’قائد اعظم، دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان؟‘
اگر آّپ نے اردو کے بہت بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’کھول دو‘ پڑھا ہوگا تو گزشتہ دنوں ملک کے بانی محمد علی جناح کے مزار پر لودھراں کی نو بیاہتا لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس افسانے کی یاد دلاتا ہے۔
سراج الدین اور اسکی بیٹی سکینہ جسے وہ جلتے ہوئے امرتسر سے سکھ اور ہندو بلوائیوں سے بچاتا ہوا نوزائیدہ پاکستان کے مہاجر کیمپ میں لے آتا ہے لیکن جو رضاکاروں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے۔ یہی کچھ لودھراں کی لڑکی کیساتھ جناح کے مزار پر ہوا۔ لودھراں سے نو بیاہتا جوڑا قلندر شہباز کے مزار پر حاضری کے بعد کراچي میں بانیِ پاکستان کے مزار پر پہنچا جہاں وہ لڑکی میوزیم کے اسٹور میں اجتماعی ریپ کا شکار ہوئی۔
ایک فوجی میجر کی نگرانی میں ستر محافظوں کا مزار کے احاطے میں ڈیوٹی دیتا ہوا دستہ یا سارے دستے بھیڑیوں کے غول! جن حالات میں منٹو کی سکینہ رضاکاروں کو کیمپ کے باہر ملی تھی ان ہی حالات میں لودھراں کی کبرا پولیس کو مزار قائد کے احاطے میں ہاتھ آئی۔
یہ سب کچھ اسی دن، کچھ دیر قبل یا بعد میں، ہوا جب پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون اسپیکر کا انتخاب ہورہا تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر پینتالیس منٹ کے بعد ایک عورت ریپ ہوتی ہے، جس ملک کا صدر کہتا ہو ’عورتیں امریکہ اور کینیڈا کے ویزہ کے لیے خود کو ريپ کرواتی ہیں‘۔ اس ملک میں بقول شخصے ’عورتوں کے خلاف جنسی دہشتگردی جاری ہے‘۔ اس دن مشرف ٹی وی پر کہہ رہے تھے ’کوئي شاید ڈاکٹر شازیہ خالد تھی‘۔
اگر واقعی موت کے بعد زندگی ہے تو ایک بار پھر جناح جیسا آدمی اپنی قبر میں اپنی تخلیق پر پھر سے پچھتاوے کے آنسو ضرور بہا رہا ہوگا۔ کیا اسے یہ بھی پتہ ہوگا کہ اسکے اپنے ساتھی سردار شوکت حیات کی بیٹی وینا حیات کیساتھ کیا ہوا تھا؟
سی آئي اے کراچی توگسٹاپو پولیس ہے لیکن اب اسی قائد اعظم کے پاکستان میں شیری رحمان اور عرفان مروت ایک ہی پارٹی کے حمایتی ہیں۔
’قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان‘ حبیب جالب نے کہا تھا۔
تبصرےتبصرہ کریں
جی حسن بھائی، جب ہمارے محافظ ہمارے منہ سے اپنی عياشيوں کے ليے نوالہ چھينيں، ملکی بجٹ سے بےحساب ڈاکہ ماريں، عوامی امنگوں کا کھلے عام قتل کريں، جن سے تحفظ کے ليے ہم نے ان کو محافظ رکھا ہو يہ انہي کی مہمانوازی پہ فخر محسوس کريں اور آگے پيچھے دم ہلاتے پھريں، جو اسلحہ ہم نے ان کو اپنی خفاظت کے ليے لے کر ديا ہو اسی اسلحے سے يہ ہمارے ہی خون کی ہولی کھيليں، ان محافظوں کے سربراہ جو اپنے کاروباروں ميں مست اور پتہ نہيں کس کس ميں مست قائد کے پاکستان کی لٹی ہوئی بيٹی کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی بجائے ويزے کا طعنہ ماریں تو يہی کہہ سکتے ہيں کہ پاپ کا گھڑا بھر چکا۔
حسن بھائی، آپ کے مطابق قائد اعظم ایک ایسے انقلابی تھے جو کمزور لوگوں کی بہتری کے لیے کام کررہے تھے خاص طور پر عورتوں کے لیے لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اس انقلاب کے لیے ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔
حسن بھائی! مردوں کے اس معاشرے میں انسانی حقوق ايک ايسی اعليٰ شے ہے جو عورت کی کمزور ذات کی پہنچ میں آ ہی نہیں سکتي۔ پرويز مشرف کا عورت کو الزام دينا صرف اور صرف توثيق تھي اس سوچ کي جو ہمارے معاشرے ميں عام پائی جاتي ہے۔ عورت کی عزت عورت کی تر قی سے نہیں بلکہ مردوں کی سوچ سے مشروط ہے۔ ميري حسرت ہے کہ کاش کوئی اعتزاز ناموس نسواں کی بحالی پر تحريک چلا سکے۔ کل ہی کوئی اعليٰ تعليم يافتہ ہم وطن اس خبر کو سن کرکہہ رہا تھا قصور لڑکی کا ہی ہوگا۔ کوئی مجھے بتائے کہ آخر کب تک!
حسن بھائی! قائداعظم نے تو اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ ان کھوٹے سکوں کی باقیات ابھی اس ملک میں باقی ہے، جب تک وہ باقیات ختم نہیں ہو گی، یہ ہوتا رہےگا۔ عبدالستار زاہد چودھری
حسن صاحب اگر يہ قائد اعظم کی بجائے عوام کا پاکستان ہوتا، جسے عوام نے حقيقی جدوجہد کے بعد حاصل کيا ہوتا تو پھر ايسا اور اس جيسا اور بہت کچھ نہ ہوتا۔۔۔
حسن بھائی، کیا کوئی امید ہے کہ پاکستان کی حالت بدل سکےگی؟
نعیم علوی، لاہور
حسن بھائی میں سوچتا ہوں کیا قائد اعظم نے اسی دن کے لیے پاکستان بنایا تھا؟ ان کے مزار پر جو کچھ ہوا وہ بڑی شرمناک بات ہے ہم پاکستانیوں کے لیے۔
عوام کو انقلاب کے لئے بيدار ہونا ہو گا۔
کہاں ہیں مملکت اسلامی پاکستان کے نظرياتی محافظ؟