اور اب ایمرجنسی نمبر دو
صدر بش نے صدر جنرل مشرف کو فون کر کے یاد دلایا ہے کہ ہم نے تمہیں ایمرجنسی سے باز رکھا تھا لیکن تم نے پھر بھی لگا دی۔ اب جلد سے وردی اتارو، الیکشن کراؤ اور جمہوریت بحال کرو۔ اب صدر مشرف بھی کسی کو فون کر سکتے ہیں۔ ڈانٹ کا نہیں مبارکباد کا۔
جارجیا کے صدر میخائل ساکیشولی نے صدر مشرف کی تقلید کرتے ہوئے ملک میں پندرہ روز کی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ لوگ صدر مشرف پر ویسے ہی تنقید کرتے ہیں کم از کم دنیا میں ایک تو ایسا شخص ہے جو جنرل صدر صاحب کے خیالات سے اتفاق کرتا ہے۔ اگرچہ جارجیا کے صدر نے ایمرجنسی کی وجہ ہمسایہ ملک کی سازشوں کو بتایا لیکن حزبِ اختلاف اور عوام کی اس بات کو ماننے سے بالکل انکار کیا کہ وہ کسی بھی طرح کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی کرسی نہ چھوڑنے کا بھی اعلان کر ڈالا۔ یہی سب کچھ ہمارے جنرل صدر نے بھی کیا۔ اپنے آپ کو (آپ اسے حکومتی نظام کہہ لیں) اتنا ڈانٹا اتنا نااہل کہا کہ خدا کی پناہ اور آخر میں اس کا حل یہ نکالا کہ میں اسے اس طرح نہیں دیکھ سکتا۔ اب اسے ٹھیک کر کے ہی جاؤں گا۔ میں نہیں جا رہا اس لیے ایمرجنسی ضروری ہے۔
جارجیا کے صدر ساکیشولی نے اپنی ایمرجنسی میں لوگوں کے سڑکوں پر آنے اور نجی میڈیا پر پابندی لگائی ہے۔ ہمارے جنرل صدر نے بھی یہی کیا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خون سنگھا کر چھوڑ دیا تھا۔ (پہلے قانون کو زلیل کرنے کے بعد)۔ اب انہیں قوم سے ایک اور خطاب کرنا چاہیئے اور بتانا چاہیئے کہ صرف میں نے نہیں دنیا میں کوئی دوسرا بھی ملک ہے جس نے میری نکل کرتے ہوئے صرف میرے تین دن بعد ایمرجنسی لگا دی ہے۔ کیونکہ پاکستان کا نام بلند ہو رہا ہے اسلیئے ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیئے۔
جارجیا ابھی نیا ملک ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ پاکستان سے بہت کچھ سیکھ رہا ہے۔ انیس سو اکانوے میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد یعنی انیس سو بانوے میں ہی پہلے صدر غمساخوردیا کو اقتدار سے برطرف کر دیا گیا۔ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں بالآخر غمساخوردیا ہلاک کر دیے گئے۔ ایڈورڈ شیورڈنازے الیکشن جیتے اور بعد میں ’گلابی انقلاب‘ کی نظر ہوئے۔
موجودہ صدر اور ہمارے جنرل صدر میں ایک اور بھی چیز مشترک ہے اور وہ ان کا صدر بش کا منظورِ نظر ہونا۔ امریکہ سے پڑھے ہوئے ساکیشولی صدر بش کو ایک بہت دور اندیش صدر مانتے ہیں اور ہمارے جنرل صدر مشرف بھی انہیں اپنے علاوہ کسی سے کم نہیں سمجھتے۔ سن دو ہزار پانچ میں جب صدر بش جارجیا گئے تھے تو صدر ساکیشولی نے کہا تھا کہ امریکہ سے زیادہ دنیا کا کوئی بھی ملک جارجیا سے قریب نہیں ہے جس نے جمہوری اقدار کے پھیلاؤ اور مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ صدر مشرف کا بھی شاید دنیا میں اب ایک ہی دوست رہ گیا ہے۔
جارجیا نے ابھی نئی نئی آزادی حاصل کی ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ آس پاس خصوصاً پاکستان پر گہری نظر رکھے۔ ہمارے تجربات سے اسے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
واؤ۔ کوئی اور قوم بھی ہے جسے ہمارے جیسے حالات کا سامنا ہے۔ زبردست۔
ميں تو بس جارجيا کے مشرفيہ طرز کے صدر کو ان کی زبان ميں يہی کيوں گا کہ
‘ميستپ اناستپ دا وی سا زاويرائي’
جس کا مطلب ھے کے جو کچھ کرنا ھے جلدی کرلو ورنہ تمام دروازے بند ھوجائيں گے۔ جيسا کے مسٹر مشرف کے ساتھ ھورھا ھے۔
امريکہ ، پيپلز پارٹی ، کينيڈين امداد، اس کے علاوہ سالانہ ايک بلين سے زائد امريکی ڈالر بنام پاکستانی افواج برائے استعمال جہادی، اپوزيشن اور اب پاکستانی ميڈيا۔
مشرف پا کستانی قوم سے جانوروں جیسا سلوک کرتا ہے لیکن اب قوم کو چيف جسٹسں تحريک سے نيا حوصلہ مل چکا ھے۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ دی ہے کبھی تو ان کا حساب ہو گا
سکوت صحرا میں بسنے والو ،ذرا رتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکون سے گذرا تو کل کا موسم خراب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو گھٹن بڑھے گی اتنی کہ سانس لینا محال ہو گا
وہ دن گئے جب ہر ایک ستم کو ادائے محبوب کہہ کہ خوش تھے
اٹھے گی اب کو ئی اینٹ ہم پر پتھر اس کا جواب ہو گا
کاش ۔۔۔۔۔۔۔
شميم بھائی السلام عليکم
بہت اچھا موازنہ کيا ہے آپ نے مگر ايک چيز قدر مشترک ميں نہيں آتی اور وہ ہے جنرل صاحب کا انتخاب ۔ جارجيا ميں اب تک جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ وہاں کی داخلی سياست کا نتيجہ رہا ہے جبکہ پاکستان ميں جب جب بھی اقتدار بدلا ہے اس کے لائے صاحب بہادر ہی نے بساط بچھائی ہے۔ مشرف کيسے اقتدار ميں آئے اور اب تک ان کی اقتدار پر برقراری کس کی پشت پناہی کا نتيجہ تھی يہ تو سبھی جانتے ہيں جبکہ جارجيا کی سياست ميں امريکہ کی مداخلت نہيں کے برابر رہی ہے۔
پاکستان ميں ايمر جنسی لگی تو رائس صاحبہ نيگروپونٹے اور پھر صاحب بہادر نے ايک ساتھ راگ الاپنا شروع کرديا تھا حتیٰ کہ سرکوزی بھی جن کا دور سےبھی پاکستان کي سياست سے واسطہ نہيں
ہے بڑے دھڑلے سے يہ کہتے نظر آئے کہ پاکستان ميں جو کچھ ہورہا ہے قابل تشويش ہے۔ ويسے ايک بات کہوں جب تک دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی جنگ جاری رہے گی پاکستان کی سياست دنيا والوں کو بے چين کرتی رہے گی۔ کيوں نہ ہو بقول شخصے بن لادن، ملا عمر طالبان وغيرہ وغيرہ ان سب کے محفوظ ٹھکانے پاکستان ہی ميں تو ہيں۔خير انديش سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
ہائے او ربا کب جان چھوٹے گی قوم کي؟ کب اس کے قصور معاف ہوں گے؟
يا اللہ اب اس کو اس فوج سے نجات دے دے۔