سات چوہے اور مشرف
اب تو وہ ریٹائرڈ جنریل بھی جنہوں نے جنرل مشرف کو پریڈ کے میدان میں لیفٹ رائٹ سکھائی تھی یا میدانِ جنگ میں لڑنا (بقول فراز: تم ظفرمند تو خیر کیا لوٹتے)، وہ بھی کہنے لگے ہیں کہ وہ مستعفی ہوجائيں۔
یہ ریٹائرڈ جنریل وہ بلیاں ہیں جنہوں نے اس شیر کو سکھایا اور وہ سب کو کھانے آیا۔ لیکن یہ ریٹائرڈ جنرل، جنہیں انکے برخوردار جنرل نے ’بیکار و فضول قسم کے لوگ‘ کہا ہے ایسی بلیاں ہیں جو خود سات چوہے کھاکر اب حج پر نکلی ہیں۔
جنرل مرزا اسلم بیگ، حمید گل، اسد درانی، اور فوجی طالع آزمائي کے سب توں وڈے چوہدری اور ضیاءالحق کے بھی، بقول خود ان کے ’مرشد‘ جنرل فیض علی چشتی۔ یہ سب بزرگان فوج کسی نہ کسی طرح (سوائے اصغر خان کے) اپنے عہد کے مشرف رہے ہیں یا انہوں نے مشرف جیسے کام سر انجام دیئے ہوئے ہیں۔
ٹھیک ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ آمر ضیا ءالحق کی موت کے بعد ملک پر مارشل لاء نہ لگا سکے تھے لیکن پکہ قلعہ سے لیکر جلال آباد تک پاکستان میں عوامی منشا اور جمہوریت کو ’ضرب مومن‘ تو وہ بھی لگاتے رہے۔ سندھی میں کہاوت ہے ’ابا جان مرگئے، بھائي جان پیدا ہوئے، ہم ویسے کے ویسے‘۔ مہران بنک فیم یہ جنرل!
اور جنرل حمید گل جنکے دنوں سے آئي ایس آئي جلال آباد سے لیکر جھنگ تک جہادیوں کے جھنڈے گاڑتی نظر آرہی تھی۔ آئی جے آئی سے لیکر گلبدین حکمت یار تک سب کی دائي اماں۔
پھر دائم برکاتہم جنرل فیض علی چشتی کہ جنکے متعلق یہ افواہ نما قصے یا قصہ نما افواہیں گردش میں تھیں کہ بھٹو کو پھانسی پر بھیجنے سے پہلے انہوں نے ان پر تشد کیا تھا کیونکہ بھٹو نے اپنی کال کوٹھری میں دورانِ گرمیِ ملاقات ان کے منہ مبارک پر تھوک دیا تھا!
یہ پر اسرار غازی کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کے دنوں میں آمر ضیاء الحق اور وقت کے حکمرانوں کے احکامات کی تعمیل کے بندے تھے۔ بالکل ایسے جیسے یزید نے کہا تھا کہ ’لعنت ہو ابن زیاد پر‘ کہ جسکے حکم پر میں نے کربلا کا قضیہ کروایا۔ بقول جالب:
’جنریل رٹیر ہوکے کرن کیوں نہ لیڈری
دولت ہے بیشمار زمیناں بتھیریاں‘
تبصرےتبصرہ کریں
بھائی حسن، سلام مسنون کے بعد عرض يہ ہے کہ سب کچھ تو آپ نے کہہ چھوڑا، سوائے اس کے کہ خاکسار کے چچا مرحوم نے، جو زمانے کے تيزی سے ہوتے تغير و تبدل ہر اکثر حيران و پريشان رہا کرتے تھے، ايک دفعہ باتوں باتوں ميں فرمايا کہ آج پرانے زمانے کی ساری حقيقتیں ، کہاوتیں و ضرب الامثال باطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ بقول ان کے پرانے وقتوں میں ’ٹانگيں موڑي جاتیں تو پيٹ سے لگتي تھیں‘ ليکن اب ’موڑی جائیں تو کمر سے لگتی ہیں‘۔ ليکن ميرے نزديک چند حقيقتیں، کہاوتیں و ضرب الامثال ايسی ہیں جو ہر گزرے دن کے ساتھ اپنی سچائيوں کو پوری شدت سے باور کرواتی ہیں۔ مثلاً ’آنکھوں کا پانی مرنا‘ اور ’پروں پر پانی ناں پڑنے دينا‘۔ آپ ہی بتائیے کہ آپ کے متذکرہ جرنيلوں سے زيادہ کون ان کہاوتوں پر صادق آ سکتا ہے؟
بھائی حسن، سلام مسنون کے بعد عرض يہ ھے کہ سب کچھ تو آپ نے کہہ چھوڑا، سوائے اس کے کہ خاکسار کے چچا مرحوم جو زمانے کے تيزی سے ھوتے تغير و تبدل پر اکثر حيران و پريشان رہا کرتے تھے، نے ايک دفعہ باتوں باتوں ميں فرمايا کہ آج پرانے زمانے کی ساری حقيقتيں، کہاوتيں و ضرب الامثال باطل ھوکر رہ گئی ھيں۔ بقول ان کے پرانے وقتوں ميں ’ٹانگيں موڑي جاتيں تو پيٹ سے لگتي تھيں‘ ليکن اب ’موڑی جائيں تو کمر سے لگتی ھيں‘۔ ليکن ميرے نزديک چند حقيقتيں، کہاوتيں و ضرب الامثال ايسی ھيں جو ھر گزرے دن کے ساتھ اپنی سچائيوں کو پوری شدت سے باور کرواتی ھيں۔ مثلاً ’آنکھوں کا پانی مرنا‘ اور ’پروں پر پانی ناں پڑنے دينا‘۔ آپ ہی بتايئے کہ آپ کے متذکرہ جرنيلوں سے زيادہ کون ان کہاوتوں پر صادق آ سکتا ھے؟
حسن صاحب، آداب۔ جناب ہاتھ ذرا ہولا (ہلکا) رکھيں۔ عين بيچ چوراہے ميں آپ نےسابق جرنيلوں کی پتلونيں انڈرويرز سميت اتروا ديں۔
حسن مجيبٰی صاحب، واہ کتنی داد دی جائے۔ اگر حاضر سروس اور بظاہر ريٹائرڈ فوجي جنريل اپني کي گئی ظالمانہ کارروائيوں کے نشانوں کو دھونے کے لیے ٹوپي ڈرامے کر رہے ہيں مگر نہيں جانتے کہ:
جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کي ضد کريں
بچے ہمارے عہد کے ہوشيار ہو گئے
شکريہ
سبحان اللہ! دراصل پاکستان ميں ہر آنے والی آمريت تھونپی گئی۔ حکومت پہلے والے ادوار سے خراب ہی ہوتی ہے تاکہ گزشتہ دور کو اچھا کہا جا سکے۔ جو کچھ بھي عوام کے خلاف جنرل فيض علی چشتی نے ضيا (مرد ناحق) کے دور ميں کيا اسی عوام دشمن جنرل ضيا الحق کو تخت پر براجماں کرانے ميں بھلا جنرل اصغر خان کا کردار اور ’قومی رول‘ کيوں بھولنا چاہئے؟ 1977 سے ليکر آج تک سارے جنريل اسی گنگا ميں نہائے ہيں۔ ايک دوسرے کو ’عوامی جسٹيفکيشن‘ کے ليئے اور برے حالات ميں ايک دوسرے کو بچانے کے ليئے۔ جو عوام دشمن آئيني اعتبار سے عدالتی کٹہروں پر ہونے چاہئيں وہ پھر بچ نکل جاتے ہيں۔ نيازی جيسے تو اور بھي محفوظ اور محظوظ ہوتے ہيں۔ کتنا اچھا ہوتا اگر يہی ’عوامی بہی خواہ‘ بنگاليوں کے قتل سميت تمام قاتلوں کی سزا کا مطالبہ بھی کرتے۔ ورنہ ايک دن ايسا بھی آئے گا جب سارے پرانے گنہگار بھلاديئے جائيں گے۔
جناب مجتبی صاحب! موجو دہ حالات کے تناظر ميں آپ کا يہ بلاگ قوم کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی نہيں کرتا، يہ آپ کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ غلطياں تو سب سے ہوئی ہيں چاہے وہ سياستدان ہوں يا طالع آزما جرنيل! اس ميں کوئی شک نہیں کہ بھٹو ايک قابل ليڈر تھے اور پی پی پی آج بھی بڑی پا رٹی ہے مگر کيا وہ پہلے سويلين مار شل لا ايڈمنسٹريٹر نہيں تھے؟ ليا قت باغ ميں پی این اے کے جلسے پر گولياں نہيں برسائی تھیں؟ ادھر ھم ادھر تم کا نعرہ کس نے بلند کيا تھا؟ کيا آج ملک کی مو جودہ صورتحال کی ذمہ دار بےنظير بھٹو بھی نہیں ہے؟ اگر وہ مشرف سے ڈيل نہ کرتي توملک مزيد بحرانو ں سے دو چار نہ ہوتا۔ آج ساری اپوزيشن عدليہ کی بحالی پر متفق سوائے پی پی پی کے! مجتبی صا حب! آج ھم نے يہ نہيں ديکھنا کہ کس نے ماضی ميں کيا کيا ھے۔ آج پاکستان کے عوام باشعو رہو چکے ھيں، اس بس کو مزيد ڈرنک ڈرائيور کے ہاتھ سے نہيں چلوانا ورنہ اس بس کا حشر بھی 70 کی دھائی کی طرح ہوگا جب اس کا سٹيرنگ يکے بعد دیگر ے ايک باوردی اور ايک بے وردی ڈرنک ڈرائيور کے ھاتھ لگ گيا تھا۔ اب آپ بتائيں سابق جرنيلو ں کا موجودہ بحران ميں کردار ادا کرنا درست نہيں؟ بلکہ ميں تو ہر باضمير اور محب وطن پاکستانی چاہے وہ باوردی ہو يا بےوردی سے اپيل کرتا ہوں کہ ملک کو بچانے ميں اپنا کردار ادا کريں اور پيا رے ملک کو تيسرے ڈرنک ڈرئيور کے ہتھے نہ چڑھنے ديں۔ سابق جرنيلو، قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔
حسن صاحب، شکريہ ميرے دل کی آواز بھی يہی تھی جو آپ بی بی سی پر لے آئے۔ ويسے يہ افواہ نہيں حقيقت ہے کہ ان محسن کشوں نے اپنے محسن کو 9 دن کی بھوک کے بعد تشدد کر کے مار ڈالا۔ -دل تو ميرا بھي يہي چاہتا ہے کہ ۔۔۔۔موقعہ نہيں ملتا !!
حسن صاحب ! پاکستان اب اُسی مسافر بردار کشتی کی طرح ہو گئی ہے۔ جس میں خود ناخدا اور عملے کی کوتاہیوں کی وجہ سے کئی سوراخ پیدا ہوگئے ہیں اور عملہ کشتی کا وزن کم کرنے کے لیے مسافروں پر ان سوراخوں کا الزام لگا کر ایک ایک کرکے انہیں سمندر میں پھینکتا جارہا ہے۔ ظاہر ہے مسافروں کے بعد بالآخر باری عملے ہی کی آئے گی۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خدشات بلا جواز نہیں ہیں۔ اب ایسے میں اگر مسافروں کی یہ کوشش ہے کہ کشتی کے ڈھوبنے کی نوبت آنے سے پہلے یہ ٹوٹ جائےتو بہتر ہے ان کی سوچ بھی غلط نہیں ہے کیونکہ ایسے میں انہیں یقین ہے کہ کسی ٹکڑے کے سہارے وہ اس کی سمت درست کرکے اپنی زندگی بچا سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ کشتی بروقت ٹوٹ نہ گئی تو اس کا مطلب یقیناٌ یہی ہوگا کہ بالآخر یہ کشتی ڈوب ہی جائے گی۔ ایسے میں ان رہنماؤں اور دانشوروں کایہ کہنا بالکل درست اندازہ ہے کہ پھر اس کا نام کتابوں میں ہی ملے گا۔
محترم حسن صاحب ، تسليمات
ہم کو خواب اور حقيقت نے ڈسا ہے مل کر
زہر اب کون سا باقی ہے جو راس آۓگا
بس يہی کہوں گا کہ ۔۔
احتسابِ ربِ دو عالم سے ڈرنا چاہيۓ
دعا گو
محترم حسن مجتبی، سب سے پہلے ايک اصل حقيقی اور سب سے بڑی خرابی کی طرف انگلی اٹھانے پر مبارک باد۔ يہ قوم کے سپوت جن کو غريب قوم نے اپنے پيٹ کاٹ کاٹ کر پالا اور ان کی ورديوں کو سنوارا، حکم چلانے کے ليے ايک لمبی چوڑی فورس دی مگر پھر بھی جب ان کے پيٹ نہ بھرے تو انہوں نے اپنے ہی گھر کو فتح کيا۔ مزے کی بات يہ ہے کہ سب بگڑے ہوؤں نے بگڑاؤ ايک جيسا ہی پيدا کيا۔ صرف ايک ہی چيز سب بگڑے ہوؤں کی راہ ميں رکاوٹ پيدا کرتی رہی جو ايک وصيت جيسا آئين ہے جو بھٹو صاحب کا کارنامہ تھا۔ ایک اور رکاوٹ ايٹم بم تھا جو اس طرح رکاوٹ پيدا کرتا ہے کہ اگر يہ بگڑے سپوت گھر کی نگرانی نہ بھی کرنی چاہيں تو باہر کی حکومتيں انہيں مجبور کريں کہ ملک کے ليے نہ سہی بم کا دھيان ضرور رکھو۔ اسی بہانے قوم کی بھی تھوڑی بہت حفاظت نما کوئی چيز ہو جاتی ہے۔ اب يہ تو بھولنے والی بات نہيں کہ ايٹم بم شروع بھٹو دور ميں ہوا اور دھماکے نوازشرف نے بہت پريشر کے با وجود کئے اور دونوں کو جو سزائيں ہمارے بگڑے سپوتوں نے ديں وہ بھی کسی سے چھپی نہيں۔
کيا قسمت ہے اس ملک کی کہ اس قماش کے لوگ ندامت سے روپوش ہو جانے کی بجائے ملکي معاملات پر رائے دے رہے ہيں۔ انہيں ملکی اور غيرملکی ميڈيا پر پليٹ فارم مہيا کيا جاتا ہے جہاں يہ وہ بقراطی بگھارتے ہيں جس کا انہيں اپنے دور ميں کبھی خيال نہيں آيا تھا۔ آج يکايک قوم کا يہ درد جاگ اٹھنا بھي دراصل ان کا اپنا احساس عدم تحفظ ہي ہے۔ اپنے پيٹي بھائي کي حماقتوں سے فوجي ادارے کي گرتي ساکھ ديکھ کر يہ اس مرغي کے لیے پريشان ہيں جو انہيں اپنے پروں تلے لیے بيٹھي ہے۔ خواہ يہ اگلي دس نسلوں ميں بھي ممکن نہ ہو ليکن جب تک ان سب کو عدالت ميں لا کھڑا نہيں کيا جاتا يہ ملک کبھي آزاد نہيں ہو گا۔
دنيا کی سب سے عقلمند قوم يہ ريٹائرد جرنيل ہوتے ہيں جن کی عقل گھاس چر کر ریٹائرمنٹ کے بعد واپس آتی ہے اور سول اداروں کا کام سنوارنے لگ جاتی ہے۔ ان کی عقلمندی کا ثبوت یہ کيا کم ھے کہ سب نے پہلے ہی فيصلہ کر ليا تھا کہ بھائی ماضی کے قصے کوئی نہں چھیڑے گا اور سبھی نے بے چون چرا مان لیا۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ھو سکتا ہے کہ ان کے دانتوں پر ابھی تک غريب عوام کا خون لگا ھے۔ مشرف نے زندگی ميں پہلی دفعہ سچ بولا ھے کہ يہ حصہ نہ ملنے کی وجہ سے تڑپے ہيں۔ ان سے انسانی ہمدردی کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے جو کہ ہم ان قاتلوں سے شروع سے کھاتے آ رہے ہيں لیکن اب اس کی مزید گنجائش نہیں بنتی۔
کوئی بھی عادی شرابی شراب کی مذمت کرے تو باوجود اس کے عادی شرابی ہونے کے اس بات کی تائيد ضرور کی جائيگي۔ کسی کی بات کو محض اس ليے رد کيا جانا چاہيے کہ وہ خود اس پر عمل نہيں کرتا تو پھر مجھے ڈھير ساری سگريٹيں پينا ہونگی جن کے ليے ميرا بہت دل چاہتا ہے مگر ميرے ڈاکٹر نے سختی سے منع کيا ہوا ہے،صرف اس ليے کہ ميرا ڈاکٹر چين اسموکر ہے حالانکہ وہ ايک نامور اور قابل طبيب بھی ہے۔ حسن کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے يہ بھی عرض کروں کہ توبہ کے دروازے کھلے نہ رہيں تو دنيا ميں اصلاح کا باب ہی بند ہو جائے۔ چليں ہم ان سابق فوجيوں کے ليے اتنا حسن ظن جمع نہيں کر سکتے تو بھی انہيں وہ شرابی فرض کر ليں جن کو اب شراب ميسر نہيں اور وہ نشے ميں دھت کسی شرابی کے رويئے کی مذمت کر رہے ہيں۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فرشتے زمین پر نہیں رہتے۔ ایک بار کسی نے قائداعظم سے یہ پوچھا کہ آپ تو گانکرس میں بھی رہے ھیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں کسی زمانے میں سکول میں بھی پڑھتا تھا۔
حسن صاحب، يہ سات نہيں پورے نو سو چوہے کھا کر حج کرنے والے جرنيلوں کا ٹولہ ہے جو امريکی سامراج کی بقا کا جہاد کرتا رہا۔ ان کو مشرف سے يہ اختلاف ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کےلیے آنے والے ڈالرز ميں ان کو حصہ کيوں نہيں ملا جبکہ سامرا ج کے اس نئے کھيل کے لیے گليڈی ايٹرز (طالبان) کی فصل تو انہی کی تيار کردہ ہے۔
اونچی دکان، پھیکا پکوان
خاکی وردی، قوم کا قبرستان
سو میں نہ جانے کتنے بے ایمان
پھر بھی ھماری فوج مہان!!!!!
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن یہ بھی اچھی بات ہے کہ جنرلز نے آخر کچھ تو سوچا ہے ناں کہ پاکستان کو بچانا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کپر رحم کرے۔ آمین۔
محترم تاريخ پرلکھی گئی ھر کتاب، ہر تحرير ضروری نہیں کہ درست ھو۔ بھٹو صاحب کا کہنا کہ ادھر تم اھر ھم کوئی اھميت نہیں رکھتا کيونکہ اس وقت تک بھٹو صاحب حکومت حصہ نا تھے اورنا ہی وہ صدر يا وزير اعظم تھے۔گستاخی کے ليۓ معذرت۔