جمہوریت کے حمایتی
جنرل مشرف صاحب اپنے قول کے پکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ وردی اتار دیں گے اور دیکھیں اب وہ وردی اتار رہے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ سب کچھ جمہوریت کے لیے کر رہے ہیں، دیکھیں وہ فوجی آمر سے جمہوری صدر بن گئے ہیں۔ آخر ہم ان پر اتنا شک کیوں کرتے ہیں۔
ہم کیوں ان کی وہ باتیں پکڑتے ہیں جو وہ کسی مصلحت کے تحت نہ کر پائے یا جو رضائے الٰہی نہیں تھیں اور ان باتوں کا ذکر نہیں کرتے جو انہوں نے کی ہیں۔ آخر اس میں کیا ہوا کہ صدر مشرف نے کہا کہ نواز شریف پاکستان نہیں آ سکتے اور وہ آ گئے۔ انہوں نے تو کوشش کی تھی بلکہ نواز شریف کو آنے کے بعد بھگا بھی دیا تھا پر وہ دوبارہ رضائے الٰہی سے آ گئے۔اب اس میں پرویز مشرف کی کیا غلطی ہے۔
انہوں نے بینظیر بھٹو کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ وہ پاکستان آنا نہیں چاہتیں کیونکہ ان کے خلاف مقدمات ہیں اور وہ ان کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہیں۔ پھر انہیں کسی مصلحت کے تحت یہ بھی بینظیر کو کہنا پڑا کہ ابھی پاکستان نہ آئیں کیونکہ حالات سازگار نہیں۔ وہ واقعی نہیں تھے۔ جیسے ہی بینظیر نے پاک سر زمین پر قدم رکھا سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ بم چلے، ایمرجنسی لگی، جج برخاست ہوئے، سپریم کورٹ نے ایک سو اسی ڈگری کا پینتررا بدلہ، جنرل کی وردی اتری اور نواز شریف شاہوں کے جہاز میں ملک میں واپس آ گئے۔ بینظیر نے اپنی من مانی کی۔ ہم پھر بھی جنرل صاحب کو غلط سمجھے۔
جنرل صاحب نے یہ بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ بینظیر اور نواز شریف انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ بھئی آخر کیا ہوا۔ ان دونوں نے ابھی کاغذ ہی جمع کروائے ہیں کوئی انتخابات میں حصہ تونہیں لیا یا جیت تو نہیں گئے۔ جنرل صاحب کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ انہیں بہت سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔
اب ماشا اللہ ملک میں چھ حیات وزیرِ اعظموں کی موجودگی میں بھی کوئی کہے کہ یہ جمہوری ملک نہیں ہے تو اس کی عقل کا ہی قصور ہو گا جمہوریت کا نہیں۔ یہ بھی تو جمہوریت ہی ہے کہ شوکت عزیز کو ٹکٹ نہیں مل رہی، ظفر اللہ جمالی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے اور بینظیر کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کبھی بھی آ سکتا ہے۔
ان لوگوں کے بھی اب منہ بند ہو جانے چاہئیں جو کہتے تھے کہ بینظیر کو تو آنے دیا گیا لیکن نواز شریف کو دوبارہ ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ بینظیر سے ڈیل کی گئی لیکن نواز شریف سے نہیں۔ اب اگر نواز شریف مشرف صاحب کے ساتھ نہ بھی چلیں وہ آسمان سے نہیں آ گئے کہیں تو کسی نے کوئی ڈیل کی ہو گی۔
اور کوئی بھی تو یہ نہیں کہتا کہ یہ جنرل صاحب ہی تھے کہ جن کے دور میں کسی بھی جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیے اور کوئی وزیرِ اعظم بغیر کسی صدر یا ڈنڈے کے اپنی مدت پوری کر کے گیا۔
ہم کو چاہیئے کہ پرویز مشرف کو بطور جمہوری صدر قبول کریں اور ان کے ساتھ وہ ہی سلوک کریں جو کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کے حامی یا جمہوریت کا خون کرنے والے سے کیا جاتا ہے۔ اگر عدالتیں آزاد ہو جائیں تو وہ یہ فیصلہ کر سکتی ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
شميم بھائی
بڑا ہی دانشمندانہ مشورہ ہے آپ کا مگر کيا يہ ممکن ہے؟ اگر صاحب بہادر کی مرضی ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی جنرل صاحب کو جمہوری صدر سمجھنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ويسے ايک بات تو ہے اگر في الواقعی وہاں جمہوريت آجائے تو کيا يہ چھوڑنے والے ہيں۔ نواز شريف کی بدلہ لينے کی عادت اور بی بی کے اندر جوابی کارروائيوں کے لیے پائی جانے والی بے تابيوں کو کون نہيں جانتا۔ وہ تو جيہ لليتا والا مزاج رکھتی ہيں۔ ويسے ايسا نہيں لگتا کہ وردی اترنے کے بعد مشرف صاحب بے اثر ہوجائینگے۔ ان کے کھيل نرالے بھی لگتے ہيں ہولناک اور بروقت بھی۔ آگے آگے ديکھيے ہوتا ہے کيا۔
خير انديش
سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن
VERY NICE BLOG DEAR SHMIM SAHB.I LIKE ALL ý'S BLOGGERS AND HIS BLOGS VERY MUCH.
گذارش ہے آئيڈيلزم کا حقيقت کي اس دنيا سے کوئي واسطہ نہيں جس ميں آپ اور ہم جي رہے ہيں۔ يہاں آسمان سے فرشتوں کي عدم نزولي ميں جو ميسر ہے اسی کو لے کر چلنا ہو گا۔ بری سے بری جمہوريت فوجی آمريت سے بہتر ہے کہ نئے چہروں سے بہتری کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ دوسري طرف کسي اسمبلي لائن پر تيارشدہ مال کي طرح ايک ہي سانچے ميں ڈھلے يکساں سوچ کے حامل جرنيل بارياں لگاتے رہتےہيں اور وقت گزر جاتا ہے۔ قوم ساٹھ برس چل کر بھي وہيں کي وہيں کھڑي نظر آتي ہے، کولہو کے بيل کی طرح۔
آداب عرض! مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مہان جمہوريت پسند تو آپ خود ہيں، اسی لیے تو يہ بلاگ لکھا آپ نے۔.جمہوريت کی تعريف کسے معلوم نہيں؟يعنی لوگوں کا راج اسی سلسلے ميں اقبال کا وہ شعر، کہ بندوں کو گنا کرتے ہيں تولا نہيں کرتے،
بات کچھ بھی ہو ہر انسان اس جہان ميں جمہوريت کا چاہنے والا ہے ،البتہ نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپني.
سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جمہوريت کو حاصل کيسے کيا جائے؟جن قوموں نے اسے حاصل کيا ان ميں ابتدا سے کيا خصوصيات تھيں اور اسے جوان کرنے ميں کتنا عرصہ لگا.ان سوالوں کے جواب ہميں پہلے تلاش کرنے چاہئيں اور ہميں اندازہ ہو جاۓ گا کی پاکستان میں جمہوريت آ سکتی ہے کہ نہيں۔.اک بات کاالبتہ مجھے يقين ہے کہ ہمارا ديس جلد جمہوری ہو گا کيوں کہ عوام ميں اس کی خواہش زبردست ہے۔ یہ کس طرح کي جمہوريت ہو گی يہ ایک الگ سوال ہے۔جنرل مشرف نے جمہوريت کو بہت کچھ ديا کہ وردی بھی اتار دی وہ قابل تعريف ہيں۔ شکريہ
عارف شمیم صاحب
جو آٹھ سال پہلے جمہوريت کا گلا گھونٹا گيا تھا اب اُس جمہوريت کو آکسيجن لگا کر زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ليکن کيا آکسيجن کا نيا سلينڈر ملک قيوم اس جمہوريت کو سہک سہک کر آکسيجن لگانے کی بجاۓ مسلسل آکسيجن دينے کے لے ايک نيا فارمولہ تيار کرنے ميں کامياب ہو جاۓ گا۔
امين الدين، لاہور