کرسمس، عید، کالا رنگ اور بینظیر
اگر کوئی کہے کہ آکسفرڈ اور ہارورڈ کی تعلیم، دو مرتبہ وزیر اعظم، اور ایک پالولر لیڈر ہونے سے کسی کے رنگ کی بنیاد پر کسی سے متعصب ہونے میس تبدیلی لا سکتی ہے تو کم از کم سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب رحیم کے معاملے میں بینظیر بھٹو پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
یہی ان کے (بینظير بھٹو) کے اندرون سندھ، میرپور خاص کے دورے کے دوران سننے میں آیا، جب انہوں نے اپنی پارٹی کے اتنخابی جلسوں میں جگہ جگہ اپنے حلیف کا نام لیے بغیر ان کی جسمانی رنگت کی بنیاد پر انہیں ’کالے کوے‘ سے تعبیر کیا۔
صرف وہاں ہی نہیں جہاں صدقہ کالے بکروں اور کالے مرغوں کا دیا جاتا ہے، لیکن جہاں میں رہتا ہوں وہاں بھی غیر تحریر فلسفۂ زندگی ’کالے نوں گورا کرے تے گورے نوں چن ورگا‘ کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کرسمس کے دن کینڈی (ٹافیاں) بانٹتے میرے پڑوسی کے قدم آتے آتے میرے اپارٹمینٹ پر آنے سے پہلے کہیں اور مڑ نہ جاتے، مجھے لگا۔
کرسمس اب عید اور ہولی، دیوالی کی طرح بہت بڑی نمائش اور کاروبار بن گیا ہے۔ مجھے یاد آئی گبریل گارسیا مارکيز کی وہ بات کہ ایک غریب اور بن باپ کے بچے کا اچراغاں اور اس تمام دھوم دھام سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا! لیکن میں خوش ہوں کہ مجھے عید مبارک بھیجنے والے میرے ایک دوست نے پھر مجھے تھر سے ’ہیپی کرسمس‘ بھی کہہ بھیجی ہے۔