لاچار تفتیشی
کانگو کے پیٹرک لوممبا کے بارے میں شبہہ ہے کہ انہیں سی آئی اے نے مروایا تھا لیکن کانگو کی کسی حکومت نے قاتل کے تعین کے لیے اقوامِ متحدہ کو زحمت نہیں دی۔
یہ شبہہ ظاہر کیا گیا کہ کینیڈی کے قتل میں سوویت یونین یا کیوبا کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے لیکن صدر لنڈن بی جانسن کو کسی نے مشورہ نہیں دیا کہ اقوامِ متحدہ کو اس معاملے میں ملوث کیا جائے۔
شاہ فیصل کا قتل اگرچہ انہی کے بھتیجے کے ہاتھوں ہوا لیکن شبہہ ظاہر کیا گیا کہ امریکیوں نے انیس سو تہتر میں تیل کی پیداوار روک دینے کے جرم میں فیصل کو راستے سے ہٹوایا۔ فیصل کے کسی بھائی کو خیال نہیں آیا کہ اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا جائے۔
چلی کے بائیں بازو کے صدر سلواڈور آلاندے کو جنرل پنوشے نے قتل کیا تھا یا سی آئی اے ان کی قاتل تھی۔ چلی میں بحالی جمہوریت کے باوجود کسی انتظامیہ نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔
ضیا الحق کے ساتھ امریکی سفیر اور امریکی بریگیڈیئر بھی مارے گئے لیکن نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان نے اقوامِ متحدہ کو یہ معمہ حل کرنے کی زحمت دی۔
راجیو گاندھی کو ایک سری لنکن خودکش تامل عورت نے مارا لیکن اس قتل کے بین الاقوامی کنکشن واضح ہونے کے باوجود دونوں میں سے کسی ملک کی حکومت نے اقوامِ متحدہ سے رجوع نہیں کیا۔
لبنان کے سابق صدر رفیق حریری کے قتل کے پیچھے شامی سیکرٹ سروس کے ملوث ہونے کے شبہے میں اقوامِ متحدہ نے جو تحقیقات کیں انکے حتمی نتائج میں کسی قاتل کا نام نہیں ہے صرف ایک مبہم تجزیہ کیا گیا ہے۔
کیا سبب ہے کہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اپنے رہنماؤں کے قتل بےنقاب کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ سے اس طرح رجوع نہیں کرتے جس طرح لبنان اور اب پاکستان نے رجوع کیا ہے۔
شاید اس لئے کہ جو تنظیم اتنی لاچار ہو کہ اپنے پہلے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہمیرشولڈ کی ایک پراسرار ہوائی حادثے میں موت کا معمہ نہ حل کرپائی، جو کموچیا اور روانڈا میں نسل کشی کے ذمہ داروں اور بوسنیا میں ٹی وی کیمرے کے سامنے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے والوں پر ہاتھ نہ ڈال سکی، وہ ایک ایسی شخصیت کے قاتلوں کا تعین کیسے کر پائے گی جس کے خون کے چھینٹے دو گھنٹے کے اندر اندر اسی ملک کی فائر بریگیڈ نے دھو ڈالے جو اب تحقیقات کے لیے درخواست گزار ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھئی بہت خوب وسعت خاں، اس پہیلی کا نام ھونا چاھيے ’بوجھو تو جانيں‘۔۔۔ !
جہاں تک میں سمجھا ہوں آصف زرادری نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بےنظیر قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروائے گا، شاید اسی وعدے کو پورا کرنے کا خیال ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ بےنظیر کے قتل میں اگر زرداری ملوث نہیں تو اب لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہہ کر اسے بھی شریک جرم کر لیا ہے کہ بےنظیر بھٹو کو وسیع تر قومی مفاد میں مارا گیا ہے۔ کیا فائدہ ایسی حکومت کا کہ رستہ دکھائی دیتے ہوئے بھی اسے مصلحتوں کی رکاوٹ نظر آ رہی ہے۔ اور تو اور اسفند یار ولی نے بھی زرداری کی پیروی کر لی ہے، خود اس نے اسلام آباد میں کہا تھا کہ بے غیرتی اور مصلحت میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے، وہ فرق نواز شریف کو تو سمجھ آگیا لیکن خود اسفند یار کو شاید دکھائی نہیں دے رہا۔
سلام مسنون! وسعت اللہ خان صاحب اوپر آپ نے جو کچھ فرمايا اپنی جگہ بجا و درست، يقيں اب بھی بہت کم لوگوں کو بلکہ شايد ہی کسی کو ہوگا کہ قتل ميں ملوث خفيہ ہاتھوں کو ہتھکڑياں لگانا ممکن ہے۔ مگر وہ کيا ہے کہ برسوں سے ہمارے ہاں سياسی قتل ہوتے رہے ہيں اور ان کے قتل ہميشہ کيلیے ايک معمہ ہی رہ جاتے ہيں۔ مقتول کسی کے نزديک شہادت کا رتبہ پاليتا ہے تو کسی کے نزديک ’انجام سے دوچار‘ ہو جاتا ہے اور اسی کی بنياد پر ہماری ناکام سياست چمکائی جاتی رہی ہے۔ شايد کسی طرح اس فيصلہ سے روايتی سياست سے چھٹکارا حاصل ہو۔ ويسے بھي انصاف کا تقاضہ يہي ہے کہ متاثرين انصاف فراہم کرنے پر مامور لوگوں کی غيرجانبداری کے حوالہ سے مطمئن ہوں۔
یہ سب کچھ اپنے آقاؤں کی ایما پر جواز پیش کرنے کے لے کیا جا رہا ہے تاکہ وہ یہ پراپیگنڈہ کرسکیں کہ جو ملک اپنی فوج کے جنرل ہيڈکوارٹرز کے سامنے ایک قتل کی تحقیقات نہیں کر سکتا وہ نیوکلیئر ہتھیار رکھنے کے قابل کیونکر ہو سکتا ہے۔ زرداری نے بڑی چال کے ساتھ شروع میں لوگوں کو جمہوریت کا تاثر دیا مگر بہت جلد ہی وہی راہ اپنائی جو یہاں کی نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اس کا فیصلہ اب عوام آئندہ سالوں میں کراچی والے ڈاکوؤں (جو کہ نہیں ہونے چاہے تھا مگر افسوس کہ ساٹھ سال کی مایوسیوں کے بعد یہی ہونا تھا) کی طرح سڑکوں، گلیوں میں کریں گے اور چن چن کر کریں گے۔
شايد بی بی کی روح کو خوش کرنا ہو کہ مرے تھے جن کے لیے وہ ايسے بيوفا نہيں تھے۔ يا شايد پيپلز پارٹی پاکستانی عدالتی نظام اور حساس معلومات تک بين الاقوامی رسائی اور مداخلت کا دروازہ کھولنا چاہتی ہو۔ آپ کو کچھ کچھ معلوم تو ہوگا؟
سب اچھا ہی ہوگا۔ ابھی فيصلہ ہوا يو اين سے تفشيش کروانے کا اور آپ نے ہسٹری ڈھونڈ نکالی ساری۔ واہ ايک تو چھوٹی چھوٹی پريشانياں زندگی ميں اوپر سے بلاگ آج کل ايسے ويسے۔۔۔ آخری بار کب ہنسے تھے ٹينشن فري؟ اس پر بلاگ لکھيں۔
بڑے بھیا، بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ میرے خیال میں تحقیقات کرنے سے قاتلوں کا پتہ لگانا بڑا مشکل لگتا ہے۔ بس لگتا ہے بی بی کا خون ناحق رائیگاں جانے کا خطرہ ہے۔
کيا واقعی آپ بھی يہ محسوس کر رہے ہيں کہ پيپلز پارٹی اقوام متحدہ سے تحقيقات کروانے ميں سنجيدہ ہے اور يہ مطالبہ کسی کو دباؤ ميں لانے کے ليے نہيں کيا جا رہا؟ پيپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بقول اقوام متحدہ سے تحقيقات کروانے کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ اس سانحے ميں ايسے حلقے بھی ملوث ہو سکتے ہيں جن کے خلاف خود پی پی کی حکومت تحقيقات نہ کر سکے گی۔ تو جناب من ’ايسے‘ حلقے پی پی کو اقوام متحدہ ميں درخواست پيش کرنے کی اجازت دے دينگے؟ جب ہی تو اب تک صرف اعلانات سے کام چلايا جا رہا ہے، کيا اس کے ليے بھی کوئی آئينی پيکيج آئيگا۔ آصف علی زرداری جانتے ہيں کہ انہيں اپنے ليے کھينچی جانے والی لکير سے کتنے فاصلے پر رہنا ہے اور يقينا وہ اپنی حدود سے تجاوز نہيں کرينگے۔ يہ فقط ايک بڑھک ہے جس کے ذريعے چند فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہرحال ايک مہينہ گزرتے بھی وقت نہيں لگتا ديکھ ليتے ہيں کون ہوتا ہے حريف مئے مرد افگنِ عشق
ہے مقرر لبے ساقی پہ صلاح ايک ماہ بعد
جب آپ کو يہ يقين ہو کہ وہ ملکی ادارے جنہيں تفتيش کرنی ہے، وہ خود ذمہ دار ہيں تو کيا کيا جائے۔ آصف جانتے ہيں کہ مشرف سے لڑائی بڑھی تو مرتضی کی طرح بےنظير کا قتل بھی ان کے ذمہ ڈالا جائے گا، اس ليے ہی وہ باہر ديکھ رہے ہيں۔ -
بندہ آپ سے سو فيصد اتفاق کرتا ہے۔ ۔ اقوام متحدہ کے پاس ايسی کون سی گدڑ سنگھی يا شرلاک ھو مز ہے جو سراغ لگانے ميں کا مياب ہو سکے۔
الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی سے جو امیدیں تھیں، اب ختم ہوئیں۔ یہ بھی مداری کا تماشا نکلا۔