| بلاگز | اگلا بلاگ >>

’آخر کام تمام کیا‘

حسن مجتییٰ | 2008-03-27 ،13:25

پہلی بات پہلے: کل جب میں نے ٹی وی پر پی پی پی کے نومنتخب وزیر اعظم کو ’غیر منتخب‘ صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے دیکھا تو پتہ نہیں مجھے کیوں یہ شعر یاد آ گیا:
’ہائے بازار جہاں
جس میں ہر یوسف بکے ہے
ہر زلیخا جس میں دامن تار ہے‘
blo_mush_gillani310.jpg


پھر میں نے سوچا نہ وہ یوسف کنعاں ہیں اور نہ جنرل مشرف عزیز مصر۔۔۔ اور وہاں زلیخا کون ہے؟ بس پسند اپنی اپنی۔ یعنی کہ ساری رات یوسف زلیخا سنتے رہے اور صبح کہانی ختم ہونے پر پوچھا کہ یہ زلیخا مرد تھا یا عورت!

یہی حال پاکستانی عوام کے حال پر بش انتظامیہ کا ہے۔ پاکستانی عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اظہار کر ہی دیا کہ وہ انتہاپسندی نہیں جمہوریت چاہتے ہیں لیکن بلامشرف۔

اخبار ’شکاگو سن ٹائمز‘ نے لکھا کہ اٹھارہ فروری کی شام انتخابات کے نتائج سنتے ہی امریکی وزارت خارجہ کے عملداروں نے جنرل مشرف کو مواخذے سے بچانے کی کوششیں شروع کردی تھیں لیکن پاکستانی ایسٹیبلشمینٹ کیساتھ سابق مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ جیسے نتائج والا کام ہوا:
الٹی ہو گئيں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا‘

’جمہوریت بہار کی ہوا کا تازہ جھونکا ہے‘ ذوالفقعار علی بھٹو نے کہا تھا۔ اس دفعہ پہلا تازہ جھونکا نظربند ججوں کی فوری آزادی ہے۔ دیکھنا ہے کہ اب یہ اہل صفا مردود حرم مسند پر بٹھائے بھی جاتے ہیں کہ خوش رہتے ہیں اپنے خرچ پر۔ اب فیض کی یہ نظم حسین حقانی بڑے شوق سے کہتے ہیں۔

اے تاجران خون ذوالفقار! اس بازار مصر میں ہیرے جیسے دل رکھنے والے افتادگان خاک کی امنگيں اور آنسو‏ؤں میں بھیگے ہوئے ووٹ ملتانی مٹی سے بھی کم قیمت میں نہ بیچنا۔

اسلام آباد میں سنا ہے ملکوں کی ساری بلیک لیبل بک کر ناپید ہو گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ ایف ایٹ کی اس گلی کی وجہ شہرت زرداری ہاؤس سے گہنائی گئي ہے یا کہ وہ بھی مخلوط ہوگئي ہے:
’تم تو یونہی ناراض ہوئے ہو
ہم نے پتہ میخانے کا
شہر کے ہر اس شخص سے پوچھا
جسکے نین نشیلے تھے‘


تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:41 2008-03-27 ,گمنام :

    واہ واہ، محترم آج کل آپ کچھ زيادہ ہی اچھا لکھنا شروع ہو گئے ہيں۔ خدا خير کرے۔

  • 2. 16:32 2008-03-27 ,Annie Syedha :

    حسن صاحب! پليز، ’ہتھ ذرا ہولا رکھو جی!‘ ابھی تو ہماری عوامی حکومت آئی ہے۔ ابھی سے کيڑے نہیں نکالو جی! اگر بوٹوں والوں نے سن ليا تو ہم پھر دس سال تک نئے عذاب میں پھنس جائیں گے۔

  • 3. 16:50 2008-03-27 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! ہر طرف بکاؤ مال موجود ہے۔ بولياں لگ رہی ہیں۔ بھاؤ تاؤ ہو رہے ہیں۔ اقتدار و اختيار کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی بھی نظرياتی و جمہوری روايات کا علمبردار نہیں۔ ديکھنا تو يہ ہے کہ يوسف رضا صاحب يہ بھان متی کا کنبا کب تک سنھبالتے ہیں۔ يہ پتلی تماشہ کب تک چلے گا جس ميں پس پردہ رہ کر ڈورياں ہلائی جاتی رہيں گي؟ ابھی تو يوسف مير کارواں ہیں ديکھيے وہ کب يوسف ’بےکارواں‘ ہوتے ہیں۔۔۔

  • 4. 18:07 2008-03-27 ,نثار احمد جاوبد :

    بہت اچھے حسن بھائی! آپ کا بلاک پڑھ کر گيدڑ کی کہانی ياد آگئی۔ کسی جنگل ميں بہت گيدڑ رہتے تھے۔ ان ميں ايک ان کا سردار۔ سردار گيدڑ نے ايک دن اپنے گيدڑوں سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ سب گيدڑوں نے جواب ديا کہ آپ سردار ہو۔ تو اس نے کہا پھر مجھے کوئی نشانی لگاؤ کہ سب مجھے پہچان سکيں کہ ميں سردار ہوں۔ چند گيدڑ قريبی گاوں گئے اور ايک چھج جس میں گندم وغيرہ صاف کرتے ہیں اٹھا لائے اور لاکر سردار کے پيچھے باندھ ديا۔ اب سردار بہت خوش تھا۔ چلتے پھرتے اپنے سرداری کے چھج کو ديکھتا اور خوش ہوتا۔ ايک دن اچانک شير نے ان گيدڑوں پر حملہ کر ديا۔ سب گيدڑ جان بچانے کے ليے بلوں ميں گھسنے لگے اور جان بچانی تو سردار پہ بھی فرض تھی۔ سردار نے ايک بل ميں جمپ مارا ليکن چھج پھنس گيا۔ اندر سے گيدڑوں نے بہت آوازيں ديں سردار اندر آجاؤ۔۔۔ سردار بولا میں تو آتا ہوں ليکن سرداری کا چھج نہيں آنے دے رہا۔ نتيجہ شير کھا گيا۔۔۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ جب سردار کا شکار ہوتا ہے تو شکار کرنے والا کبھی نشيلی آنکھیں يا خون کی جگہ بليک ليبل نہيں چیک کرتا اور ديکھیے کون کون سردار بنتا ہے اور پھنسے سردار کا کيا بنتا ہے۔۔۔

  • 5. 7:13 2008-03-28 ,ّڈاکٹر اعجاز اختر نجمی :

    حسن مجتبی صاحب يا تو آپ تھوڑی پيتے ہیں يا پھر کچےشرابی ہيں ورنہ طعنہ، اور وہ بھی شراب کا۔۔۔!

    ’آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
    اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
    بام مينا سے ماہتاب اترے
    دست ساقي میں آفتاب آئے
    ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
    سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
    عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
    تيری مہر و وفا کے باب آئے
    کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
    آج تم ياد بےحساب آئے‘

    والسلام
    ڈاکٹر اعجاز اختر نجمی

  • 6. 7:13 2008-03-28 ,khurram :

    جبان حسن صاحب ویسے آپ کا بلاگ بہت اچھا ہے مگر آخر میں درج شعر کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ غلام محمد قاصر کا شعر یوں ہے،
    ’آپ یوں ہی ناراض ہوئے ہیں ورنہ میخانے کا پتہ
    ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے‘

  • 7. 7:17 2008-03-28 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    حسن صاحب
    اسلام و عليکم
    شيخ چلی جس شاخ پر بيٹھے تھے درخت اور اپنے درميان سے کاٹ رہے تھے۔ آپ جيسے دانشمند کی نظر پڑی تو تنبعہ کی کہ گر جاؤ گے، نہ سمجھے اور زمين پر آن پڑے۔
    آپ نےموجودہ صورتِ حال کا نقشہ کھينچا يا نوشتہ ديوار تحرير کيا ہے، ’بات تو ہے، مگر بات ہے رسوائی کي‘۔۔۔ امريکہ ہماری نئی حکومت کی مدد کرنا چاہتا ہے، شرط ہے کہ يہ کرزئی اور طالبانی کی طرح اپنی قوم کا خون کرے۔۔۔
    پيپلز پارٹی سب کچھ گنوا کر ہوش ميں نہ آئے تو جالب ياد آتے ہیں،
    ’يوں بھی ہوتا ہے خوں بہا لےکر بخش ديتے ہیں لوگ قاتل کو
    ديکھ کر راستہ ميں چھاؤں گھنی بھول جاتے ہیں اپنی منزل کو‘
    ان سياسی جماعتوں کو ہوش نہ آيا تو يوسف بھی گيا اور زليخا کا کرتا بھی پھٹے ہی پھٹے۔ مگر ايف آئی آر درج ہو گی نہ عزيز مصر کا دربار رہے گا۔ يہ شام غريباں، آخري شام لگتي ہے، اور اگر بچ گئے تو آپ کے بلاگ ہوں گے اور يہ غم۔۔۔

  • 8. 9:34 2008-03-28 ,Khawar Chaudhry :

    حسن مجتبیٰ صاحب، سلام!
    میں‌ آپ کی تحریروں ‌کا پرانی قاری ہوں۔ ماشااللہ ہے تو آپ پرانے ’پپلے‘ لیکن عموماً بے لاگ لکھتے ہیں۔ ‌مگر کبھی کبھی یوں ‌لگتا ہے جیسے آپ شوقیہ تنقید فرمانے کے عادی ہیں۔ اس تحریر میں بھی آپ کی شوقیہ تنقید کی ذیل کا طنز واضح‌ ہے۔ ویسے منتخب وزیر کا غیر منتخب صدر سے حلف لینا بھی خوب رہا۔۔۔ سیاسی بونوں سے تو جان چھوٹ چکی ہے، اب اللہ کرے آمریت سے بھی چھٹکارا مل جائے۔۔
    خاورچودھری‌

  • 9. 10:52 2008-03-28 ,Sajjadul Hasnain :

    حسن صاحب
    افتادگان خاک کی امنگيں اور آنسوؤں ميں بھيگے ووٹ شايد ملتانی مٹی سے بھی کم قيمت ميں بيچے گئے ہیں۔ اس کے باؤجود سربراہان
    مشرف کو اس غير منتخب صدر کو احتساب سے بچانے کے لیے جٹ جانا پڑا ہے۔ ويسے يہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نئے وزير اعظم نے سب سے پہلے نظر بند جج صاحبان کو نويد صبح سنا کر عوام بے زبان کو آخر کيا پيغام دينے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اور کيا يہ بھی دلچسپ نہیں ہے کہ مسٹر ٹين پرسنٹ کو نہ چاہتے ہوئے بھی وزارت عظمی کے پر شکوہ پد سے دور رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
    خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 10. 20:13 2008-03-28 ,عا ليہ جا و يد قاضی :

    اے غير منتخب صحافی بھائي۔ آپ کو بھی تو بی بی سی والوں نے اردو پڑھنے والوں پر مسلط کيا ہوا ہے۔ رہی صدر پرويز مشرف صاحب کی بات تو سوائے تعصب پرستوں اور آپ جيسے القائدہ کے خفيہ چاہنے والوں کے دنيا کی اکثريت ان کی عزت کرتی ہے۔ پاکستان کی خاموش اکثريت ان پر ناز کرتی ہے۔

  • 11. 12:17 2008-03-29 ,نعیم علوی :

    حسن بھائی، آپ نے سچائی بیان کر دی۔

  • 12. 12:22 2008-03-29 ,نعیم علوی :

    حسن بھائی آپ نے سچائی بیان کر دی۔

  • 13. 14:30 2008-03-30 ,نجيب الرحمان سائکو :

    محترم حسن صاحب، قصہ يہ ہے کہ ان دنوں راقم السطور نے ايک بات نوٹ کی ہے کہ آپ نے کچھ زيادہ ہی لکھنا شروع کرديا ہے، تقريباً پورے بلاگ صفحہ پر آپ نے قبضہ جما رکھا ہے۔ محترم وسعت صاحب، محترمہ عنبر صاحبہ کو آپ بلاگ پيج خالی ديتے ہی نہيں ہيں۔ گماں يہی ہے کہ آپ نے معيار کی بجائے تعداد کا فلسفہء قبول کر ليا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ آپ کے بلاگ دن بدن يکسانيت کا شکار ہو رہے ہیں اور ان میں کوئی نئی دريافت يا نکتہ يا کوئی گھنجلک فلسفہء نظر نہیں آتا جس کے نتيجہ میں سنجيدہ مزاج کے قارئين سخت کوفت میں ہیں۔ بہرحال ايک بات آپ کے بلاگز میں قابل پزيرائی ہوتی ہے کہ آپ دانستاً يا نادانستاً پنجابی ثقافت کی تبليغ کرتے ہیں جو کہ ثواب دارين حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ قصہ يوسف زليخا کی تشہير اور ميری مادری زبان پنجابی کی اُچيچ کرنے پر فدوی آپ کو خراج تحسين پيش کرتا ہے، ورنہ يہاں تو اس ميٹھی زبان کو بيک ورڈ لوگوں کی زبان بذريعہ ميڈيا و تعليمی نصاب کے مشہور کيا جا رہا ہے۔ ’يوسف پُچھے دس زليخاں کدھر گئی جوانی۔۔‘

  • 14. 9:30 2008-03-31 ,Jamil Maqsood :

    یہ مثبت تنقید ہے۔ اگر پاکستانی سیاستدان ان تمام چیلینجز سے نپٹنے میں کامیاب ہوئے تو ملک ضرور ترقی کرے گا۔ اگر ناکام ہوئے تو شاید ملک کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

  • 15. 13:18 2008-04-01 ,Anonymous :

    جانی حسن، زبردست!!

  • 16. 16:04 2008-04-01 ,ضياء سيد :

    شوق تنقيد ميں آپ حسين حقانی کو کيوں بھول گئے، وہ آپ کو بکنے کے ايسے ايسے ہنر بتاتے کہ عزت سادات بھی نہ جاتي۔ امريکہ مشرف کو اپنے وائسرائے کے طور پر اقتدار ميں رکھنا چاہتا ہے۔ ديکھنا ہے کہ چھيڑ چھاڑ پہلے شروع کون کرتا ہے، مشرف يا يوسف کا شريف کارواں؟

  • 17. 0:22 2008-04-03 ,ضياء سيد :

    تاجران خون ذوالفقار کو آپ کا مشورہ خاصا دلچسپ ہے۔ حسين حقانی سے سوداگری کے فن کو سيکھ ليا تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گي۔ ياد رہے بی بی کو تعاون پيش کرنے سے پہلے انہوں نے اپنی دوسری بيگم کی وزارت پکی کر لی تھي۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔