| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ویری سیڈ فار بینظیر

اسد علی | 2008-05-09 ،13:11

morocco_men203.jpgاس بار سیاحت کے لیے میں نے مراکش کا انتخاب کیا۔ ہرطرف سیاحوں کا رش تھا۔ پرانے بازاروں سے گزرتے ہوئے لوگوں مجھے دیکھ کر انڈیا یا پاکستان کی آواز لگاتے۔

ہر روز کم سے کم ایک یا دو بار ایسا ضرور ہوتا کہ کوئی نہ کوئی آگے بڑھ کر بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر تعزیت کرتا۔ ایک دو لوگوں نے تو یوں تعزیت کی جیسے کسی کے قریبی عزیز کے انتقال پر کی جاتی ہے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میں بے نظیر بھٹو کا حامی ہوں یا نہیں یا مجھے بھی افسوس ہوا کہ نہیں۔ وہاں لوگ فرانسیسی اور عربی بولتے ہیں اور انگریزی سے ان کی واقفیت چند الفاظ سے زیادہ نہیں، اس لیے ان کی تعزیت مختصر ہوتی تھی جس میں 'ویری سیڈ'(بہت افسوس ہوا) بار بار دہرایا جاتا تھا۔ سینکڑوں سال پرانے شہر فیض کے قدیم حصے میں قیام کے دوران ہوٹل کے ایک بیرے نے بھی جِس کی عمر بائیس تئیس سال سے زیادہ نہیں تھی پہلی بات مجھ سے یہی کی کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ جواب ملنے پر اس نے سنجیدگی سے با ادب کھڑے ہو کر کہا کہ 'ویری سیڈ فار بے نظیر'۔ اسی طرح مراکش شہر میں ایک شام گھومتے پھرتے میں کھانے کے لیے ایک دکان پر کچھ ہلاک پھلکا کھانے کے لیے رکا۔ سکارف پہنے ایک لڑکی نے مجھے ٹھنڈے میٹھے دہی کا گلاس تھما دیا۔ وہیں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے میری شہریت پوچھی اور بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ پھر اس نے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر کہا کہ 'وہ میرے دل کو چھو گئی تھی'۔ اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف میں ایک آدھ جملہ بولا اور جاتے ہوئے کہا کہ بات بے نظیر کی ہلاکت پر ختم نہیں ہو گی 'انشا اللہ پاکستان ضرور انڈیپنڈنٹ ( آزاد) ہوگا'

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:04 2008-05-09 ,اسماء پيرس فرانس :

    آجکل آپ سارے بی بی سی والے آوارہ گردی پہ کيوں نکلے ہوئے ہيں؟

  • 2. 15:39 2008-05-09 ,نجيب الرحمان سائکو :

    ڈئير اسد صاحب، آداب!
    قسمت کے کھيل بھی نرالے ہيں کہ آپ مراکش ميں سياحت کرتے پھر رہے ہيں جبکہ مجھے اس قدر مہنگائی کا سامنا ہے کہ لاہور سے باہر ہی نہيں نکل سکتا- اب آپ ہی بتائيں کہ جس ملک ميں بجٹ سے پہلے ہی سگريٹ کی ڈبی کی قيمت ايک روپيہ بڑھا دی جائے اس ملک ميں مہنگائی کی کيا صورتحال ہوگي، يہی وجہ ہے کہ اب ميں گھر ميں بجائے سگريٹ کے حقہ پينے لگا ہوں- ملاوٹ کا يہ حال ہے کہ حقہ کيلۓ جو پاتھياں (گوبر) خريدتا ہوں ان ميں ھی مٹی کٹا اور پتھر برآمد ہوتے ہيں، اسی ليۓ ميں اپنے پِنڈ سے ايک عدد مج لا کر يہاں لاہور ميں رکھنے بارے بھی سنجيدگی سے سوچ رہا ہوں- باقی رہی بات کہ پاکستان آزاد ہوگا! تو مودبانہ عرض ہے کہ 'او دن ڈُبا جِدن گھوڑي چڑھيا کُبا''-

  • 3. 15:54 2008-05-09 ,اے رضا :

    ’فراز صحنِ چمن میں بہار کا موسم
    نہ فيض ديکھ سکے تھے نہ ہم ہی ديکھیں گے‘
    ۔۔۔اس کے لیے ايک اور جناح کہاں سے لائیں گے، جناب اسد علي صاحب؟

  • 4. 16:22 2008-05-09 ,فا روق - سويڈن :

    معلوم نہيں کتنے دلوں ميں بستی تھی۔

  • 5. 17:23 2008-05-09 ,نجيب الرحمان سائکو :

    ’وقت زخم بھرتا ہے ليکن کبھي کبھي يوں بھی ہوتا ہے
    کہ عمر بيت جاتی ہے ايک زخم کے بھرنے میں‘

    آہ ! بينظير بھٹو!

  • 6. 17:47 2008-05-09 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب!واقعی سادہ لوح افراد نہ صرف بيرون ممالک بلکہ يہاں بھی اس معصوم خواہش کا اظہار کرتے ہيں کہ ہم حقيقت ميں کب آزاد ہونگے؟ آسمان سے باتيں کرتی ہوئی روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائي، بڑھتی ہوئی لاقانونيت،آئين کی عدم پاسداری و من پسند تشريح، نہ ختم ہونے والي لوڈشيڈنگ يہ سب کچھ آزاد ہونےکی خواہش کا سبب بنتا ہے

  • 7. 18:22 2008-05-09 ,sana khan :

    آپ کو لوگوں کا تعزيت کرنا اچھا لگا يا برا يہ بھی بتا ديتے تو بہتر ہوتا

  • 8. 18:29 2008-05-09 ,وحيد :

    برادرم چوھدری صاحب -
    بندے کوبھی اب تک کچھ جگہوں کی صحراء نوردی بلکہ يوں کہيۓ کہ ملک اور شہر نوردی کا موقعہ ملاھے- ليکن کچھ تو ابتدائی اسکولوں ميں پڑھي اسلامي تاريخ ميں ابن بطوطہ ، طارق بن زياد اور موسيٰ بن نصيرکے افسانوي کرداروں کا احوال پڑھااوراس کے بعد بتدريج جب اردو ميں لکھي گئی تاريخ اور سرزمين اندلس ميں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کا بحيثيت ايک مسلمان خاص کرايک پاکستاني اٹھان ھونےکی حيثيت سے مطالعے کا موقع ملا ہميشہ سے دل ميں اک ہوک سی اٹھی اور دل نےخواہش کی کہ کاش ميں کبھی جبل الطارق پر کھڑا ھو کر اپنے مسلمان بہن بھائيوں خاص کر پاکستانيوں سے کہہ سکوں کے خواب غفلت کي کشتياں جلاؤ اور طارق کي طرح راہ عمل اپناؤ دين ودنيا تمہاری ھے- ليکن يہاں اس کا مطلب خدانخواستہ حسن بن صباح اور طالبان والی راہ اپنانے سے نہيں کيوں کے ميرےنزديک اسپين ميں مسلمانوں کی دينی دنيا وی ترقی کی وجہ ان کا سيکولرازم اور سيکھنے کی امنگ تھی اس دور ميں نہ صرف حقيقي علماء نے اجتہاد کو فروغ ديا بلکہ حکمرانو ں نے دوسری تہزيبوں کی معاون علم کتابيں اپنی زبان ميں ترجمہ کروائيں اور علم کے ذريعہ فاتح عالم ٹھہرے - بات کہيں سے کہيں ھوگئی مراکش ميں آپ سے بے نظير کی تعزيت دراصل ان لوگوں کي بھی باقی مسلمانوں کی طرح امہ کے حال پراظہار تاسف اور بے بسی ھے - ہميں جہاں بھی کوئی اميد کی کرن خواہ وہ کسي رنگ ميں ھو کتني ہي چھوٹي يا جھوٹی ہی کيوں نہ ھو ھم اس کے سہارے زندگی کی ڈور کھينچنے کے عادی ھوچکے ھيں - دعا ھے کہ کاش ھم لوگ اپنی خو بدل سکيں اور ايسا ضرور ھوگا مگر تب ہی ھوگا جب مسلمان خواب غفلت سے جاگيں گے

  • 9. 21:59 2008-05-09 ,خاور کھوکھر :

    پاکستان ضرور آذاد هو گا ـ
    لیکن لکھاریوں کو هی عام لوگوں کو یه بتانا پڑے گا که پاکستان کو غلام کس نے بنایا هوا ہے ـ
    جب هم نے پاکستان کو پڑی زنجیروں کا احساس کر کے محفلوں میں کهنا شروع کیا تها تو لوگ بهالے مذاق آڑایا کرتے تھے ـ
    لیکن اب کچھ لوگوں کو احساس هونا شروع هوا ہے
    لیکن بہت کم کو یه معلوم ہے که پاکستان کو غلام کس نے بنایا هوا ہے ؟؟؟؟
    میاں محمد بخش صاحب نے فرمایا تھا

    خاصاں دی گل عاماں اگے تے نهیں مناسب کرنی ـ

  • 10. 17:03 2008-05-10 , Wazir Aslam Khattak , UAE :

    آداب ! اسد صاحب اہل مراکش نے شايد سوچ سمجھ کر ہی ہماری آزادی کی خواہش کا اظہار کيا - کيونکہ ہماری پاليسيوں اور ہماری داخلہ صورت حال سے محسوس ہی نہيں ہوتا کہ ہم ايک آزاد ملک کے آزاد شہری ہيں - روز اول سے ہی ہماری خارجہ پاليسی کہيں اور ترتيب پاتی ہے يہی وجہ ہے کہ نہ صرف ہمارے اکابرين بلکہ ملک اور ملک سے باہر يکساں طور پر مقبول ہمارے سياسی رہنماء وجہ بے وجہ غير طبعی موت مارے جاتے رہے ہيں- ہماری داخلی صورتحال يہ ہے کہ ہر صوبہ ، ہر ضلع اور ہر ايجنسی سٹيٹ در سٹيٹ کا منظر پيش کر رہا ہے - ہماری مذہبی نا ہم آہنگی کا يہ عالم ہے کہ بيک وقت کئی محمد بن قاسم و محمود غزنوی ہمارے ايک دوسرے کی بتوں کو پاش پاش کرنا چاہتے ہيں ، کئی صلاح الدين بيت المقدس (پاکستان) کو کفر سے آزاد اور کچھ طارق بن زياد تو اس سے بھی آگے تورہ بورا کو ہی فتح کرنے کا عزم رکھتے ہيں - اس تمام صورت احوال سے تاثر تو يہی ملتا ہے کہ ہم غلام نہيں تو يرغمال ضرور ہيں اور اہل مراکش نے بجا طور پر ہماری آزادی کی خواہش کا اظہار کيا ہے - مخلص

  • 11. 7:05 2008-05-11 ,محمد علی مہر :

    فلاڈيلفيا ميں يونيورسٹی آف پنسلوانيہ کے علائقہ ميں واقع ايک کنوينينس اسٹور کے کيش رجسٹر پر کھڑے شخص نے گاہک سے اس کی قوميت دريافت کي - پاکستانی بتانے پردکاندار نے طالب علم کی طلب کردہ ايک ڈبل روٹی اُس کے ہاتھ ميں تھمائی اور کہا - ”يہ تمارے لیے” -
    پھر ايک اور ڈبل روٹی اس کے حوالے کی اورسينے پر ہاتھ رکھ کر کہا - ”يہ علی بوتو کے لیے”
    اور دونوں ڈبل روٹيوں کے پیسے لينے سے انکار کرديا-

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔