مشرف، مونا لیزا اور ضیاء
لو بھائیو تے بہنو، منڈیو تے کڑیو! چاچے نے آخرکار وردی لاہ ہی لئی۔ جس دن وہ اپنی کھال سمجھی ہوئی وردی اتار رہے تھے، اس دن یہاں نیویارک میں لطیفہ چل نکلا تھا کہ آج آدھی رات کے بعد نابالغ لوگ ٹی وی سے دور رہیں کیونکہ جنرل مشرف اپنی وردی اتاردیں گے۔
ہم جیسی قومیں جن میں سے کئیوں کی تمام بالغ عمر ’بادشاہ ننگا ہے‘ دیکھتے اور سنتے گزر جاتی ہے، وہاں حکمرانوں کی وردیوں اور ارمانی کے ڈیزائينر سوٹوں میں ملبوس ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے! جہاں ہوتا ہی سادہ لباس والوں کا آج اور راج ہو، ایوب خان، پنوشے، اور میلسووچ بھی تو بعد میں بغیر وردی کے اپنے لوگوں کی گردنوں پر سوار رہے تھے ناں!
’کیا تمہیں اس (مشرف ) حکومت کا کوئی اچھا کام بھی نظر آتا ہے؟‘ میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا۔
’ہاں، کشمالہ طارق‘ میں نے کہا۔
’میری یہ لائن نہیں لیکن سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو خدا چھٹی کے دن بنایا کرتا ہے۔‘ میں نے اپنے دوست سے کہا۔ اس دفعہ مشرف حکومت نے اپنے سپن بہت ہی خوبصورتی سے گھمانے کیلیے سرکاری خزانے سے کشمالہ طارق کو امریکہ بھیجا ہے۔ جہاں بھیجے جانے والے سرکاری وفود میں احمد رضا قصوری اور نسیم اشرف جیسے صفائي کے وکیل ہوں وہاں کشمالا طارق کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آمریت کے ھاتھوں بھی کبھی حسین غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ڈرائنگ روم میں مونا لیزا کی پنٹنگ تھی۔
’میں کل پاکستانی قونصل خانے کی ایک تقریب میں گیا تھا وہاں کشمالہ طارق بھی پاکستان سے سرکاری وفد میں آئي ہوئی تھیں‘ میرے ایک اور دوست نے مجھ سے کہا۔ اس نے بتایا کہ پاکستانی فوٹوگرافر انکی تصاویر ایسی برق رفتاری سے لے رہے تھے جیسے پاپا راکسی شہزادی ڈیانا کی تصاویر لیا کرتے تھے۔ میں نے سوچا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے اور قونصل خانے اپنی تقریبات میں شراب سرو نہیں کیا کرتے لیکن حکومتی اور قومی سپن کو کنتی خوبصورتی سے گھموانے کا انتظام تو کرتے ہیں۔
مونا لیزا اور ضیاء دونوں ہم پر ہنس رہے ہیں۔ کیا آپ نے کل والے اخبارات میں مگر مچھ کو آنسو بہاتے دیکھا؟
تبصرےتبصرہ کریں
جيو حسن
کشمالہ طا ر ق کے بارے ميں آپ کی بات سو فيصد درست ھے