| بلاگز | اگلا بلاگ >>

آگ کا دریا

اصناف: ,

حسن مجتییٰ | 2008-05-19 ،13:37

blo_hasan_fire_150.jpgہر طرف ایک آگ ہے جس میں پاکستان ایک شمشان بھومی کی طرح جل رہا ہے۔ آگ نفرت کی، آمریت کی، مذہبی تنگ نظری کی، سیاست کی، ظلم زبردستی کی، ریاستی و غیر ریاستی دہسشتگردی کی، مذہبی و لسانی تنگ نظری کی، بدامنی کی، انسان ہے کہ سوکھی لکڑی کی طرح اس آگ میں جل رہا ہے۔۔۔

کچھ دن قبل جس طرح میرپور خاص کے معصوم ہندو لڑکے جگدیش کمار کو قاتلوں کے ایک انبوہ نے توہین رسالت کی جھوٹی آڑ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ بالکل اسی طرح جسیے صدیوں پہلے یورپ میں 'ماب لینچنگ' کی جاتی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کوئی بھی ہندو یا اقلیت کا آدمی پاکستان میں مسلمانوں کی کسی بھی محترم ترین شخصیت کی شان میں گستاخی کر سکتا ہے۔۔

اصل بات یہ تھی کہ اس محنت کش لڑکے کی دوستی کسی ساتھی مسلمان لڑکی سے تھی جو فیکٹری کے مینیجر کو پسند نہیں تھی، اور اس نے جگدیش کے ساتھی مزدوروں کو اس کی جان لینے پر اکسایا۔

اس کے کچھ دنوں بعد کراچي ميں وکیلوں کے چیمبر میں چھ وکیلوں کو زندہ جلا دیا۔

ڈیرہ بگٹی میں اسی گزشتہ ہفتے 'قانون نافذ کرنے والوں' نے بگٹی قبائل کے لوگوں کو زندہ جلا ڈالا۔ مقتولین کی جیبوں سے گولیاں نہیں سوکھی روٹی کے ٹکڑے برآمد ہوئے تھے۔

اور اسی شہر کراچي میں جناح کے مزار کے تھوڑے سے فاصلے پر قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دکانداروں نے تین مبینہ ڈاکوؤں کو زندہ جلا ڈالا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز ان لکڑی کی طرح تڑخ تڑخ آوازوں سے جلنے والوں کی تصاویر نکالتے رہے۔

ہالا میں ایک کالج کے چوکیدار نے تین بچيوں کو اپنے سمیت باندھ کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔

جو جلائے جانے سے بچ گئے وہ خود کو آگ لگا رہے ہیں۔ احتجاجاً خود کو آگ لگانے کے اعلانات کرتے پھرتے ہیں۔

نئی نویلی حکومت ہے کہ ایوان صدر کا ڈاک خانہ بنی ہوئي ہے۔ لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتی پھرتی ہے۔

کشور حیسن شاد باد کب کی 'پاگلستان' بن بھی چکی۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:35 2008-05-19 ,نجيب الرحمان سائکو :

    ’او دنيا کے رکھوالے، سُن درد بھرے ميرے نالے
    آش نراش کے دو رنگوں سے، دنيا تونے بنائی
    نيا سنگ طوفان بنايا، ملن کے ساتھ جدائی
    آگ بنی ساون کی برکھا، پھول بنے انگارے
    ناگن بن گئی رات سہاني، پتھر بن گئے تارے
    جيون اپنا واپس لے لے، جيون دينے والے،
    چاند کو ڈھونڈے پاگل سورج، شام کو ڈھونڈے سويرا
    قسمت پھوٹي آس نہ ٹوٹي، پاؤں ميں پڑ گئے چھالے
    محل اداس اور گلياں سُوني، چُپ چُپ ہيں ديواريں
    دل کيا اجڑا دنيا اجڑي، روٹھ گئی ہیں بہاريں
    مندر گرتا پھر بن جاتا، دل کو کون سنبھالے
    او دنيا کے رکھوالے۔۔۔‘

  • 2. 15:26 2008-05-19 ,نجيب الرحمان سائکو :

    'گھڑيا پار لنگھا دے وے مِنتاں تيرياں کردي ---'

  • 3. 15:37 2008-05-19 ,امتياز اعوان جاپان :

    محترم حسن صاحب بہت دنوں سے بلاگ کا انتظار تھا کہ کوئی اچھا بلاگ پڑھنے کو ملےگا مگر ايک دفعہ پھر بلاگ پڑھ کر دل خون کے انسو رو رہا ہے، آپ کی سچائی سن کر۔۔! پاکستان میں اب انسان کی قدر پانی سے بھي انتہائی کم رہ گئی ہے۔ یااللہ ديکھ ہمارا ملک پاکستان برباد ہوتا جا رہا ہے۔ يااللہ تو ہی اس کی حفاظت کرنا۔ يااللہ تيرے خزانے میں کسی چيز کی کمی نہیں ہے! يااللہ پاکستان کو ايک خوشحال ملک بنا دے۔۔۔ آمین۔ طالبِ دعا!

  • 4. 16:08 2008-05-19 ,اسماء پيرس فرانس :

    ابھی تو اس دن سٹاک مارکيٹ ميں لاکھوں ڈوبنے کي وجہ سے ميں بھی خود کو مار ڈالنے کا سوچ رہی تھی مگر فرانس ميں ميرے پاس مناسب آلہ خودکشی يعنی پستول نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔۔ جبکہ ديگرطريقوں مثلا جلانے، بلڈنگ سے چھلانگ لگانے، ميٹرو کے نيچے آنے کا سوچ کر ہی مجھے خوف آ جاتا ہے۔ لہذا ارادہ ملتوی کر ديا۔ اللہ کی رحمت کی اميد پر۔۔۔

  • 5. 17:55 2008-05-19 ,ارشدعلی :

    محترم حسن مجتبی صاحب کو اپنے اس چند سطری بلاگ ميں پورے پاکستان کی جامع تصوير پيش کرنے پر اور محترم نجيب سائکو صاحب کو اس بلاگ کو خوبصورت نغمہ غالباً محمد رفيع صاحب نے گايا تھا، ميں ڈھالنے پر بہت مبارکباد۔۔ مزہ آگيا۔

  • 6. 19:49 2008-05-19 ,Ishtiaq Ahmed :

    حسن صاحب آپ سے ایک ساشہ سا سوال ہے، کیا ایوان صدر میں کسی پی پی پی یا پی ایم ایل ن کے بندے کو بٹھانے سے پاکستان جنت بن جائے گا؟ ہاں یا نہیں میں جواب دیں تو اچھا ہوگا۔۔۔

  • 7. 19:55 2008-05-19 ,sana khan :

    ان سب باتوں کے باوجود اللہ پاکستان چلائے ہی جا رہا ہے۔ ہم لوگ صرف انسان پيدا ہوئے ہیں، بنے اب تک نہیں۔ کيا اب بھی ہم لوگ يہی کہیں گے کہ يہ سب امريکہ کروا رہا ہے؟ مجھے تو ڈپريشن کا دورہ پڑ گيا يہ بلاگ پڑھ کے۔۔۔ میں تو چلی دکھ پھونکنے۔۔۔

  • 8. 20:39 2008-05-19 ,اے رضا :

    درپيش صورتحال پر مقيم برطانيہ میں ميرے ايک ماہر نفسيات بھائی سمجھتے ہیں يہاں مکمل ناکامي کے بعد ہي ايک نيا نظام متعارف کيا جا سکتا ہے۔ ٹيڑھي بنيادوں پر کھڑي ايک ديوار کي طرح جسے گرائے بغير درست کرنا ممکن نہيں ہوتا۔ نظام کي مکمل تباہي کے ممکنہ نتائج کے خوف سے ميں عرض کرتا ہوں کيوں نہ دستياب سياسی عمل ہي چلنے ديا جائے؟ وقت کے ساتھ بہتر لوگ آن ملیں گے تو سدھار نظر آنے لگے گا۔ عرصہ دراز بعد کھولے گئے پاني کے نل کي طرح جس سے زنگ آلود مائع کے بعد بالآخر صاف و شفاف پاني آنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جواب نہيں ديتے اور سلسلہ کلام رک جاتا ہے۔۔۔

  • 9. 22:33 2008-05-19 ,جانگڈا جانگڈا :

    ہاں الاؤ اسی طرح سلگتا ہے حسن صاحب! اول پتلی پتلی اور چھوٹی چھوٹی لکڑيوں کو جلا کر آگ سلگائی جاتی ہے، پھر اس آگ میں بڑی بڑی لکڑيوں کو ڈالا جاتا ہے، حتی کہ الاؤ اتنا بھڑک اٹھتا ہے کہ بڑے بڑے شہتير اس کا ايندھن بن جاتے ہیں۔ ساٹھ سالوں سے چھوٹی لکڑياں، چھوٹے لوگ جل جل کر اس الاؤ کو روشن کر رہے ہیں، اب بڑی اور موٹی لکڑيوں کی باری آيا چاہتی ہے۔ اب تڑپنے والوں نے سوچ ليا ہے کہ جان جو دينی ہی ہے تو ان کی جان لے کر دو جنہوں نے ہماری جانوں کو اپنی ملک سمجھا ہوا ہے۔ اگر جاں سے گزرنا ہی مقدر ٹھہرا تو انہیں بھی اس الاؤ میں دھکيل دو جنہوں نے زيست محال کر رکھی ہے۔ اگر بھوک سے ہی مرنا ہے تو اس کے حلق سے گزرنے والا ہوا کا راستہ بھی بند کر دو جس کے سبب بھوک مٹانے کے وسائل ہم سے چھن گئے۔ تہذيب کے ارتقا میں تطہير کے عمل کا يہ مرحلہ ضرور آتا ہے اور جب تک پاک سازی نہ ہوگی، جھاڑ جھنکار سے نجات نہ ملے گی يہ کشور، کشور حسين بنے گی نہ شاد باد ہوگی۔ کم آن پاکستان!

  • 10. 11:23 2008-05-20 ,وحيد :

    جناب حسن صاحب! آپ نےاوپر جتنے بھی اضطرابات اور ان کے نتيجے ميں جنم لينے والی تلخ حقيقتوں کا احاطہ کيا ہے، يہ تصوير کا ايک رخ ہے۔ دوسري طرف معاشروں میں دولت اور اس کے نتيجے میں طاقت کا فقط چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جانا ايک ايٹم بم ہے۔ ايک ايسا بم جو اگر سب کچھ نہیں تو اتنا تو لے اڑےگا کہ دنيا ايک اور ’آدم‘ کا انتظار ہی کر سکے گی۔۔۔ وہ بھی اگر خوش قسمتی ہوئی۔

  • 11. 12:46 2008-05-20 ,mfaraz :

    گلی گلی میں بندی خانے، چوک چوک میں مقتل ہیں
    جلاوں سے بھی بڑھ چڑھ کر منصف، وحشی پاگل ہیں
    قاتل اور درباری اس کے اپنی ہٹ پر قائم ہیں
    ہم سب چور، لٹیرے، ڈاکو، ہم سب کے سب مجرم ہیں
    سارا شہر ہے مردہ خانہ، کون اس بھید کو جانے گا
    ہم سارے لاوارث لاشیں، کون ہمیں پہچانے گا

  • 12. 14:26 2008-05-20 ,A.Latif Khattak :

    ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ امریکیوں کی جگہ اپنے بھائیوں کو مار کر کہتے ہیں کہ امریکیوں سے بدلہ لے لیا۔ اس میں کون سی بات عقل کی ہے؟

  • 13. 15:56 2008-05-20 ,WAZIR ASLAM KHATTAK :

    حسن صاحب آداب! جو کچھ آج کل مملکت خداد پاکستان ميں ہو رہا ہے وہ برسوں سے جاری ہماری سياسي پرورش کا نتيجہ ہے جس کا برگ و بار اب واضح طور پر سامنے آرہا ہے۔ ہمارے لوگوں ميں قوت برداشت يکسر ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سکولوں، ہسپتالوں، مسجدوں اور مارکيٹوں کا غير محفوظ ہونا، لسانی و مذہبی، قبائلی و صوبائيت کے جھگڑے، خودکشياں، سوختہ لاشیں و راہ گيروں کے اڑتے چيتھڑے، سب کے سب اس سياست کے تخائف ہيں جو ہم برسوں سے کرتے آئے ہیں۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں۔ اگر ہم نے انصاف کے اصولوں پر قائم ايک روادار معاشرے کے لیے عملی و فوری نوعيت کے اقدامات نہيں کیے تو ’پاگلستاں‘ کی حالت اور خراب ہو جائے گی۔۔۔
    ’يہ زمیں پاک سر زمیں ہے مگر
    رقص ابليس کا ہے شام و سحر
    ہر طرف ہيں لہو لہو منظر
    اک قيامت کا شور ہےگھرگھر
    بے خطا لوگ روز مرتے ہيں
    دوستوں سے بھی لوگ ڈرتے ہيں

    ہر مکاں سے مکيں خائف ہے
    آسماں سے زميں خائف ہے
    اب گماں سے يقيں خائف ہے
    اہل دنيا سے ديں خائف ہے
    کس جگہ آدمی کا خون نہيں
    مسجدوں ميں بھی سکون نہيں

    ہے پريشان قوم کا ہر ايک فرد
    بغض نفرت کی ہر طرف ہے گرد
    خوف انجام سے ہيں چہرے زرد
    اور ملتا نہيں انہيں کوئی ہمدرد
    روشنی تيرگی بد اماں ہے
    زندگی خبر سے گريزاں ہے‘

  • 14. 17:14 2008-05-20 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! ہر طرف آگ وخون کا ابليسی رقص جاری ہے مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہيں۔ وفاقی مشير داخلہ رحمن ملک ہوں يا صوبائی وزير داخلہ ذوالفقار مرزا سميت ديگر ذمہ داران سب کے سب ان سنگين وارداتوں پر خاموش تماشائی کا سا کردار ادا کر رہے ہیں۔ صوبائی گورنر بھی کوئی اور ڈيوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ ايوان صدر کو ديگر مسائل سے فرصت نہیں کہ بھلے سے کوئی بھاڑ میں جلے۔ يہ سب کچھ منظم انداز میں عوام کی توجہ حقيقی مسائل سے ہٹائے جانے کی بھونڈی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ اس بات کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ ايک تنظيم اس طرح اپنے مخالفيں و منحرفين کا کام تمام کر رہی ہے اور ايک تير سے دو شکار بھي! بہرحال ايسی صورتحال کے لیے ہی چاچا غالب کہہ گئے ہیں
    ’جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گيا ہوگا
    کريدتے ہو جب اب راکھ جستجو کيا ہے؟!‘

  • 15. 11:33 2008-05-21 ,ساگرسنديلو :

    کب ٹھہرے گا درد دل
    کب رات بسر ہوگی
    سنتے تھے وہ آئےگا
    سنتے تھے سحر ہوگی

  • 16. 2:46 2008-05-22 ,جانگڈا جانگڈا :

    آپ کا کيا خيال ہے کہ يہ جلا دينے کا وقت نہيں ہے جب لوگ تبصرے کرنے کی جگہ فلموں کے گانے تحرير کر رہے ہيں لوگوں کو سمجھ ميں ہی نہيں آرہا کہ پڑھيں کيا اور لکھيں کيا۔

  • 17. 11:18 2008-05-26 ,شاكر زرين :

    جانگڈا بهيا كيا زبردست بات كى۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔