں کی دھمک اور ملی نغموں کی ملی جلی گيدڑ رات میں ا گر کسی نے اپنے ضمیر اور انصاف کی لو اونچی رکھی ہوئی تھی تو وہ جسٹس افتخار محمد چوھدری اور انکے برادر ججز تھے جنہوں ایک بڑی ’نہ کہتے ہوئے‘ موچی کا جوتا موچی کے منہ پر نہیں بلکہ جنرل کا لانگ بوٹ نما ایمرجنسی اور پی سی او آرڈر کالعدم قرار دیکر جنرل کے منہ پر دے مارا۔ آمریت کو بچانے کیلے ملک کے کور کمانڈروں اور چور کمانڈروں نے ایک بار پھر شب خون مارا ہے۔
اعتزاز احسن اپنی تیس روز کی نظربندی میں جاتے جاتے کہہ گئے ہیں کہ تیس دن تک مشرف نہیں ہونگے یعنی کہ یہ آفات نہیں ہونگي۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب حسن صاحب آج لگتا ہے افواج پاکستان نے ايک دفعہ پہر پاکستان فتح کر ليا ہے۔