| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ایک کامیاب ورکنگ وومن

عنبر خیری | 2008-01-22 ،13:57

بینظیر بھٹو کی موت کے بارے میں سوچ کر بڑا غم ہوتا ہے۔ دو دہائیوں سے صحافت میں رہتے ہوئے ہم نے ان کے سیاسی کریئر کو قریب سے دیکھا اور ان کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا۔
blo_benazir203.gif
بےنظیر بھٹو: چند یادگار تصاویر

اب جب کہ وہ اس دنیا سے جا چکی ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کی بہت سی کامیابیوں کو بالکل نظر انداز کیا۔

بڑی ہمت والی خاتون تھیں، اور مستقل مزاجی سے پاکستان جیسے


انہوں نے سیاسی کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو زندگی بھی قائم رکھی۔ انیس سو اٹھاسی میں ضیاء حکومت کی پوری کوشش تھی کہ وہ انتخابات کی تاریخ ایسی مقرر کرے جو بینظیر بھٹو کے بچے کی پیدائش کے بہت قریب ہو تاکہ وہ انتخابی مہم میں کم از کم حصہ لے سکیں۔ انہیں حکومت کے ارادے کا پتہ تھا سو کراچی میں ان کے ڈاکٹر نے فائل میں بچے کی پیدائش کی متوقع تاریخ نومبر لکھ دی۔ حکومت نے انتخابات کی تاریخ نومبر مقرر کی۔

بے نظیر بھٹو کا بیٹا ستمبر میں پیدا ہوا اور وہ انتخابی مہم میں وہ پوری طرح سے شریک ہوئیں اور دسمبر میں وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کی پہلی بیٹی ان کے دور حکومت میں پیدا ہوئی۔ دوسری بیٹی اس وقت پیدا ہوئی جب ان کی جماعت اپوزیشن میں تھیں۔

انیس سو اٹھاسی میں حزب اختلاف، اسلامی جمہوری اتحاد نے انتخابی مہم میں ان کی اور ان کی والدہ کے خلاف ایک بہت گندی میڈیا کیمپین چلائی جس میں ان کی کردار کشی کی گئی اور دونوں خواتین کے بارے میں فحاشی کے دعوے کیے گئے۔ آگے چل کر ان کے دشمنوں نے ان کے کردار کو تو نشانہ بنانا چھوڑ دیا لیکن ان کے شوہر کے کردار اور مبینہ بد عنوانی کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور اس کے بارے میں بہت سی افواہوں نے جنم لیا۔

ہم صحافیوں نے اس وقت بھی بینظیر پر بہت تنقید کی تھی جب انہوں نے اپنا سیاسی یونیفارم مقرر کیا جس میں ان کے سر کا سفید ڈپٹہ نمایاں تھا۔ ہم ’لبرل‘ افراد کا خیال تھا کہ یہ مولویوں کے دباؤ میں آگئی ہیں جو کہ ایک سیکیولر لیڈر کے لیے مناسب نہیں۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ ان کا فیصلہ بالکل درست تھا اور ہماری روایتوں سے ہم آہنگ۔

میرا خیال ہے کہ بینظیر ایک کامیاب ورکنگ وومن تھیں، اور اکیسویں صدی کی پاکستانی خواتین کے لیے وہ ایک مثال بنیں۔ اور ہمارے سخت میل شووِنسٹ معاشرے میں انہوں نے کبھی ہار نہ مانی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:22 2008-01-22 , سجادالحسنين حيدرآباد دکن :

    عنبر جی!
    ايک عرصے بعد آپ کا بلاگ ديکھا اچھا لگا۔
    جانے والے چلے جاتے ہيں
    جانے والوں کی ياد آتی ہے
    يقينا بے نظير بے نظير تھيں۔ ان کی موت ناگہانی ضرور تھی مگر اس موت نے ايک انقلاب ضرور برپا کيا ہے۔ دہشت گردی نے پتہ نہيں کيوں معاشرے کو ايک ايسے دوراہے پر لا کھڑا کيا ہے جہاں ہر آدمی اپنے آپ کو موت کے قريب پاتا ہے، اپنے آپ کو غير محفوظ تصور کرتا ہے اور خون آشام تاريخ کا نظارہ کرتا نظر آتا ہے۔ ايک باہمت خاتون بھی شايد اسی موت کا شکار بنی ہيں يا ہوسکتا ہے يہ ايک ٹارگٹ کلنگ ہو جو بھی ہو، تاريخ نے ايک بار پھر ہوا کی بيٹی کو خون ميں لت پت ديکھا ہے۔ اندراگاندھی کی موت بھی ايک دہشت گردی کا ہی نتيجہ تھی مگر المناک تو يہ ہے کہ بے نظير کو مارنے والے کون تھے کہاں تھے اور کيسے پلاننگ کی گئی تھی اس کا آج تک پتہ نہيں چل پايا ہے۔ وہ جو کوئی بھی رہے ہوں اتنا ضرور ہے کہ وہ مسلمان نہيں کہلاسکتے۔ بے نظير ايک کامياب ورکنگ وومن تھيں۔ مشکلات کے باوجود ڈٹی رہيں۔ کيا يہ کم عظمت والی بات نہيں ہے کہ انہوں نے موت کی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالی تھيں۔ پاکستان آنے سے پہلے اور پاکستان ميں انہوں نے ہر انٹرويو ميں بار بار يہی کہا تھا کہ انہيں موت کی دھمکياں دی جارہی ہيں اور وہ يہ بھی کہتی رہی تھيں کہ وہ موت سے ڈرنے والی نہيں ہيں۔ گويا ان کے قول و فعل ميں کوئی تضاد نہيں تھا اور يہی عظمت کی ايک اعلی مثال کہلائے گی۔ ہار نہ ماننے کی بھی!!
    خير انديش

  • 2. 16:28 2008-01-22 ,ذاکٹر طاہرمحموداعوان :

    کاش ہم نے بھٹوز کو ان کی زندگی ميں ہی پہچان ليا ہوتا اور ان کی صلاحيتوں سے استفادہ کيا ہوتاـ

  • 3. 17:54 2008-01-22 ,اے رضا :

    محترمہ عنبرخيري صاحبہ
    پشيمانياں تازہ کر دي ہيں آپ نے نامور صحافيوں کي براہ راست پہنچ کے برعکس ايک عام شہري انہي کي تحريروں اور تبصروں پر راۓ قائم کرتا ہے - آپ وہ پہلي ہستي ہيں جس نے اخلاقي جرات کا مظاہرہ کرکے اس غلطي کا اعتراف کيا ہے کہ محترمہ کي بہت سي کاميابيوں کو نظرانداز کر ديا گيا ورنہ بي بي سي پر ہي آج انتہائي سوگوار تحريريں لکھنے والوں نے مرحومہ کي زندگي ميں کبھي انہيں اچھے لفظوں سے ياد نہيں کيا تھا - آج ان حضرات کو يوں بري الذمہ ہوتے ديکھ کر خود اپني کوتاہي کا احساس ہوتا ہے - حسن اتفاق سے ذاتي مشاہدے کي بنياد پر حتمي راۓ قائم کرنے کے نادر مواقع ميسر تھےجنہيں ميں نے ضروري ہي نہ سمجھا - يہ بہت بڑي حماقت تھي - آج مختلف ذرائع سےجب حقائق سے پردہ اٹھ رہا ہے تو سر پيٹ لينے کو جي چاہتا ہے - ايک تلخ سبق ہے جوعمر بھر ياد رہے گا -

  • 4. 18:24 2008-01-22 ,ايوب خان :

    عنبر خيری صاحبہ آداب!
    آپ کے خيالات پڑھ کر بچپن ميں سنا يہ شعر ذہين ميں آيا
    دست غربت ميں وطن ياد آيا
    جب کر چکے دفن تو دوستوں کو کفن ياد آيا
    بے نظير سے نظرياتی اختلاف کيا جا سکتا تھا جو عين جمہوری بات ہے مگر انکی حثيت سے انکار ممکن نہيں- بلا شبہ پاکستان کي ايک آواز خاموش ہوگئ جيسے چمن سے بلبل روٹھ جاۓ اور سارا چمن سونا سونا ہو جاۓ- ميں نے کبھی بھی انکی سياسی حمايت نہيں کی مگر انکے قتل کا سن کر دل خون کے آنسوں رويا-

  • 5. 18:26 2008-01-22 ,AHMED BALOCH :

    وہ پاکستان کی تاريخ مين تا ابد ياد رکھی جاييگی مگر ياد کر کے شديد افسوس اور رنج ھوتاھے

  • 6. 19:51 2008-01-22 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :


    آپ کی تحرير ايک جرات آميز اور اعلی ظرفی کی بہترين مثال ہے ايک بہادر خاتون محسن نقوی شہيد کے الفاظ ميں دشمنوں ميں گھرئ بنت فخر ِ ايشيا کو بہترين خراج ِ عقيدت پيش کيا ہے آپ نے جس سے اور بڑھ گئ ہے دل ميں چاہ بے نظير کي-

  • 7. 20:37 2008-01-22 ,داکٹر الطاف الحسن :

    دکھ اس بات کا بہت ہے کہ ان کی ا س طرح عرت افرائی نہ کی گيء جس کي وہ حقيقی طور پر مستحق تھين اور پھر انھين کس سفاکی سے شھيد کر ديا گيا- وہ اس دنيا ميں بھی معصوم تھين اور تا قيامت معصوميت کا درجہ حاصل کر کے گئیں-

  • 8. 22:12 2008-01-22 ,محمد :

    مجھے آپ جیسے صحافیوں یا "نام نہاد لبرلز" کی اس سوچ پر آپ سے مخاطب ہونا پڑا جس نے آپ کے بقول آپ جیسے "لبرل" صحافیوں کو بی بی جیسے ایک سیکولر لیڈر پر تنقید پر مجور کیا کہ وہ دوپٹہ مولویوں کے دباو میں آ کر اوڑھ رہی ہیں ۔
    ایک عام آدمی جو پاکستان، پاکستانی قوم اور اسلام سے محبت کرتا ہے وہ ایسے نام نہاد لبرلز کی ایسی سطحی سوچ جو دوپٹے کو ترقی، پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے مہلک سمجھے، اور ایسے نام نہاد ملا جو سانُس ، تعلیم اور بہت سارے انسانی حقوق کوعوام کے سامنے اسلام کے لیے (خدا نخواستہ) خطرہ پیش کرنے ہیں ان کی حالت اور سوچ پر افسوس کے سوا اور کچھ کرنے کے لایق بھی تو نہیں۔ کیونکہ ایسے نام نہاد ملا ہوں یا نام نہاد روشن خیال، سوسایٹی کے مختلف طبقات میں برداشت پیدا کرنے کی بجائے صرف تفریق ڈالنے اور فاصلے بڑھانے کا کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔
    سوکیا فائدہ ایسے نام نہاد سیاسی ملاوں کا یا سیکولرازم کے خول میں بند ایسے لوگوں کا جو ساری عمر معصوم لوگوں کو الٹی کتاب پڑھاتے رہیں اور جب سر سفید ہو جاےُ تو کہیں کہ افسوس ہمیں تو اب سمجھ آیُ؟ کیونکہ جناب ایسے لوگ صرف اپنی ذات پر اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کے دل و دماغ پر اثر کرتے ہیں اور یہ اپنی آواز اور سوچ ہر کسی تک منتقل کرنے کے ذرائع سے منسلک ہوتے ہیں اور بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔
    افسوس کہ ہمارے معاشرے میں جو بھی طبقہ کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں رہا اس میں سے زیادہ تر نے صرف اور صرف معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے کا کردار ہی ادا کیا جس کی تعداد پازٹو کردار والے طبقے سے کہیں زیادہ یہی وجہ ہے کہ ساٹھ سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں۔ صرف تباہی کے دہانے پر اور ہم تماشا بنے ہوئےُ ہیں دنیا ہمارے کردار پر ہنس رہی ہے بلکہ دنیا ہم پر ہنسنے کے ساتھ ساتھ حیران بھی بہت ہے۔

  • 9. 2:02 2008-01-23 ,شا ہد :

    ھم پھی کيا لو گ ہيں مر نے سے پہلے شيطا ن اور مر نے کے بعد د يو تا

  • 10. 5:53 2008-01-23 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    بہن عنبر خيری صاحبہ
    آپ نے اپنی طويل غير حاضری کا شکوہ بی بی کو خراج اور زبردست خراج پيش کر کر کے دور کر ديا خدا آپکو اجر عظيم دے -
    آپکا اداس و غمگين بھائی
    آصف محمود

  • 11. 7:28 2008-01-23 ,Amin Sheikh :

    گزارش ہے کہ 35 سالہ اور 55 سالہ وزيراعظم ميں بہت فرق تہا جو پاکستان کے دشمنوں کے ليے قابل قبول نا تہا يہی اُس کی شہادت کا سبب بنا

  • 12. 7:57 2008-01-23 ,رياض علی طوری :

    'ڈھلتے سورج کے ہمسفر
    تم کہاں رخصت ہوئی
    چہرے اداس چھوڑ کر
    آنکھيں نم چھوڑ کر
    اپنے لہو کے رنگ سے تم نے
    دسمبر کی سرد شام کو
    اک ان مٹ سرخی بخشی
    وطن کی مٹی کو تم نے
    لہو کی خوشبو بخشی
    تيرا لب و لہجہ
    ترے قدموں کی آہٹ
    صدا گونجتے رہيں گے
    ہر سو پھيلتے رہيں گے
    خزاں کے زرد پتوں کو
    لہو لہو کر گئی
    اے شام غريباں کی ہمسفر
    رياض روتا رہا
    تيرا نام لکھ لکھ کر۔۔۔'
    تم قباييلوںکی شہزادی ہو
    تم دکہے دلوں کی دلبر جانی تہی
    تم نام کی بےنظير تہی
    تيری زندگی بہی بےنظير رہی
    تيری موت بہی بے نظير ہے
    ڈہلتی سورج کے ہمسفر
    لوٹ آ کہ ہم نے
    تيرے راہوں کو چراغ کي ہيں

  • 13. 8:13 2008-01-23 ,Riaz Ali Toori :

    'ڈھلتے سورج کی ہمسفر تم کہاں رخصت ہوئی
    چہرے اداس چھوڑ کر، آنکھيں نم چھوڑ کر
    اپنے لہو کے رنگ سے تم نے دسمبر کی سرد شام کو
    اک ان مٹ سرخی بخشی
    وطن کی مٹی کو تم نے لہو کی خوشبو بخشی
    تيرا لب و لہجہ، ترے قدموں کی آہٹ
    صدا گونجتے رہيں گے، ہر سو پھيلتے رہيں گے
    خزاں کے زرد پتوں کو لہو لہو کر گئی
    اے شام غريباں کی ہمسفر
    رياض روتا رہا، ترا نام لکھ لکھ کر۔۔۔'
    لوٹ کے آجا کہ ہم نے تيری راہوں کو چراغاں کيا
    اور تيری قدموں ميں پھول بچھا دی ہے

  • 14. 8:17 2008-01-23 ,assalam :

    بینظیر ایکسویں صدی کی ایک تاریک ترین خاتون تھی

  • 15. 13:55 2008-01-23 ,ساربان :

    جناب اے۔ایم صاحب:
    آپ نے کہا، '' بینظیر ایکسویں صدی کی ایک تاریک ترین خاتون تھی''۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا اگر آپ زرا مہذب انداز میں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیئے کچھ دلائل بھی دے ڈالیں۔ شکریہ۔

    میری رائے میں بے نظیر جو بھی تھی پاکستان کی پہچان تھی۔

  • 16. 14:26 2008-01-23 ,ساربان :

    جناب اے۔ایم صاحب، آپ نے کہا، ’بینظیر اکیسویں صدی کی ایک تاریک ترین خاتون تھی‘۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا اگر آپ ذرا مہذب انداز میں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کچھ دلائل بھی دے ڈالیں۔ شکریہ۔ میری رائے میں بے نظیر جو بھی تھی پاکستان کی پہچان تھی۔

  • 17. 15:43 2008-01-23 ,ابرار سيد :

    ظلمت کو ضياء اور روشنی کو تاريکی کہنا اس معاشرے کی روايت رہی ہے۔ فوج کی پريس ريليزز، نوائے وقت کے اداريوں اور زيڈ اے سلہری کے کالموں کے کافی متاثرين موجود ہيں۔ 88 کيا انتخابی مہم کے گند کا ذکر تو آپ نے کيا بہتر ہوتا شاہی مسجد کے آزادوں کے فتووں کا بھی ذکر کرتيں جنہوں نے بی بی کو ووٹ دينے والوں کو زندگی ميں جہنم کی نويد سنائي۔ اب يہ فتوي بھي کالعدم ہوا۔
    ’ميں بعد مرگ بھی بزم وفا ميں زندہ ہوں
    تلاش کر ميری محفل ميرا مزار نہ پوچھ‘

  • 18. 15:46 2008-01-23 ,ابرار سيد :

    ظلمت کو ضياء اور روشنی کو تاريکی کہنا اس معاشرے کی روايت رہی ہے- فوج کی پريس ريليزز، نوائے وقت کے اداريوں اور زيڈ اے سلہری کے کالموں کے کافی متاثرين موجود ہيں۔ سنہ اٹھاسی کي انتخابی مہم کے گند کا ذکر تو آپ نے کيا بہتر ہوتا شاہی مسجد کے آزادوں کے فتووں سنہ اٹھاسی کا بھی ذکر کرتيں جنہوں نے بی بی کو ووٹ دينے والوں کو زندگی ميں جہنم کی نويد سنائي۔ يہ فتوي بھي کالعدم ہوا
    ميں بعد مرگ بھی بزم وفا ميں زندہ ہوں
    تلاش کر ميری محفل ميرا مزار نہ پوچھ

  • 19. 17:12 2008-01-23 ,فصل دين :

    بے نطير صاحبہ اب سندھ يتيم ھو گيا ھے

  • 20. 6:24 2008-01-24 ,فریحہ پرویز :


    بینظیر بھٹو کا نام سنتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ وہ چاہیں جیسی بھی تھیں لیکن اس ملک کی پہچان تھیں ایک بہادر ندر لیڈر تھیں۔ پھر ان سب سے پہلے وہ ایک ماں تھی ایک بیوی تھی ایک بہن تھی۔ چاہے اس نے ہمارے ملک کو لوٹ کھایا ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اور انکے والد نے اپنا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان سچ کر دکھایا۔ ان کے دور حکومت میں عوام کو پیٹ بھر کر روٹی کھانے کو ملتی تھی، رہنے کو مکان اور پہننے کو کپڑا تو ملتا تھا اور سب سے اہم ان کے دورحکومت میں لوگوں کو اپنی جان و مال کا خوف و خطرہ لاحق نہ تھا۔ لوگ چاہے غریب تھے لیکن پر سکون تھے۔ اس بار جب وہ آئیں تو انہوں نے اپنا نعرہ پھر سے دوہرایا اور غریب عوام خوش ہوگئی کہ ان کی لیڈر آگئی ہے، اب ان کے فاقوں کے دن گئے لیکن دہشت گردی نے ان کے فاقوں کو طویل عمر قرار دے دیا۔ بس اتنا ہی آگے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے ہم میں۔ شکریہ

  • 21. 13:50 2008-01-24 ,نجيب الرحمان سائکو :

    محترمہ عنبر صاحبہ کے لکھے ہوئے بلاگ پر معززقارئين کے لکھے ہوئے تبصروں ميں سے جناب محترم اے رضا صاحب، محترم سجادالحسنين صاحب اور محترم ڈاکٹر الطاف الحسن صاحب کے تبصروں سے خاکسار کُلی اتفاق کرتا ہے۔

  • 22. 15:40 2008-01-24 ,اختر رند :

    جناب اے ايم، تاريک ترين تو شايد آپ کی روح ہے اور ذہن بھی۔۔۔

  • 23. 12:18 2008-01-25 ,تنوير عارف :

    ۔۔۔ليکن يہ بھی ايک تلخ حقيقت ہے کہ سوئس کورٹس نے بےنظير اور مرد اول کو باقاعدہ سزا دی اور سرے محل کی کہانی کس کو ياد نہيں۔ مرنے والوں کو برا کہنا ہماری روايت نہيں مگر تاريخ بڑی ظالم ہے۔

  • 24. 15:10 2008-01-28 ,shahidaakram :


    طويل غير حاضری کے بعد ايک تکليف دہ موضُوع کے ساتھ آ پ کی آمد پر يہی کہہ سکتی ہُوں کہ ہم لوگ مُردہ پرست قوم ہيں شايد يا موت ايک ايسی حقيقت ہے جو جب سامنے آتی ہے تو سب کُچھ بُھلا ديتی ہے جيسے کہ ہمارے محترم اے رضا بھائ نے فرمايا کہ بعض اوقات ہم جب کُچھ جانتے ہيں توسر پيٹنے کے علاوہ اور کُچھ نہيں کر پاتے گو ابھی بھی پس پردہ حقائق نا جانے ہماری زندگيوں ميں سامنے آ بھی پائيں گے يا نہيں ليکن جن حقائق کا ذکر آپ نے کيا ہے وہ بھی ايسے ہيں جنہيں ہم نے اُن کی زندگی ميں کبھی درخور اعتنا نہيں سمجھا کہ واقعی مردوں کے اس معاشرے ميں ايک عورت نے کن کن مُشکلات کا سامنا کر کے اپنی پارٹی کو يہاں تک لا کھڑا کيا جو نا جانے اب پھر سے اُسی طرح جی پاۓ گی يا نہيں جس کی فی الحال کوئ صُورت نظر نہيں آتی کہ بلاول ابھی اتنا معصُوم چھوٹا بچہ ہے جسے ابھی سياست کی پُر پيچ اور پُرخار وادی کا کوئ تجرُبہ نہيں ہم اُس کی صحت اور تندرُستی والی طويل زندگی کے لۓ دُعاگو ہيں ،آمين
    کاش کہ ہم زندگی ميں ہی انسان کی پہچان کر کے قدر کرنے والے ہو جائيں


  • 25. 15:18 2008-01-28 ,شاہدہ اکرام :

    عنبر جی، السلامُ عليکُم، اُمّيد ہے آپ بخير رہی ہوں گی۔ طويل غير حاضری کے بعد ايک تکليف دہ موضُوع کے ساتھ آ پ کی آمد پر يہی کہہ سکتی ہُوں کہ ہم لوگ مُردہ پرست قوم ہيں۔ يا شايد موت ايک ايسی حقيقت ہے جو جب سامنے آتی ہے تو سب کُچھ بُھلا ديتی ہے جيسے کہ ہمارے محترم اے رضا بھائی نے فرمايا کہ بعض اوقات ہم جب کُچھ جانتے ہيں توسر پيٹنے کے علاوہ اور کُچھ نہيں کر پاتے۔ ابھی بھی پس پردہ حقائق نجانے ہماری زندگيوں ميں سامنے آ بھی پائيں گے يا نہيں ليکن جن حقائق کا ذکر آپ نے کيا ہے وہ بھی ايسے ہيں جنہيں ہم نے اُن کی زندگی ميں کبھی درخور اعتنا نہيں سمجھا کہ واقعی مردوں کے اس معاشرے ميں ايک عورت نے کن کن مُشکلات کا سامنا کر کے اپنی پارٹی کو يہاں تک لا کھڑا کيا جو نا جانے اب پھر سے اُسی طرح جی پائے گی يا نہيں جس کی فی الحال کوئی صُورت نظر نہيں آتی۔ بلاول ابھی اتنا معصُوم چھوٹا بچہ ہے جسے ابھی سياست کی پُر پيچ اور پُرخار وادی کا کوئی تجرُبہ نہيں۔ ہم اُس کی صحت اور تندرُستی والی طويل زندگی کے لیے دُعاگو ہيں ،آمين۔ کاش کہ ہم زندگی ميں ہی انسان کی پہچان کر کے قدر کرنے والے ہو جائيں۔ اپنا خيال رکھيۓ گا


ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔