نظم
’تم کتنے بھٹو مارو گے‘
جو قریہ قریہ ماتم ہے
اور بستی بستی آنسو ہے
صحرا صحرا آنکھیں ہیں
اور مقتل مقتل نعرہ ہے
سنگ ستاروں کے لیکر
وہ چاند چمکتا نکلے گا
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
شور ہواؤں کا بن کر
وہ آنگن آنگن ہولے گی
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
تم خاکی وردی والے ہو
یا کالی داڑھی والے ہو
تم نیلے پیلے اودے ہو
یا گورے ہو یا کالے ہو
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
یا قومی غنڈے سالے ہو
اپنے اور پرائے ہو
یا اندھیاروں کے پالے ہو
وہ شام شفق کی آنکھوں میں
وہ سوہنی ساکھ سویروں کی
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ دیس دکھی کی کوئل تھی
یا تھر میں برکھا ساون کی
وہ پیاری ہنسی بچوں کی
یا موسم لڈیاں پاون کی
تم کالی راتیں چوروں کی
وہ پنکھ پکھیرو موروں کی
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ بہن کسانوں کی پیاری
وہ بیٹی مل مزدوروں کی
وہ قیدی تھی زرداروں کی
عیاروں کی سرداروں کی
جرنیلوں کی غداروں کی
ایک نہتی لڑکی تھی
اور پیشی تھی درباروں کی
’تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلےگا‘
وہ بیٹی تھی پنج آبوں کی
خیبر کی بولانوں کی
وہ سندھ مدینے کی بیٹی
وہ نئی کہانی کربل کی
وہ خوں میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھیں بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
اے رت چناروں سے کہنا
وہ آنی ہے، وہ آنی ہے
وہ سندر خواب حقیقت بن
چھاجانی ہے، چھا جانی ہے
وہ بھیانک سپنا آمر کا
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
’تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سےبھٹو نکلے گا‘
تبصرےتبصرہ کریں
ںرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ نظم لاکھوں دلوں کو چھو گئی اور مجھ سمیت ہزاروں اپنے آنسو نہ روک پائے ہوں گے۔ کیا ہمارے دیس کے آمروں کے لیے اتنے خون کی قربانی کافی نہیں؟ اب انہیں چلے جانا چاہئے۔ بھٹوز کا خون اب بہنا بند ہوجانا چاہئے۔۔۔ہر قیمت پر!!
ويل ڈن حسن مجتبی صاحب، بےنظير کي طرح آپ کی يہ نظم بھی ہميشہ زندہ رہےگی۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔
سائيں حسن صاحب، ميں بی بی کے قتل والے دن بہت رويا۔ پھر دنيا کےکام ميں لگ گيا۔ آج آپ کی نظم پر پھر بہت رويا۔ مجھے يقين ھے کہ آپ بھی اس نظم کو لکھتے وقت اپنے آنسو روک نہيں سکے ھونگے۔
مہربانی سائیں، ہماری بہن ادی بینظیر کے لیے اس بہتر خراجِ عقیدت نہیں ہوسکتا۔
حسن، تمہا ری نظم سے پھر لہو لہو ہوا ہوں۔
واہ کیا شاعری ہے، زبردست، خوبصورت!!
یہ بینظیر کے لیے صحیح خراجِ عقیدت ہے۔
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے۔
حسن صاحب
آپ نے واقعی بی بی صاحبہ کا حق ادا کردیا۔
حسن صاحب
آپ نے واقعی بی بی صاحبہ کا حق ادا کردیا۔ وہ لطیف سرکار کی بھی تھیں۔
اپ کی يہ تحر ير بظير پر لکھی جا نےوا لی اب تک کي سب سے اچھی تحر ير ہے؛ اللہ کرے زور قلم اور ذ يادہ۔
واہ، اسے کہتے ہیں پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ کچھ دن پہلے یہی حسن صاحب بی بی کو رگید رہے تھے اور اج وہ شندھ کی بیٹی ہوگئیں۔۔۔
يہی محترمہ تھيں جن کی زندگی ميں مجتبيٰ صاحب ان کی ہر بات پر تنقيد کے پہاڑ کھڑے کيا کرتے تھے اور اب۔۔۔۔؟واہ
انتہائی خوبصورت!!
حسن صاحب
آنکھوں ميں آنسو آگئے۔ آپ نے نظم تو لکھ دی مگر کيا اس کی آواز اس آمر تک پہونچ پائے گی؟ کيا يہ آواز اس قاتل کو جھنجوڑ پائے گی؟؟؟؟
حسن صاحب کے بارے میں کیا کہوں، ان کے خیالات کی سو فیصد تائید کرتا ہوں اور دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسی اچھی اور معنی خیز تحریریں لکھتے رہیں۔
اللہ آپ کو خوش رکھے اور سچ لکھنے کی ہمت میں اور بھی اضافہ فرمائے۔
آپ نے تو رلا دیا!!
کیا بات ہے جناب!!
بھٹوز اور عوام کا رومانس حقيقی اور ابدی ہے۔ دونوں ايک دوسرے پر جان دينے کي تاريخ رقم کر چکے ہيں۔ عوام کو بھٹوز جيسا بہادر اور محبت کرنے والا اور کوئی ليڈر نہيں ملا۔ بم بلاسٹ کی دہشت بھی ان کو ملن سے نہ روک سکی۔ يہی رومانس وفاق پاکستان کا ضامن ہے۔ بے نظير کے قتل نے اس عشق کو نئی جہت دی ہے۔
واہ واہ حسن بھائی
کمال کا لکھا ہے اللہ تعالی آپ کو جزاء دے
بہت خوبصورت!! بی بی پر تنقيد کرنے کے آپ نے تو اپنے سارے پاپ يہ نظم لکھ کر دھو ديے۔ واقعی بی بی کی روح خوش ہوئی ہو گي۔
حسن مجتبیٰ صاحب، آپ نے ایک زبردست نظم لکھی ہے لیکن یہ نظم سے بڑھ کر ہے کہ یہ حقائق بیان کرتی ہے۔ آپ یہ سب کہہ سکتے ہیں ملا اور فوج کے بارے میں کیونکہ آپ اس ملک سے باہر رہتے ہیں۔ لیکن ہم تو سانس بھی نہیں لے سکتے۔ کبھی کبھی تو اپنے پاکستانی ہونے پر شرم آتی ہے۔
حسن صاحب
جذبات کا اظہار تو بس کوئی آپ سے سیکھے واہ
کسی شاعر نے شاید بے نظیر کے لیے ہی کہا تھا کہ
۔۔ عورت ہوں مگر صورت فولاد کھڑی ہوں
میں سچ کے تحفظ کے لیے ہر کسی سے لڑی ہوں
اور اب تو
میں سچ کی خاطر جان بھی دے چکی ہوں۔
حسن مجتبی صاحب، ماشاءاللہ آپ کا مرثیہ کافی اچھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے جس کیلئےلکھا ہے وہ غیر موزوں ہے۔ یہی بھٹو جب باحیات تھیں تو آپ اور آپ جیسے لوگ اس پر طعن کرتے نہیں تھکتے تھے اور جب آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہیں اور جھوٹی غم خواری کا ثبوت دے رہے ہیں۔
حسن صاحب، آج آپ نے بہت اُداس کر ديا ہے۔
’يہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تُم ہی ھارو گے
ہرگھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے‘
پيارے بھائی حسن صاحب، آپ کی اس خوبصورت نظم نے نہ صرف دل کو چھو ليا، ساتھ آنکھيں اشکبار بھی ہوئیں!!
حسن بھائی، بقول جالب
بلوانوں سے پڑا ہے پالا ايک نہتی لڑکی کا
ڈرے ڈرے ہيں لرزيدہ ہيں ايک نہتی لڑکی سے
بہترين نوازش پر بہت شکريہ، بينظير کہ سر داد نہ داد دست در دست يزيد۔ تم ھتيار ہي پھينکو گے، ڈھاکہ ہو سوات وزيرستان ياکارگل، ہر ميدان سے بھاگو گے، اب دن ميں اور راتوں کو ان کا چہرہ انکو ڈراتا رہے گا۔
تم کتنے بھٹو مارو گے۔ دعا گو
حسن، دکھوں کی ماری سندھڑی ایک ایک بیٹی کو آپ نے بہت عمدہ سلام بیش کیا۔
لگ رھا ہے کہ واقعی ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ جيسے زرداری کے گھر سے نکل آيا ہے- :)
يہ بازی خون کی بازی ہے،يہ بازی تم ہی ہارو گے
ہرگھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے
یہ جو منزلِ درد آئی ہے
آکر ٹہر گئی ہے
نکھر گئی ہے
دھل کر ہمارے آنسوؤں سے
دیدہِ تر سے چھلکا ہوا خواب ہو جیسے
کبھی نہ چکایا جاسکے
وہ حساب ہو جیسے
اور ہم تم
کہ جن کا آغاز یہیں سے ہے
اور انجام یہیں پہ ہے
آؤ کہ اس منزلِ درد کا احترام کریں
رگوں سے نچوڑ کر جو بھر لائے
وہ زھر ِ جام بھی اس کے نام کریں
ميں آؤں گی، ميں آؤں گی
تم مجھ کو مار نہ پا ؤ گے
ميرا روپ انوپ سروپ
بسا
سبھی سينوں ميں
سبھی آنکھوں ميں
ميں روپ بدل کے آؤں گی
تم مجھ کو مار نہ پا ؤ گے
صحافی کسی پارٹی، حکومت، اپوزیشن یا لوگوں کا نمائندہ نہیں ہو تا بلکہ وہ سچ اور حق کا نمائندہ ہو تا ہے۔ اسے تنقید کا حق حاصل ہے لیکن اگر کو ئی دنیا سے چلا جائے تو اسے اچھے الفاظ میں یاد رکھنا ہماری ریت بھی ہے اور روایت بھی۔ خود ہی سوچیں زندہ بے نظیر کی تعریف کر کے حسن شاید بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن اب بےنظیر کی تعریف اور توصیف انہیں کچھ فائدہ نہ دے سکے گی۔ ،جذبات کے اظہار کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے لیکن آپ کو حق حاصل ہے، آپ ایسا کر سکتے ہیں۔