ممدو کا غصہ!
ممدو اور عنایت ایک ہی گاؤں سے تھے اور ایک ہی رجمنٹ میں سپاھی تھے۔
جب انکی رجمنٹ مصر میں جنرل رومیل کا انتظار کر رہی تھی تو عنایت کو ایک ماہ کی چھٹی مل گئی۔ عنایت گاؤں آیا اور ممدو کی ماں کو بتایا کہ ممدو خیریت سے ہے اور ہٹلر کی فوجوں سے بڑی بے جگری سے لڑ رہا ہے۔ ممدو کی ماں نے ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 'ایک تو ہٹلر بڑا ضدی ہے دوسری طرف میرا ممدو بھی غصے کا بہت تیز ہے۔ خدا خیر کرے!'
مجھے پرویز مشرف اور عدلیہ کی طبیعت سیٹ کرنے کے متمنی آصف زرداری کے مجوزہ آیینی پیکیج کو پڑھتے ہوئے جانے کیوں ممدو اور ہٹلر کا یہ قصہ یاد آگیا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت صاحب، اپنے قصہ میں ہٹلر کی بجائے نپولين بونا پارٹ کو گھير گھار کر لے آتے تو زيادہ بہتر تھا۔۔۔
ممدو کے غصے کو چھوڑيں يہ بتائیں کہ کيا يہ بلاگ لکھنے کا ’ کشٹ‘ آپ نے صرف زرداری کی اس تصوير کی تشہير کے لیے کيا تھا؟ اگر ايسا ہے تو پھر اس بلاگ کا عنوان ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ ہی مناسب تھا۔ ايويں ہی ممدو، اس کی ماں اور ہٹلر کو زحمت دی!
محترم وسعت صاحب! کيا خوب حسبِ حال پھبتی ہے! فرق صرف اتنا ہے کے ممدو کی ماں انتہائی معصوم تھی، جبکہ ہماری ’سياسی ماسياں‘ اور ’سياسی چاچے‘ پرلے درجے کے شاطر واقع ہوئے ہیں۔ يہ سب اپنے اپنے الگ منتر جاپ رہے ہیں۔ ديکھيں ہٹلر بھسم ہوتا ہے يا ممدو۔۔۔
وسعت صاحب کمال کر ديا! بہت اچھے!
ہٹلر کی ضد ہو يا ممدو کا غصہ، نقصان تو بيچاری ماں کا ہوا يا ہو گا۔۔
ميں حيران ہوں کہ آج کا ہٹلر کل کے کے ہٹلر سے عبرت کيوں نہیں پکڑتا۔ رہا ممدو تو اس کا کيا ہے۔ اس کے لیے کم از کم يہ زمين تو نہیں سمٹے گي۔
زرداری صاحب شریف خاندان کے ساتھ ’ڈبل گیم‘ کھیل رہے ہیں۔