’آزادی جمہور کا آتا ہے زمانہ‘
پاکستان میں اب سب ناچ رہے ہیں۔ انتخابی فتح پر شادمان ہیں کہ ’آزادیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ۔‘
پاکستانی عوام نے سخت خوف و خطرات اور ما قبل و بعد انتخابات دھاندھلیوں کے باؤجود پولنگ سٹیشنوں پر جاکر بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو ووٹ دئیے۔
اب جیت کر آنے والی بڑی پارٹیاں ہیں کہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ یعنی کہ بقول شخصے، ’ماتم کریں حسین کا لوٹے حسن پورہ!‘
انتخابی فتح کے نشے میں ٹن جیتی ہوئی ہر پارٹی قیادت کا اپنا حسن پورہ ہے اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہمنواؤں کا اپنا تان پورہ۔ وہ کہتے ہیں جو بھی پارٹی آئے اسے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو بغیر نفع نقصان کی شراکت کے قبول کرنا ہوگا۔ اب نہیں معلوم کہ وہ جمہوریت کے ’نظربٹو‘ کے طور پر قبولے جائیں گے یا ان کے ساتھ شراکت اقتدار ہونے والی پارٹی آمریت کے ’نظر بٹو‘ کے طور پر۔
آج ہم ایک اور حسن پورہ کی بات کرتے ہیں۔ جہاں گولڈ لیف کی آدھی ڈبی ، سیونٹی موٹر سائیکل اور انقلاب کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ اس دن جو جیکسن ہائٹس کے فُٹ پاتھ پر ایک کھوکھے پر گولڈ لیف بکتے دیکھی تو سگریٹ چھوڑے ہوئے بھی پھر پینا پڑی۔ یہاں نہ صرف فقط کلفی پان کا کھوکھا ہے لیکن کشور کمار کے پرانے اور بہت پرانےگانے بھی بجتے ہیں۔ ستر کی دہائی کے گانے۔
اور ہاں میں اپنے دوستوں کو بتا رہا تھا وہ جانے والے پل جب گولڈ لیف کے ہر سگریٹ کی اپنی ایک کہانی ہوا کرتی تھی۔
’میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی۔‘ ذولفقار علی بھٹو کی جیل کی کوٹھری سے کہی ہوئی یہ بات پڑھ رہا تھا (دروغ بر گردن کرنل رفیع )۔
امریکیوں اور پاکستانیوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ایک مردہ کینیڈیوں سے پیار کرتے ہیں دوسرے مردہ بھٹوؤں سے۔
زرداری نے کہا ہے کہ مشرف سے بہتر تعلقات ہو سکتے ہیں، میں نے اپنے ایک دوست کو بتایا۔ اس نے جواباً کہا ’اس کا مطلب ہے لاش بک گئی۔‘
تبصرےتبصرہ کریں
ابھی تو پہلی بولی ہے۔ بڑے بھٹو کی لاش پہلے 40 سال بکی، بےنظیر کی اگلے 40 سال۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھٹو کی لاشیں عوام اور جمہوریت کو ملاتی، لیکن ملا، فوج اور سیاست دانوں کا گٹھ جوڑ ہمیشہ بیچ میں آ جاتا ہے۔
حسن بھائي! ہاے بے رحمی سياست و اقتدار۔ يہاں لاشيں ہی نہیں مردہ ضمير بھی بکتے ہیں۔ يہی زرداری صاحب آگے چل کر کيا گل کھلائیں گے آہستہ آہستہ سب ظاہر ہوجائے گا۔ ان پر دباؤ ہے امريکہ کا، آرمی کا، ايجنسيوں کا۔ اب ديکھئيے ’مرد حر‘ کيا حکمت عملی اپناتا ہے۔
عزت مآب حسن صاحب، آپ نے ہميشہ کي طرح آج بھي بالکل درست فرمايا۔ واقعہ ہے کہ امريکہ نے اپنے وزير سے پوچھا کہ يہ معلوم کر کے بتاؤ کہ يہ بھٹو کيا چيز ہے۔ وزير نے پاکستان میں اليکشن کروا ڈالے اور امريکي صدر کو جا بتايا کہ خود ہی ديکھ لو، يہ بھٹو کيا چيز ہے۔ پورا دو تہائی پاکستان کا مالک ہے۔ جونہی امريکہ کو يہ پتا چلا اس نے ضياء کو آگے لاکھڑا کيا۔ مطلب يہ کہ اليکشن کا مقصد صرف يہ ديکھنا ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور کس میں کتنا دم خم ہے، تاکہ امريکی مقاصد وعزائم کو جاری رکھنے کے لیے پاليسيوں ميں تبديلی کرنے يا نہ کرنے کا فيصلہ کيا جائے۔ ان ليڈروں کو منتخب کرنے والے بھی تو اس کھيل ميں برابر کے شريک ہیں۔ پنجاب نے اپنے غصب شدہ استعماری مرکزيتی اقتدار کی بحالی کے لیے ووٹ دئیے، سندھ نے زيادہ تر سندھی ’شہادتوں‘ کا بدلہ چکانے کے لیے، کراچی نے لسانی تحفظ کے لیے، جبکہ سرحد اور بلوچستان نے اپنے قومی حقوق کے حصول کے لیے ووٹ دئیے ہیں۔ غرض ہر جگہ کبڈی کبڈی ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ايک زندہ پائندہ قوم نہیں ہیں۔ ہم چوں چوں کا مربہ ہیں يا ہمیں جان بوجھ کر ايسا بنايا گيا ہے۔ يہ ہماری بدقسمتی ہے کہ امريکہ بھی ايسا ہی چاہتا ہے کہ يہ قوم آپس میں دھول دھپا میں مصروف رہے اور وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا رہے۔ ميرے مطابق اليکشن کی ہيرو صرف ’اے اين پي‘ ہے۔
واہ حسن صاحب کيا سچ لکھ ديا۔ جالب مرحوم نے محترمہ کی پہلی حکومت ملنے پر لکھا
يوں بھی ہوتا ہے خون بہا ليکر بخش ديتے ہیں لوگ قاتل کو
ديکھ کر راستے ميں چھاؤں گھنی بھول جاتے ہیں اپنی منزل کو
اور بعد ميں کہنا پڑا
جمہوريت نہ آئی تگ و دو بہت ہوئی
برگد کے نيچے آن گدھی پھر کھڑی ہوئی
خدا کرے آخری مرتبہ نہ ہو
حسن صاحب الزام تراشی میں کچھ زيادہ جلد بازی کا مظاہرہ کيا آپ نے۔ زرداری صاحب نے خود سے منصوب مذکورہ بيان کی ترديد کردی ہے۔