افواہوں کا موسم
کئی برس پہلے ایک ٹی وی ڈرامہ بنا تھا جس کا نام تھا ’وفا کا موسم‘۔
آج کل پاکستان کے سیاسی منظر پر ایک نیا ڈرامہ شروع ہو رہا ہے جس کو ہم ’افواہ کا موسم‘ کہہ سکتے ہیں۔
اتنا نیا بھی نہیں: یہ موسم ہر سیاسی حکومت کے دور میں شروع ہوتا ہے اور فوج یا فوج سے تعاون کرنے والوں کے اقتدار میں آنے پر نہ جانے کیسے ختم ہو جاتا ہے۔
افواہوں کے اس موسم میں ہم سب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آخر ہم ہی تو ہیں جو ہر افواہ اور ہر سنی سنائی بات کو حقیقت کے روپ میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ہماری عادت ہے کہ ہم کسی قصے کے بارے میں سوچتے نہیں ہیں، اور اس کے ذرائع یا ’سلسلے‘ کے بارے میں سوال ہی نہیں اٹھاتے۔ میں نے تو جب بھی لوگوں کو تھوڑا سا کُریدا ہے کسی دلچسپ، چٹپٹے قصے کے بارے میں تو انہوں نے بُرا ہی مانا ہے۔ لیکن عموماً ان کا جواب یہ ہوتا ہے: ’یہ اخبار میں چھپا تھا‘ یا پھر ’یہ تو سب کو معلوم ہے۔‘
ہم لوگ بغیر سوچے سمجھے سنی سنائی، چٹپٹی بات کو آگے پھیلاتےجاتے ہیں۔ انتہائی غیر ذمہ دار انداز میں۔ میں تو صحافیوں کو دیکھ کر بھی حیران ہوتی ہوں کہ کسی قصے کی تفتیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، کہ آیا یہ قصہ ممکن تھا بھی یا نہیں۔
پاکستان میں عجیب و غریب واقعات ہوتے تو ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر افواہ کو حقیقت مان لیں۔ افواہ کو بطور افواہ ظاہر کرنا چاہیے۔
اب سیاسی حکومت کو افواہوں کے جنگ میں زبردست حملوں کا سامنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس جنگ میں استعمال نہ ہوں بلکہ ہر سنی سنائی بات کو شک کی نظر سے دیکھیں اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
پاکستان میں صحافی ماضی میں بہت بری طرح استعمال ہو چکے ہیں۔ سیاست دانوں کی ذات اور حکومت کی بدعنوانی کے قصے انہوں نے اس طرح شائع کیے ہیں جیسے کہ ان کے پاس واضح ثبوت تھا ۔
حکومت کی برطرفی کے معاملے میں بھی صحافی استعمال ہو چکے ہیں، اور حکومت کے برطرف ہونے کی خبریں ایسے چلاتے ہیں آیا کوئی ’سکوپ‘ یعنی خاص خبر۔
بات یہ ہے کہ ان صحافیوں کو استعمال کیا گیا ایک ماحول تیار کرنے کے لیے۔ اور ایسی کوششوں کی جھلک آپ کو اب بھی اس تازہ افواہ میں دکھائی دیتی ہے کہ ’یہ خبر ہے کہ یہ نئی حکومت نہیں چل سکے گی، اس کا ستمبر تک کا ہی ٹائم ہے‘۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ افواہوں کے بارے میں آپ کا کیا تجربہ رہا ہے؟ اور کیا ہم اس معاملے میں ذمہ داری سے کام لے سکتے ہیں یا پھر یہ ہمارے بس کی بات نہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خيری صاحبہ،
آپ نے سمت اور مسئلہ کی صحیح نشان دہی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ لفافے وصول کرنے والے صحافی وہ کام کر جاتے ہیں جو ايجنسیاں انسانوں کو غائب کروا کر، دھماکے کروا کر يا ليڈرز کو قتل کروا کر حاصل نہیں کروا سکتیں۔
سياسی عوامی قيادتوں کی کردار کشی، ظلم کی گھڑی گئی داستانیں اور جزبہ تعمير کی پرورش نہ کرنا ايسے ہی کام ہیں۔ ہاں يہ بھی حقيقت ہے کہ جھوٹ کی بنياد پر قائم حکومتیں گرنے لگیں تو افواہیں جنم ليتیں ہیں۔ آج کل بھی يہ خود رو فصل ہے يا حقيقت، عام شہری ہواس باختہ ہے۔
مگر عنبر جي آج کل کے دور ميں يہ کيسے ممکن ہے کہ عوام ميڈيا کی يکطرفہ رپورٹنگ کو قبول کر لیں؟ ہاں اگر کسی نے ديانت داری کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹی سچی خبريں اڑا بھی دیں تو اور بھی تو ہیں! !مسابقت اور پھر گلوبلائيزيشن کے اس دور ميں میں نہيں سمجھتا کہ ميڈيا کی اڑائی گئی خبريں اتنی اثر انداز ہوتی رہی ہوں۔ اس کے باوجود بھی بعض مفاد پرست چوکتے نہيں ہيں۔ ہو سکتا ہے کچھ ايسا ماحول تيار کيا جاتا ہو کہ ملکی سطح پر اخبارات چينل اور ريڈيو والے مسابقت کے چکر ميں افواہ کو اتنا مصالحہ لگا ديں کہ وہ ايک دھماکہ خيز خبر کی شکل اختيار کر لے۔ ويسے اب ناظرين بھی پہلے والے نہيں رہے۔ اس لیے جہاں تک ميرا خيال ہے نہيں چل سکے گی والی بات شايد مشکل سے ہی کسی کے دماغ ميں گھس سکے۔
ويسے کيوں نہيں ہوسکتا!! حکومتوں کے گرنے ميں دير تھوڑی ناں لگے گی!!خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
صحافی ہرطرف ايسے پھيل گۓ ہيں جيسےکوئ برڈفلويا ڈينگی وائرس ہواور اسی طرح نيوز چينلز۔اگر سارے ہی صحافی سچ لکھنےاور بولنے لگ پڑيں توسب سےالگ سب سےجدا کےنعرے کا کياہوگااور ويسے بھی يہ افواہيں اورخودساختہ رپورٹيں دلچسپ چٹ پٹےسياستدانوں پر تبصرے ہي تو ہيں۔ جس نےاسٹار پلس کا راگ الاپنےوالی خواتين وحضرات کواپنے کنٹرول ميں کرليا ہےاور ان ہی افواہوں نےيونيورسٹی کے ہردوميں ڈيڑھ اسٹوڈنٹ کوماس کوم کرنےپرلگا ديا ہے۔مجھےتولگتاہےجيسےصحافيوں نے بچپن سےيہی سيکھاہےکہ ہميشہ براسوچنا اور براہی لکھنا ہے ۔
عنبر جی
السلامُ عليکُم
مزاج بخير،ويسے آج کل کے حالات ميں مزاج بخير کيسے ہو سکتے ہيں جب ہر آن ايک نئ تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے تو ہم تو پھر وہ ہيں جنہيں عام عوام کہا جاتا ہے جو لوگ کسی نا کسی وجہ سے خبروں ميں رہتے ہيں اور نامی لوگ ہوتے ہيں بعض اوقات ايسے حالات خُود بھی پيدا کروا ديتے ہيں کہ سُرخيوں ميں رہيں اور ديکھ ليں سامنے کی مثال ہے کبھی بے نظير کی زندگی ميں يہ مُمکن تھا کہ آصف زرداری وزارت کے منصب تک پہُنچ پاتے اب اندر کی باتوں يا افواہوں سے کوئ خواہ کُچھ بھی کہے ہوتا يہ ہے کہ اُنہی باتوں سے کہانياں جنم ليتی ہيں جن کا کہيں نا کہيں کوئی سرا موجُود ہوتا ہے ، اب آپ ہی کہيں کہ اس افواہ ميں بے شک حقيقت ہو يا نا ہو کہ ”نئ حکُومت چل نہيں سکے گي”اللہ نا کرے کہ اب ايسا کُچھ بھی ہو ليکن کيا بات سوچنے کی نہيں کہ اب تک وزارت عُظميٰ کے لیے کسی کو بھی تيار نہيں کيا جا سکا اور جن کو تيار کيا گيا ہے اب آخر ميں، وہ اندر ہی اندر پہلے سے مُنہ سنوارے بيٹھے تھے اب بس ذرا لا پرواہی دکھا کر پھر مان جائيں گے کہ
اُنہی باتوں کے لفظ بنتے ہيں
جوزباں سے ادا نہيں ہوتے۔
عنبر جی آپ کی بات کا مرکزی نکتہ بڑی حد تک قابل اتفاق ہے مگر اس ميں افواہيں پھيلانے والوں کا کينوس بہت سکيڑ ديا گيا ہے -آپ نے ايک انسانی برائی اور کمزوری کو ہمارا،ہماری اور ہمارے يہاں کے سانچے ميں بند کر ديا ہے جب کہ عوام اور صحافت کی يہ خرابياں آفاقی ہيں -آپ کا کيا خيال ہے کہ ہمارے يہاں کے علاوہ لوگ اخبار پڑھ کر اس کی ہر ہر خبر کی تحقيق کے ليے نکل جاتے ہيں يا پھر کوئی بھی شخص اخبار کی کسی خبر کا کہيں بھی اور کسی سے بھی تذکرہ ہی نہيں کرتا؟-کيا ’ہمارے يہاں‘کيا ’ان”کے يہاں‘ ہر جگہ جھوٹی خبريں اور اسٹوريز شائع ہوتی ہيں، پڑھی جاتی ہيں اور آگے پھيلائی جاتی ہيں- بات يہ ہے کہ جب بہت سارے لوگ بوليں گے تو ان ميں چند دروغ گو بھی ہونگے اور جب بہت سارے لوگ لکھينگے تو ان ميں کئی قلم فروش بھی ہونگے،اسی طرح جب بہت سے ادارے خبريں چھاپيں گے تو ان ميں کئی خبريں غلط بھی ہونگي-آپ نے صحافيوں کے استعمال ہونے کا ذکر کيا ہے تو بعض تو واقعی دانستہ طور پر استعمال ہوتے ہيں اور بعض خود غلط خبروں کا اثر قبول کر ليتے ہيں -کيا آپ کے خيال ميں دنيا ميں کوئی ايک ايسا اخبار ہے جو اپنی دی ہوئی ہر ہر خبر کی صداقت کا مدعی اور ضامن ہو؟-ظاہر ہے کہ يہ ممکن نہيں ہے کہ خبروں کے طوفان ميں اڑتی افواہوں کی ريت کو الگ کيا جا سکے،يہاں نہ وہاں-