| بلاگز | اگلا بلاگ >>

مسٹر بھٹو زرداری

حسن مجتییٰ | 2007-12-31 ،12:58

یہ ایک بلکل نئی کوریو گرافی ہے۔ سندھی اجرک اور ٹوپیوں میں بینظیر کی قبر پر رات کے اندھیرے میں پھولوں کی چادر چڑھاتی ہوئی پاک فوج اور دن دہاڑے پی پی پی کے نئے چیئر پرسن آصف علی زرداری۔
blo_bb_bilawal_150.jpg

اے میرے وطن کے سجیلے جنریلو! تم قتل کرتے ہو کہ کرامات کرتے ہو! دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ! ماتم کدہ پاکستان میں لاشوں کے نیلام گھر کے نئے طارق عزیز اینڈ کمپنی کا سلام پہنچے۔

اس کی بلٹ پروف گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر خالد شہنشاہ، اس کے ساتھ والی سیٹ پر سیکیورٹی انچارج میجر (ریٹائرڈ) امتیاز، پچھلی سیٹ پر مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور بینظیر بھٹو جو اب گاڑی کی سیٹ پر خون سے بھرا تالاب، چار قلوں والی ہری چادر، ایک جوتے، اور پاکستان کے کروڑ ہا ورثاء کے باوجود بغیر پوسٹ مارٹم کروائی ہوئی ایک مقتولہ سندھی عورت وزیر اعظم جو سی ون تھرٹی میں چکلالہ ائیرپورٹ سےگڑھی خدا بخش میں دفنا دی گئیں۔

سندھ کی ناخوش وادی کے الم نصیبو جگر فگارو! پنجاب کے وہ پروانے بھی یاد رکھنا جو سندھ کی اس بیٹی پر مر مٹے۔ جنہوں نے خود کش بمار کو نہتے ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی۔ بہرے کانوں پر جیالوں کے نعرے ان سنے رہے ’ملک کی مجبوری ہے صنم بھٹو ضروری ہے‘ (اور صنم بھٹو کی اپنی مجبوری تھی)۔

اگست انیس سو نوے میں پرائیم منسٹر ہاؤس سے معزول ہوتی وزیر اعظم کے سامان کے ٹرکوں میں آصف علی زرداری کے گھوڑے اور بلاول کا جھولا بھی ساتھ آئے تھے۔ اب آصف کا تو پتہ نہیں لیکن بلاول بڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور انڈین نیشنل کانگرس میں مماثلت ڈونڈھنا عبث ہے کیونکہ نہرو کی پارٹی فیروز گاندھی کو نہ جہیز میں ملی تھی نہ وصیت میں!

کل نیویارک میں پی پی پی کے ایک پرانے کارکن کہہ رہے تھے، ’مگرمچھ کے منہ میں اس وقت بازو نہیں دیا جاتا جب اس کی آنکھ میں انسو ہوں۔‘

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:20 2007-12-31 ,abdulsattar zahid ch :

    بےنظیر بھٹو ’شہید‘ ہوئیں، پارٹی قیادت کے ساتھ تمام کہے ان کہے شکوے، گلے، رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں اپنے ساتھ ہی نوڈیرو کی منوں مٹی تلے لے گئیں۔ آج تو محمود و اعتزاز سمیت سبھی ناراض کارکن اور دیرینہ رفیق ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
    خدا نہ کرے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کسی اور ’پارٹی‘ کے شریک کار ثابت نہ ہوں، خدا نہ کرے۔۔۔ خدا نہ کرے۔۔۔

  • 2. 15:39 2007-12-31 ,zafar qazi :

    اس مختصر تحرير میں بينطير کے قتل کی مکمل حقيقت پوشيدہ ہے۔ مزيد گفتگو محض وقت کا ضياع ہو گا۔

  • 3. 16:51 2007-12-31 ,آفتآب عالم خانزادہ :

    حسن حيدرآبادی سلام!
    کافی گہرائی میں سوچتے ہو۔۔ ابھی تک اللہ کرے زور سخن اور زيادہ ويسے عقل کے اندھوں میں نظر کے چشمے بانٹ رہے ہو بھائی۔۔۔

  • 4. 17:01 2007-12-31 ,Muhammad Riaz Khan :

    میرے بھائی تم کتنے سچے ہو۔ پاکستان میں ہو کیا؟ اگر ہاں تو بچ کر رہنا۔۔۔

  • 5. 17:09 2007-12-31 ,آفتآب عالم خانزادہ :

    حسن مجتبی خوش رہو۔ بہت پرانا حوالہ ہے آپ سے شناسائی کا غائبانہ سا۔ ماشااللہ قلم کی دھار وہی خنجر والی ہے ابھی تک ليکن ايک بات کہنا چاہتا ہوں آپ سے کہ عقل کے اندھوں میں آپ اب تک نظر کے چشمے بانٹ رہے ہو۔ بہرحال اللہ کرے زور قلم اور زيادہ۔

  • 6. 1:29 2008-01-01 ,طلعت :

    ’نثار میں تيری گليوں پہ اے وطن کہ جہاں
    چلی ہے رسم کہ کوئي نہ سر اٹھا کے چلے‘

  • 7. 6:16 2008-01-01 ,khalid :

    کيا اعتزاز احسن ايک بہترين چوائس نہيں تھے؟

  • 8. 6:38 2008-01-01 ,rizwan :

    کيا بکواس ہے!

  • 9. 14:49 2008-01-01 ,ali hussain :

    مجھے کيوں لگتا ہے کہ بھٹو خاندان زرداری خاندان کی سازش کا شکار ہوا ہے جس ميں وقت کٹھ پتلی ثابت ہوا ہے۔ يہاں وقت سے مراد مشرف يا طالبان يا کوئی اور سمجھ لیں۔۔۔

  • 10. 14:30 2008-01-04 ,نجيب الرحمان سائکو :

    محترم حسن صاحب، کم از کم فدوي کے مطابق پہلي بار آپ نے آج کے بلاگ میں دريا کو کوزے ميں بند کرکے بندہ کو حيران کرکے رکھ ديا ہے۔ اميد کرتا ہوں آپ آئندہ بھی ايسی کاوشيں جاری رکھیں گے۔
    مخلص
    نجيب الرحمان سائکو
    لاہور، پاکستان

  • 11. 11:45 2008-01-07 ,نجيب الرحمان سائکو :

    پيارے حسن مجتبيٰ، ازراہ مہربانی دريا کو کوزے میں بند کرنے پر خاکسار کی طرف سے ايک عدد عقيدت بھرا سيلوٹ قبول فرما کر ممنون فرما ديں۔ شکريہ
    مخلص،
    نجيب الرحمان سائکو
    لاہور- پاکستان

  • 12. 5:21 2008-01-09 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    خدا بلاول کی حفاظت فرمائیں اور ملکی اتحاد قائم رہے۔ سانحہ سخت ہے۔ خدا خود کش حملے کرانے والوں کو بےنقاب کريں۔ مزيد قربانی کي شايد قوم میں سکت نہ رہے۔

  • 13. 11:44 2008-01-09 ,shahidaakram :

    حسن صاحب اس بلاگ کا ہر لفظ اپنے اندر جو درد سموئے ہُوئے ہے وہ بند آنکھوں اور بہرے کانوں والے کو بھی دکھائی اور سُنائی دے رہا ہے۔ سال کے اس آخری دن کی آخری شام کو کہنے کو بہت کُچھ ہے ليکن الفاظ لگتا ہےگُنگ ہيں يا شايد اپنے معنی کھو چُکے ہيں۔ ہر انسان کی زندگی ميں ہزاروں انفرادی دُکھ ہوتے ہيں ليکن کُچھ دُکھ ايسے ہوتے ہيں جو اجتماعی ہوتے ہيں اور ان کی کسک ہميشہ ترو تازہ رہتی ہے۔ بُھٹو کی پھانسی کا دُکھ بھی ايک ايسا ہی زخم ہے جو اتنے برسوں بعد بھی کل کی بات لگتا ہے اور اب يہ تازہ واردات يا سانحہ کہيں جسے، جسے نہ ہی دل اور نہ ہی دماغ ماننے کو تيّار ہے۔ ليکن دل کو تسلی صرف يہ کہہ کر ہی دے سکتے ہيں بحيثيّت ايک مُسلمان کہ جس کا جو وقت مُقرر ہے اُس وقت صرف اُسی کو جانا ہے۔ جيسے بُلٹ پرُوف گاڑی ميں سے صرف بی بی کو ہی جانا تھا اور وہ چلی گئیں۔ ارد گرد حفاظت کرنے والے جاں نثاروں پروانوں کے باوجُود جو اپنے طور پر جاں نثاری کے نہ صرف دعوے دار تھے بلکہ حقيقت ميں جاں نثار کر گئے۔ ليکن اس کو کيا کہيں کہ
    ’حق تو يہ ہے کہ حق ادا نا ہُوا‘
    دُعا ہے کہ اب پيپلز پارٹی کی نئی قيادت مُلکی سطح پر کُچھ اچھا کرنے کا سوچے اور اللہ کرے سب اچھا ہی ہو۔ دُعا کريں آپ بھی اور ہم تو ظاہر ہے کر ہی رہے ہيں۔ دُعاگو ہُوں کہ يہ نيا سال سب کے لیے خُوش آئيند ثابت ہو۔ بی بی سي کي پُوري ٹيم کو اور سب محترمين کو بھي خاص طور پر نئے سال کي مُبارک قبُول ہو
    دُعاؤں ميں ياد رکھيے گا
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔