| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ہوائيں چوری ہوگئيں

پہلی بار جب میں امریکہ آیا تو شکاگو میں دیوان ایوینیو پر ایک کبین کا نام 'گھر کی یاد' دیکھ کر بڑا بھلا لگا تھا۔ 'گھر کیblo_ghulamfarid152.jpg یاد' کالنگ کارڈز کی چھوٹی سی دکان تھی جہاں اپنے اپنے گھروں اور دیسوں کو فون کرنے کیلیے پاکستانی و ہندوستانی لوگوں کا رش رہتا تھا۔ ایسی بہت سی دکانیں نیویارک کے دیسی علاقوں میں بھی ہیں۔


تارکِ وطن دنیا میں روٹی، کپڑے مکان کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ اپنے پیسے خرچ کرتا ہے وہ کالنگ کارڈ ہی ہوتا ہے۔ 'سِک (ٹیلیفون کی) تاروں میں اٹک جاتی ہے' ایک خاتون اپنے گھر فون کرنے پر ہمیشہ کالنگ کارڈ ختم ہو جانے پر کہتی تھی۔ سندھی، سرائیکی اور غالبًا پنجابی کے اس اتنے سے لفظ 'سِک' کا شاید ہی کوئی اردو میں نعم البدل ہو۔ نہیں، سرائیکی میں 'تانگھاں' اور شاید ہی خواجہ غلام فرید سے زیادہ 'تانگھاں' کا کسی شاعر نے اتنا خوبصورت استعمال کیا ہو:
'
ہر ویلے تانگھاں یار دیاں تے میں رو رو کانگ اڈاواں
قاصد بھیجاں اتے فالاں پاواں، میڈا تھی گیا حال بیماراں
غلام فریدا میں تاں ایویں روواں، جیویں وچھڑی کونج قطاراں'

یہ غلام فرید کے دوہڑوں یا اسکی روہی پر اترتی کونجوں جیسے لوگ کالنگ کارڈوں میں پھنس گئے۔

شکاگو اور پھر کیلیفورنیا سمیت بہت سی ریاستوں میں پانچ ڈالر میں پچاس منٹ اور نیویارک میں صرف دو ڈالر میں اسی منٹ کے کارڈ ملتے تھے۔ اب اچانک ان کارڈوں کے کالنگ ٹائم بمشکل تیس منٹ کردیئے گئے ہیں۔ اب پاکستانی تارکین وطن اور ان کو کالنگ کارڈ بیچنے والوں کے درمیاں بحث و تکرار۔ کال ٹائم ٹرمینیٹ کیا ہوا کوئی کہتا ہے 'کالنگ کارڈ کی کمپنیوں نے کسی زردرای کو زوردار کمیشن دیا ہے' تو کوئی کوئی کہتا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی کالز پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ لوگوں اور دریاؤں کے منہ کوں روک سکا ہے بھلا!

کوئی کہتا ہے کہ لوگوں نے شہر شہر اپنے گیٹ وے کھول لیے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو، مجھے جیکسن ہائٹس کے فوٹ پاتھ پر کوئی بتا رہا تھا 'انہوں نے ہوائیں چوری کرلی ہیں'۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:25 2008-05-10 ,رضوان :

    بہت ظلم کیا پاکستانی حکومت نے، اس کا مطلب ہے مجھے اپنی بیمار ماں کو کال کرنے سے پہلے سوچنا پڑے گا۔ پاکستانی لفظ گالی بن چکا ہے۔ اب پاکستانی ہونے کا مطلب ہے دنیا میں جہاں بھی ہوں، تکلیف اٹھانا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ہمسایہ مملک میں کال کے ریٹ پاکستان کے ریٹ سے نصف سے بھی کم ہیں۔

  • 2. 17:34 2008-05-10 , Wazir Aslam Khattak , UAE :

    آداب ! ہو نہ ہو يہ بھی ہماری حکومت کی زرمبادلہ کے دخائر بڑھانے کی انوکھي سکيم لگتی ہے کيونکہ نيٹ ٹو فون کالز کی سہولت مہيا کرنے والی اکثر کمپنيوں نے صرف پاکستان کے لۓ ہی ريٹ دگنے سے بھی زيادہ بڑھا لۓ ہيں جبکہ بھارت ، سری لنکا اور بنگلہ ديش کے لۓ نرخ بدستور وہی ہيں - پاکستانيوں کيلۓ تو اب يہ کالنگ کارڈ نہيں بائلنگ کارڈ بن گۓ ہيں - ملک سے ناطہ تڑوانے والوں نے شايد رشتہ داروں سے بھی ناطہ توڑوانے کی سازش کی ہے۔ مخلص

  • 3. 18:36 2008-05-10 ,jameel khan :

    حسن صاحب کے طرف سے ايک مرتبہ پھر ايک تھرڈ کلاس کالم

  • 4. 20:00 2008-05-10 ,عمران خالد :

    حسن صاحب آپ نے انتہائی گرما گرم موضوع پر بالکل ٹھیک لکھا ہے۔ یہاں جرمنی میں پہلے پانچ یورو کے کارڈ میں تقریباً دو سو منٹ بات ہوجاتی تھی مگر پچھلے ہفتے سے انہوں نے اس کا وقت صرف نوے منٹ کردیا ہے۔

  • 5. 20:22 2008-05-10 ,اے رضا :

    ہوائيں واقعی چوری ہونے لگی ہيں ، حسن مجتبٰی صاحب - خليجي عرب رياست ابوظبي ميں مئی کا مہينہ ہميشہ خشک چلا آيا ہے - چند دن قبل علي الصبح گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی تو محکمہ موسميات سميت ہر کوئی حيران تھا - اگلے روز مقامي اخبارات تفصيلات سے بھرے پڑے تھے کہ يہ ايک مقامي شہزادے کا کمال تھا - موصوف غيرملکی ماہرين کی ايک ٹيم کے ساتھ گزشتہ چھ برس سے تحقيقی کام ميں مصروف تھے - زرکثير صرف کرکے رياست کی آب و ہوا اور بادلوں کی نوعيت پر اعداد و شمار جمع کۓ گۓ - پھر ايک صبح ہوائی جہازوں کے ذريعے بادلوں پر کيمياوی اجزا چھڑک کر بادلوں کی نمی کو بارش ميں بدل ديا گيا - بارش کی مقدار اور دورانيہ توقع کے عين مطابق تھا - تجربے کی کاميابی پر سب مسرور ہوۓ کہ صحرا کي پياس بجھا پائيں گے - زير زمين پانی کی سطح کو کنٹرول کيا جاۓ گا - يہ کسي نے نہ بتايا کہ يہ بادل جہاں جا کر برستے چلے آ رہے ہيں ان علاقوں کا کيا ہوگا ؟

  • 6. 21:55 2008-05-10 ,خاور کھوکھر :

    زندہ باد آپ بڑی بات کہـ گئے، لوگوں سے کیسے کیسے ’ہینڈ‘ ہو جاتے ہیں؟ آپ نے ہواؤں کی چوری کی نشاندہی کی ہے، یہاں تو چرالی گئی چیزوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مگر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ میاں محمد بخش نے فرمایا تھا:
    ’لِسّے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا‘
    آپ بھی پاکستان سے بھاگے ہوئے لِسًے ہیں اور میں بھی اور اپنی اپنی تحریروں میں روتے ہوئے بھی۔۔۔

  • 7. 23:59 2008-05-10 ,محمد عثمان :

    یہ مسئلہ صرف امریکہ ہی میں نہیں بلکہ یہاں یوروپ اور فرانس میں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔

  • 8. 5:54 2008-05-11 ,رضوان عباس :

    سعودیہ میں اللہ اللہ کرکے کالنگ ریٹ کم ہوئے تھے کہ کچھ کالنگ کارڈز پر اچانک ریٹ بڑھ جانے سے ہمارے اپنے گھروں سے فاصلے بڑھ گئے۔

  • 9. 7:33 2008-05-11 ,خالد :

    تیسرا مصرع یوں ہے ویسے نہیں جیسے آپ نے درج کیا: ’یار باہجوں ساڈا جیون کوڑ اے اتے اندروں درد ہزاراں‘

  • 10. 9:45 2008-05-11 ,ظفر حسین :

    پتہ نہیں پاکستانی حکومت کن کن چیزوں پر ٹیکس لگائے گی۔ میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں اورسالانہ پاکستان کے حساب سے لاکھوں کا ٹیکس ادا کرتا ہوں لیکن آسٹریلین حکومت پھر بھی یہاں ٹیکس کم کرکے اپنا حق نبھاتی ہے جبکہ پاکستانی حکومت سارا پیسہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیتی ہے۔

  • 11. 16:39 2008-05-11 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي!آپ اس لحاظ سے خوش قسمت ہيں کہ وہاں اگر وقت ميں کٹوتی کی جائے تو اخلاقی قدروں کا پاس کرتے ہوئے صارفين کو مطلع کيا جاتا ہوگا جبکہ وطن عزيز ميں بدقسمتی سے ايسا نہيں ہوتا بلکہ ناچ گانے پر مبنی اشتہارات کے ذريعے مخفی چارجز کی مد ميں بڑے دھڑلے سے لوٹا جارہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہيں۔اپنی نجکاری کے بعد پی ٹی سی ايل نت نئے پيکجز صارفين پر مسلط کرکے انکو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ ميرے خيال ميں يہ بين الاقوامی کمپنيوں کی يکساں حکمت عملی ہے کہ صارفين کی جيبوں پر کيسے ڈاکہ ڈالا جائے اور اپنی آمدنی بڑھائی جائے

  • 12. 10:41 2008-05-12 ,sana khan :

    يہ سارے پی ٹی سی ايل کے کمالات ہیں۔ مانا کہ پنجابی انٹرنيشنل زبان بن چکی ہے، اس کا يہ مطلب تو نہیں کہ سب کو آتی ہوگی اور يہ تو بی بی سی اردو ہے اسی لیے اردو لکھا کريں اور اب تو آپ لوگ ترجمہ بھی پڑھنے والے پر ہی چھوڑ ديتے ہیں! مہربانی کر کے ترجمہ ساتھ لکھ ديا کريں۔

  • 13. 10:53 2008-05-12 ,عامر :

    کوريا میں چارگنا بڑھ گئے ہیں ريٹس۔

  • 14. 18:18 2008-05-12 ,عمرخان :

    تمام پاکستانی حکومتوں کا ايک ہی مشن ہے کہ پاکستاني جہاں بھی ہو اس کو سکھ کی سانس نہ آنے دو۔ جس طرح بھی ممکن ہو ان سے پيسے اينٹھو۔ واہ پاکستان کی حکومتو تمہارا جواب نہیں۔

  • 15. 8:37 2008-05-13 ,دانی :

    جميل صاحب اپنا پيٹ بھرا ہو تو کسی کی بھوک کا انداذہ نہیں ہوتا۔ يہ بلاگ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کا احساس ان لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جو گھر سے دور ہیں اور حکمرانوں کی غلطيوں کا خميازہ بھگت رہے ہیں۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔