| بلاگز | اگلا بلاگ >>

مشرف انکل اور اس کا دھماکستان

حسن مجتییٰ | 2008-03-04 ،11:10

کہتے ہیں آمر آتا گھوڑے کی رفتار سے ہے جاتا جونک کی رفتار سے ہے۔ پاکستان میں بھی کئی جونکیں ہیں کہ جو نہ فقط جانے کا نام ہی نہیں لیتیں بلکہ لوگوں کے خون کو چمٹ گئی ہیں۔
blo_mush_hasan_150.jpg

آپ ’انٹیلجنس ریپبلک آف غائبستان‘ کے بعد اپنے وطن عزیز کو ’دھماکستان‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’مشرف انکل کا دھماکستان‘۔

مشرف انکل گزشتہ دنوں برطانیہ کے بن بلائے غیر سرکاری دورے پر گئے اور ان کے ہوٹل میں قیام کے اخراجات سترہ ہزار پاؤنڈ یعنی تقریباً ساٹھ لاکھ پاکستانی روپے فی رات دف کر دئیے گئے۔

پاکستان کے غریب عوام کے پیسے۔

کہتے ہیں ان کے دورے کے دوران سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ان کے اعزاز میں ایک شاہانہ عشائیہ بھی دیا تھا۔ ایوان صدر میں سٹاک ایکسچینج سجا ہے اور انتقال اقتدار کے لیے بولیاں بھیجی جا رہی ہیں۔ پیغامات آ جا رہے ہیں۔

میرے دوست حسن درس کا شعر ہے،

’کوٹھا نہ اس کو کہنا
کوٹھا کسی کا گھر ہے
رنڈی تو معتبر ہے
رنڈی تو محترم ہے‘

منتخب ہوکر آنے والے اراکین ’شو آف سٹرینگتھ‘ میں ایسے کھڑے ہیں جیسے، فوجی میلہ مویشیاں میں ہوں۔

اب سنتے ہیں کہ چوہدری احمد مختار بھی وزارت اعظمی کے امیدوار ہیں۔ سروس شوز والے جن کی ایک وجہ شہرت اب چوہدری شحاعت کو ان کے حلقے گجرات سے شکست دینا بھی ٹھہری۔ دوپہر دو بجے کو رات کی نیند سے جاگنے والے شاعر طبعیت اسٹیبلشمینٹ نواز مخدوم امین فہیم کی دال بھلا کیسے گلے۔ فقیر فقیر کو نہ سہے۔ ملتان کے پیر سندھ کے پیر کو نہیں سہتے۔

’ایک قبر ہے جو تازہ
ایک پھول بھی ہے تازہ
اور ووٹ بھی ہے تازہ۔۔‘
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا وطیرہ ہے کہ ایک شخص کو آٹھ سال قید و ٹارچر میں رکھ پھر اسے مسند اقتدار پر بٹھاتی ہے، پھر اتارتی ہے اور پھر قتل کرتی ہے۔ پھر بٹھاتی ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں پاکستان میں ونی منڈیلا بشپ ٹو ٹو بنی ہوئی ہے۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 1:41 2008-03-05 ,ضياء سيد :

    پی پی صدر لغاری کی ڈسی ہوئی ہے۔ ايسے میں لسی بھی پھونک کر پينے کی عادی ہوگئی ہے۔ کيونکہ پارٹی جمہوری طريق کار پر کاربند نہیں ہونا چاہتی ہے، اس لیے منصب زرداری اور اس کے منظور کو ہی مل سکتا ہے۔ ميرٹ اور اہليت، يہ فضول باتیں ٹھہريں۔۔۔

  • 2. 2:08 2008-03-05 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    حسن مجتٰبی صاحب،
    يہ سب اس بيجائی کا ثمر ہے جو خودساختہ فيلڈ مارشل جنرل محمد ايوب نے شروع کی اور يحيٰی خان، ضياالحق اور مشرف نے جاری رکھي۔ فوجی حکمرانی ’سٹيرائيڈز‘ کی مانند ہے جس کے استعمال سے جان کنی ميں مبتلا مريض کی سانس تو بحال ہو جاتي مگر کوئی اور دوا اثر نہیں کرتی اور بالآخر مريض کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ جنرل مشرف ريٹائر تو پاکستان آرمی سے ہوئِ ہیں مگر اصل حکمرانوں کي چاکری بدستور جاری ہے۔ سوات، وزيرستان، باجوڑ، بلوچستان میں فوجی کارروائيوں کا جواز بھی تو کسی نے پيدا کرنا ہے۔

    کاش يہ ڈھاکہ کے پلٹن ميدان کے لگے داغ دھوتے مگر انہوں نے تو بہت خون خواري کي۔ پورے ملک ہي کو ’وار کالج‘ بنا ڈالا۔
    بقول جالب،
    ’محبت گوليوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے
    گماں تم کو رستہ کٹ رہا ہے
    يقیں مجھ کو منزل کھو رہے ہو‘

    جب جو بوئے جائیں تو گندم تو نہيں کٹے گي، نفرتوں ظلم و ستم کی فصل بوئی گئی، قوم کو اپنے ہوس اقتدار واسطے طبقات میں تقسيم کيا، افغان جنگ کے ليے ’لاجسٹک سپورٹ‘ دی جو گلے کا پھندا بن بيٹھی ہے۔
    يہ مملکت خداداد ’انٹيليجنس ريپبلک آف پاکستان، غائبستان‘ تو بنی ہی تھی، ’فاقستان‘ بھی بن گئی۔
    قحت الرجال ہے۔ بندے کم اور فوجی زيادہ طاقت ور ہوں تواسی طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔۔

  • 3. 10:32 2008-03-05 ,میار ریکانی :

    پاکستان میں اقتدار وہ مقدص شے ہے جسے چھونے سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ گناہ خون کے دھبے ہوں، حرام کے پیسے ہوں یا قوم کا خزانہ۔
    اور پاکستان میں اقتدار ہی وہ مقدص شے ہے جس پر رہتے ہوئے کوئی بھی عمل گناہ تصور نہیں کیا جاتا۔
    میں نے تو جب سے ہوش سنھبالا ہے میں یہ سوچ کر ہمیشہ سے حیرت زدہ رہتا ہوں کہ عالمی قوتوں کو یہ ریاست پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

  • 4. 10:41 2008-03-05 ,mohammad yousaf kiyani :

    حسن بھائی سلامت رہو! کيا لکھتے ہو! کاش جن کے بارے میں لکھتے ہو وہ بھی پڑھ ليا کریں تو شايد کچھ شرم کریں۔

  • 5. 13:33 2008-03-05 ,علی نقوی :

    ايسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران پنج وقتہ نمازی، پرہيز گار لوگ ہیں جو محسن انسانيت کے ہر قول و فعل کو حکم سمجھ کر عمل پيرا ہیں۔ انہوں نے کسی بےقصور کا دل کبھی نہیں دکھايا۔ امريکہ کے حوالے کيے ہوئے سب لوگ پاپی تھے اور صدر پاکستان نے از خود مختار مائی کے سر پر چادر رکھی۔ شير و بکری ايک ہی گھاٹ پر پانی پيتے ہیں۔ باقی سب لوگ تو محض بکواس کرتے ہیں۔

  • 6. 13:43 2008-03-05 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! بات ايسی لکھ دی ہے تو لاجواب، مگر دل نہیں مانتا۔ ہمارے ہاں تو روايت يہ بن پڑی ہے کہ آمر آتا بھی طيارے کی رفتار سے اور جاتا بھی طيارے کی رفتار سے ہے۔ رہ گئی بات مخدوموں کی تو ان بيچاروں کو تو ايجنسياں کليرنس ديا کرتی ہیں۔ ونی مينڈيلا بشپ ٹو ٹو کا ذکر تو چھيڑ ديا۔ کاش اس کا پيش و پس منظر بھی بيان کر ديتے اور اس کا بطور خاص حوالہ دينے کا مقصد بھي! يہاں تو ’نيشنل اکاونٹبلٹی بيورو‘ سے جان چھڑوانے والے ’نيشنل ری کنسيليشن‘ کی بات کرتے ہیں۔

  • 7. 11:15 2008-03-17 ,abbas bhatti :

    یہ پاکستان ہے۔ اب اسمبلی آئی ہے۔ اچھا ہوگا۔ امید ہے جج بحال ہوں گے۔ جج بحال نہ ہوئے تو نواز شریف اور زرداری گئے۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔