| بلاگز | اگلا بلاگ >>

میں کون ہوں؟

عنبر خیری | 2008-02-04 ،17:30

یہ کہانی ہے خوفناک لیکن ساتھ ہی انتہائی ہمت کی بھی۔ کہانی کچھ یوں ہے: ایک فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالا اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی اسے حکام پکڑ کر لے گئے۔ سات سال کے عرصے میں فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کوئی تیس ہزار لوگ غائب کر دیئے گئے۔
blo_mothers_disappeared203.jpg

یہاں تک کہ کچھ لاپتہ افراد کے بچے بھی غائب کر دیئے گئے۔ فوجی حکام نے ان بچوں کے نام اور دستاویزات بدل کر انہیں یا تو فوجی خاندانوں کو دے دیا یا کسی اور کو۔

یہ کہانی ہے ارجنٹینا کی، اور یہ واقعات انیس سو چھہتر اور انیس سو تراسی کے درمیانی عرصے میں پیش آئے۔ یہ کہانی دنیا کے بے شمار دوسرے ممالک میں فوجی آمریت اور مظالم کی داستان کی طرح شائد یہیں ختم ہو جاتی اور تاریخ کا ایک انجان باب بن جاتی لیکن کچھ با ہمت لوگوں کی وجہ سے یہ ابھی جاری ہے۔

اس کہانی کو زندہ رکھا ہے ان غائب کیے جانے والے افراد کے والدین نے جن میں بیشتر خواتین ہیں۔ پچھلے تیس سال سے ان ماؤں، نانیوں اور دادیوں نے اپنے لاپتہ رشتہ داروں کے بارے میں معلومات کے مطالبے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ تین دہائیوں سے یہ اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے مظاہرے کرتی رہیں اور یہ سوال پوچھتی رہیں کہ یہ لوگ کدھر گئے ان کے ساتھ ہوا کیا؟

اپنے بچوں کو تلاش کرنے والے ان خواتین کو ’مدرز آف پلازہ دیل مایو‘ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور لگی رہیں۔ اور شاید ان کی وجہ سے حقیقت پر پردہ ڈالنا آمروں کے لیے مشکل ہوتا گیا۔

لاپتہ کر دیئے گئے ہزاروں افراد کے بارے میں تھوڑی تھوڑی معلومات ملتی گئیں اور یہ واضح ہو گیا کہ فوجی حکومت نے مزاحمت کو کچلنے کے لیے ہر اخلاقی اور قانونی اصول ترک کر دیا تھا۔ ان افراد کو خفیہ کیمپوں میں رکھا گیا اور مختلف طریقوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ ان میں سے کئی کو تو زندہ پھینک دیا گیا۔

تیس ہزار شہری غائب اور ہلاک۔ لیکن جنہیں فوجیوں نے بچا لیا تھا؟

یہی سوال ان کی نانیاں اور دادیاں پوچھتی رہیں اور ان کی کوششوں کے نتائج حیران کن رہے ہیں۔ پانچ سو میں سے اٹھاسی بچے ان کو مل گئے اور یوں ان بچوں کو اپنے سگوں سے ملنے کا موقع ملا اور یہ پتہ چل سکا کہ وہ اصل میں ہیں کون۔

ان بچوں کی کہانی پیش کی گئی ہے نامی ایک دستاویزی فلم میں جو فلم ساز استیلا براوو نے بنائی ہے۔ کہانی زبردست ہے۔ پچیس چھبیس سال سے ان نوجوانوں کی زندگیاں ایک جھوٹ پر مبنی رہیں، اور اچانک انہیں پتہ لگا کہ وہ در اصل کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ اور ساتھ انہیں اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں بھی بہت کچھ پتہ لگا۔

اس کہانی کے بہت سے پہلو ہیں لیکن جب میں نے فلم میں ان خواتین کی باتیں سنیں تو ان کی ہمت اور لگن نے مجھے چونکادیا۔ ان کے پورے کے پورے خاندان ختم کر دیئے گئے، جوان بچے مارے گئے اور ان بچوں کی لاشوں یا قبروں کا پتہ تک نہ چل سکا۔ اس قیامتِ صغری کے باوجود اور کہتی ہیں کہ ’ہم جب اس دنیا میں نہیں ہونگے تب بھی ہم ہونگے کیونکہ ہم اپنےخون کے نمونے ملک کی قومی لیبارٹری میں چھوڑ کر جا رہے ہیں‘۔ (اس طرح سے اب اگر کسی کے بارے میں یہ شبہ ہو کہ وہ غائب ہو جانے والے بچوں میں سے تھا تو اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔)

ایک نہایت تاریکی دور سے باہر آئے ہیں جب جس کے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کا قتل عام ہوا۔ لیکن اب ارجنٹینا میں جمہوریت کا پلہ بھاری ہے۔ قانونی اور تکنیکی سطح پر ان ’چُرائے ہوئے بچوں‘ کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، اس دور کی ہلاکتوں کو سرکاری قتل قرار دیا گیا ہے، حکومت اس کا اعتراف کر چکی ہے اور اس کے لیے معافی مانگ چکی ہے۔

حکومت اور عوام نے اب ایک عہد کیا ہے، کہ اس طرح کے واقعات کو ہم کبھی آئندہ نہیں ہونے دیں گے۔ ’نونکا ماس‘ یعنی آیندہ کبھی نہیں۔

میں داد دیتی ہوں ان نانیوں اور دادیوں کو جنہوں نے نہ صرف اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ نفرت نہیں بڑھانا چاہتیں بلکہ یہ چاہتی ہیں کہ سچائی کو سامنے لایا جائے اور اس کے ملک کے لیے کوئی مثبت نتائج ہو سکیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 18:51 2008-02-04 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    مجھے لگتا ہے ہمارے فوجی حکمران بھی ايسی ہی کاروائياں کر رہے بہت خوفناک صورت ِحال ہے ايک ہو کا عالم ہے پرانے شکاری ہمارے واسطے نۓ نۓ جال لے کر آتے رہے ہيں اور تا دم تحرير يہ سلسلہ جاری ہے-

  • 2. 19:29 2008-02-04 ,اے رضا :

    سچ کہا ہے آپ نے - راہِ نجات بشمول ضبط نفس بڑي قربانياں مانگتی ہے - ارجنٹينا کي ماؤں نے صبر و ہمت سے يہ قربانياں ديں اور کاميابي حاصل کر لي - خودکش بمبار بن کر نہيں بلکہ اس سوجھ بوجھ سے يہ مسئلہ اجاگر کرکے کہ حکمرانوں کو معافي مانگنا پڑی - ساتھ ميں يہ عہد بھي دينا پڑا کہ آئندہ ايسا نہيں ہو گا - جانے والے تو واپس نہيں آۓ ليکن يہ باب ہميشہ کے لۓ بند ہو گيا - اسے مکمل فتح نہيں تو اور کيا کہيۓ گا ؟ اس ميں کچھ سبق پوشيدہ ہيں ہمارے لۓ کہ تشدد کا علاج تشدد نہيں ہوا کرتا -

  • 3. 19:39 2008-02-04 ,ساربان :

    یہ تو کوئی بلوچستان کی ان بلوچ ماؤں اور بہنوں سے پوچھے کہ اُن لخت جگر اور ہزاروں عزیز و اقارب کہاں گئے: انھیں زمیں نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

  • 4. 21:16 2008-02-04 ,ڈاکٹر الطاف الحسن :

    يہ بھی شايد تاريخ کا جبر ہی کہلائے گا کہ کل کلاں جب يہ داستان دوبارہ لکھي جائے گی تو اس ميں وطن عزيز کا نام نامی بھی شامل ہوگا اور شائد قار ئين ہما رے بعد آنے والي نسليں ہوں

  • 5. 21:52 2008-02-04 ,نثار احمد جاويد :

    سچائی چھپ نہيں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے - خشبو آ نہيں سکتی کبھی کاغزکے پھولوں سے - اے ميرے مالک ہم پاکستانيوں کی بھی جلد جان چھڑا ان کاغز کے پھولوں سے اور ميری ماوں کے بيٹوں کو بھی جلدی ملوا اپنے جگر کے ٹکڑوں سے آمين

  • 6. 0:12 2008-02-05 ,Jibran Hasnain :

    مجھے تو یہ اپنے پاکستان کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

  • 7. 9:45 2008-02-05 ,نجيب الرحمان سائکو :

    اج آکھاں وراث شاہ نوں
    کِتوں قبراں وچوں بول
    تے فیر کتابِ عشق دا
    کوئی اگلا ورقا پھول
    اک روئی سی دھی پنجاب دی
    تو لِکھ لِکھ مارے وين
    اج لکھاں دھياں روندياں
    تينوں وارث شاہ نوں کین
    اٹھ دردمنداں دیا درديا
    اٹھ تک اپنا پنجاب
    اج بيلے لاشاں وچھياں
    تے لہو دی بھری چناب
    اج سبھے کيدو بن گئے
    ايتھے حُسن عشق دے چور
    اج کتھوں لياواں لبھ کے
    ميں وارث شاہ جيا ہور
    (امرتا پريتم)

  • 8. 9:55 2008-02-05 ,نجيب الرحمان سائکو :

    محترمہ عنبر صاحبہ کے اس بلاگ پر اردو نثر ميں لکھے ہوۓ تبصروں ميں سے خاکسار کو ہمارے ديرينہ اور بہت ہی سلجھے ہوۓ ساتھي محترم اے رضا صاحب کا تبصرہ بہت پسند آيا ہے کہ يہ ٹھنڈے دل و دماغ سے برآمد ہوا ہے نہ کہ اکثريت کی طرح جذباتی احساسات سے تعلق رکھتا ہے- لہذ محترم اے رضا صاحب کو شاباش-

  • 9. 12:11 2008-02-06 ,SAJJADUL HASNAIN :

    عنبر جی
    ’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہيں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے‘
    ايک عرصہ پہلے شاعر مشرق نے اگر يہ بات کہی تھی تو يونہی نہيں کہی تھي۔ اس بات کو اس زمانے کے لوگوں نے بخوبی سمجھا تھا۔ يہی وجہ رہی کہ انقلاب زندہ باد کے نعرے کو وجود بخشا گيا اور انگريز سامراج کے خلاف تحريک ايک سيلاب رواں بن گئی۔ اس زمانے کے لوگوں نے انگريزوں کے خلاف پوری ديانت داری کے ساتھ لڑائی لڑی تھی اور آج اسی خلوص کا نتيجہ ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ ان ماؤں، نانيوں اور داديوں نے بھی اپنی لڑائی کرب کے ساتھ بھر پور اخلاص سے شروع کی تھی۔ آج وہ کامياب ہيں۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ پاکستان کی آمريت کے خلاف سڑکوں پر نکلے وکيل کتنے سنجيدہ اور پر خلوص ہيں اور کيا انکے نعروں ميں اتنا دم ہے کہ ايوان دہل جائیں اور عوام سڑکوں پر نکل آئیں؟
    خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 10. 7:12 2008-02-07 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    کہنا بيٹی کو سنانا بہو کو کاش ہمارے طالع آزما فوجی حکمران اپنی کاروائياں بند کريں اور خلاف عوام مشورے اس ديس کو ختم کرنے کے منصوبے وفاق کی ہر علامت کی شہادتيں گمشدگياں کينگرو کورٹس يا الٰہی کرم کرو

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔