پڑھنا لکھنا بند کرو
علم حاصل کرنے کے لیے اگر تمہیں چین بھی جانا پڑے تو جاؤ مگر فیصل آباد سے نکلو۔
یہی کیا فیصل آباد میں پنجاب میڈیکل کالج کے پرنسپل نے کہ احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے سارے طلبہ کو کالج سے اس لیے نکال دیا کہ ان میں سے کچھ پر شک تھا کہ وہ اپنے عقیدے کا پرچار کر رہے تھے۔
پہلے تو میڈیکل کالج یا کسی بھی کالج میں مذہب یا عقیدے کا پرچار کرنا ہی نہیں چاہیے اس کے لیے مساجد ہی کافی ہیں۔ دوسری طرف اگر اسلامی جمعیت طلبہ یا ختم نبوت والے یہ کر سکتے ہیں تو احمدیوں کے ایسا کرنے سے کونسا قانون ٹوٹ جاتا ہے۔ اور آخر میں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند افراد کے فعل (میں اسے جرم نہیں کہوں گا) کی سزا فرقے سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد کو دی جائے۔
جن طلبہ کو کالج سے نکالا گیا ہے ان میں سے پانچ فرسٹ ائر کے، چھ سیکنڈ ائر کے، سات تھرڈ ائر کے، ایک فورتھ ائر کا اور چار ففتھ ائر کے ہیں۔ کیا کسی کو اندازہ ہے میڈیکل کالج میں یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک طالب علم کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ میرے خیال میں کالج کے پرنسپل کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا۔ انہوں نے پاکستان کو تیئس ڈاکٹروں جن میں سے پندرہ خواتین ہیں، سے صرف اس لیے محروم کر دیا کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے عقیدے کا پرچار کیا۔
ڈاکٹر صاحب برائے مہربانی آپ کسی ڈاکٹر کو دکھائیں۔
کیا آپ کو علم ہے کہ پاکستان میں لوگ کسی طرح طبی امداد نہ ملنے سے دن رات مر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی دستیابی اور آبادی کی شرح کے متعلق آپ کچھ جانتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک ڈاکٹر کتنے معصوم لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ آپ پر دباؤ ہے مگر خدا کے لیے اس دباؤ کی سیاست کو خیر آباد کہیئے اور معصوم زندگیوں سے نہ کھیلیں۔
دوسرا انہوں نے کوئی قتل تو نہیں کیا اگر آپ کی بات سچ بھی مان لی جائے تو عقیدے کا پرچار ہی کیا ہے۔ اگر ہمارا ایمان اتنا مضبوط ہے تو یہ چند 'احمدی' طلبہ اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں اور اگر یہ بہت کچا ہے تو اس پھر بھی اسے ان 'احمدی' طلبہ کی ضرورت نہیں یہ خود ہی کافی ہے۔
اب اگر کوئی دنیا کے کسی بھی ملک میں نماز پڑھنے یا عقیدے کا پرچار کرنے سے مسلمانوں خصوصاً پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جائے یا ملک سے نکال دیا جائے تو ہمیں برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خود اسی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔
حاکمِ شہر بھی مجمع عام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
تیرِ الزام بھی سنگِ دشنام بھی
انکا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
فیض صاحب آپ کو کہاں کہاں یاد کریں۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ ایک بے وقوف رائٹر ہیں، اگر ملک کا قانون کسی فرقے کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کا پرچار کرے تو آپ کون ہوتے ہیں اس کی حمایت کرنے والے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں ملک کا صدر ہوں اور وہاں قانونی صدر پہلے ہی ایوانِ صدر میں موجود ہو تو لوگ پہلے والے کو پاگل ہی کہیں گے۔ غلام احمد کو پیغمبر کہنا بالکل پاگل پن ہے اور ان لوگوں کو میڈیکل کالج میں تربیت نہیں دینی چاہیئے بلکہ ان کے دماغ کا علاج کروانا چاہیئے۔
احمدی ڈاکٹروں پر حملہ ہے۔ کئی سالوں سے احمدی ڈاکٹروں کو قتل کیا جاریا ہے کیونکہ وہ اپنے علاقوں میں بہت مشہور ہیں۔ ملاؤں کے نعرے اکثر پبلک سروس اور سوشل سیکٹر میں کام کرنے والے احمدیوں کے خلاف ہوتے ہیں۔
جو لوگ علم سے دشمنی کرتے ہيں وہ دنيا کے سب سے بڑے دھشت گرد ہيں- ختم نبوت والے اس دھشت گردی ميں سرفہرست ہيں-
عارف صاحب آپکا يہ چوندا چوندا بلاگ 'علمي شدت پسندي' کا جيتا جاگتا ثبوت ہے- بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اس حساس موضوع پر قلم اٹھانے پر خاکسار کی طرف سے آپکو بہت بہت مبارکباد-
يہ تو حال ہے ہمارا تبھی اللہ کی طرف سے عذاب مسلمانوں کے زوال کی طرح آيا ہوا ہے۔ مجھے يہ سمجھ نہيں آتا کے احمديوں کو باہر نکال دينا، انکا بائکاٹ کرنا کس لۓ۔ اس سے بہتر ہوتا کے اچھے انسان ہونے کا مظاہرے کرتے تاکہ ان کے دلوں ميں بھی خلوص ہوتا۔ کاش ميڈيکل کالج کے پرنسپل يہی سوچ ليتے کے کوئی بھی تو مفت علاج نہيں کرتا چلو يہ بچے بڑے ہوکر ڈاکٹر بننے کے بعد مفت علاج ہی کرلينگے غريبوں کا۔ ليکن واقعی ہمارا علاج تو صرف ڈنڈوں سے ہوسکتا ہے ڈاکٹروں سے نہيں۔ سب سے پہلے تو جمعيت پر پابندی لگانی چاہيۓ جسکا مقصد ہی مسلمانوں کو شرمندہ کرنا ہے
احمديوں کو پڑھنے يا اپنے عقيدے کا پرچار کرنے سے روکنا اپنے عقيدے يا يقين کی کمزوری ہے حلانکہ احمدی عقيدے کے خيالات سے ميں سخت مخالفت رکھتا ہوں ليکن ان کو اس طرح روکنا اسلامی، اخلاقی اور خلافت کے اقدار کے بلکل منافی ہے۔ اسلام اسطرح نہيں پھیلا۔ ايک حديث مبارکہ ہے کہ تبليغ دوسرے کی اطلاع کے ليے اور آپ کی اصلاح کے ليے ہوتی ہے۔ اگر ايسے بھونڈے ہتھکنڈوں کی بجائے ہم اپنی اصلاح کريں اور ان کو اطلاع کريں تو اس طرح ہمارا اسلامی فرض بھی پورا ہوگا اور نفرت بھی نہيں پھيلے گی۔
عارف شميم بھائی آپ کے اس بلاگ کا ديکھيں تو کوئی جواب نہيں۔ حالانکہ جواب ہيں بھی کہ تعليم سے روکنا کوئی بہادری نہيں۔ باقی جو باتيں ہيں وہ آپ کے ہی بلاگ ميں موجُود ہے۔ ’اب کو ئی اگر دُنيا کے کسی بھی مُلک ميں نماز پڑھنے يا اپنے عقيدے کا پرچار کرنے سے خصُوصاً پاکستان سے تعلُق رکھنے والوں کو جيل ميں ڈال ديا جاۓ يا مُلک سے نکال ديا جاۓ تو‘ يہی وہ بات ہے اب آپ خُود لندن کے باسی ہيں مُسلمان ہونے کے باوجُود تعليم ، صحت اور باقی سب سہُولتيں مُلکی لوگوں کی طرح حاصل ہيں۔ ليکن ہمارے مُلک ميں بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب بہت مُشکل ہے۔ سو دست افشاں چلو،مست و رقصاں چلو خاک بر سر چلو،خُوں بداماں چلو۔ خير انديش شاہدہ اکرم
يۂ جو کچھ بھی ھوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جاے کم ھے- يۂ سراسر ظلم و ذيادتی ھے-ميں عارف صاحب کواس موضوع پر قلم اٹھانے پر خراج تحسين پيش کرتا ھوں- يہ جماعتيوں اور کالج پرنسپل کا اسلام ھے-ورنۂ اسلام سے اس کا کوی تعلق نھيں-
ہمیں رسول کا منکر قبول ہے، گستاخ رسول نہیں۔ پرنسپل نے وہی کیا جو ہمارا مذہب اور پاکستان کا قانون کہتا ہے۔ احمدی کوئی مذہب نہیں یہ ایک فتنہ ہے جو برطانوی لوگوں نے انڈیا میں صدیوں پہلے بویا تھا۔
بہت خوب ايک پرنسپل کے فعل کی سزا ساری دنيا کے نمازيوں کو دے ڈالی۔ کيا فرق رہ گيا آپ ميں اور پرنسپل ميں۔ پھر بھی آپ اپنے آپ کو روشن خيال اور پرنسپل کو تنگ نظر سمجھتے ہوں گے اور يہ جو آپ نے ڈاکٹروں کے بارے ميں قصيدہ گوئی کی ہے تو کاش آپ پاکستان کے کوئی غريب کسان ہوتے اور ايسے ميں آپ کا واسطہ ڈاکٹروں سے پڑا ہوتا اور آپ کو اپنے کسی عزيز کی ہسپتال ميں ڈاکٹروں کے ہاتھوں ضبط کی ہوئی لاش چھڑانے کے لیے اپنی بيوی کا واحد برائے نام زيور بيچنا پڑتا تو آپ کو پتا چلتا۔
بڑے شرم کی بات ہے - بحيثيت پاکستانی احمدی ہمارے بھائي بہن ہيں
آپ نے ایک ایسے موضوع پر لکھا جس پر سوچنے کو ہزاروں ہیں لیکن لکھنے کو کوئی نہیں ہے۔ شکریہ
اگر احمدی طلپہ کو نقص امن کی وجہ سے نکلا گيا ہے تو جميت کے طلپہ کو کيوں نہيں نکالا گيا
اسلام کسی کو تعليم سے نھي روکتا۔ ہم عاطف کے قاتل کو تو کچھ نہيں کہتے مگر ان باتوں ميں بہت بولتے ہیں۔ احمدی غير مسلم ہيں مگر ان کو تعليم کا حق ہے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ جب آپ نے مسلمان و کافر کا فيصلہ اپنے ہاتھ ميں لے ہی ليا ہے تو پھر سب جاِئزہے۔ مولانا مودودی تو پہلے ہی فرما چکے ہيں کہ ايک غير مسلم رياست کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جيسا چاہے سلوک کرے۔ مسلمان کو آخرت میں حوروغلمان ملنے ہي ہيں کسی کو مار کر يا ظلم و زيادتی کے باوجود بھی مل ہی جائيں گے۔ ویسے بھی کچھ عرصے کی بات ہے اپنے طالبان بھائی ادھر ہی آرہے ہیں۔
سلام مسنون !
بلاگ ميں لوگوں کی آراء پڑھ کر يہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہيں کہ پاکستانيوں کی اکثريت کھلے ذہن اور وسيع النظری کی حامل ہے مگر شايد کچھ لوگوں نے يا پھر روايات نے ان کی سوچوں اور کام کے انداز کو يرغمال بنا کر ان پر پہرے بيھٹا رکھے ہيں۔ انہيں قلمی جہاد اور اليکٹرانک ميڈيا کےکردار کے ذريعے حوصلہ ديکر آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ شکريہ
محترم شميم صاحب ! السلام عليکم
يہ بلاگ توآپ کا ھے اور اس ’پرآشوب‘ دور ميں اس جرات کے لیے بندہ آپ کو سلام پيش کرتا ھے۔ ساتھ ہی اگر ممکن ھو تو اس قدرے طويل ’بلاگي رسپانس‘ کو يہاں جگہ ديں تا اگر کچھ دردمند پاکستاني مسلمان اسے پڑھيں تو سوچيں من حيث القوم ھم کدھر جا رھےھيں اور پاکستان ميں پھيلي نفرت ، عدم برداشت اور متشدد رويوں کے بارے ميں شايد کچھ کر پائيں کہ وقت پاکستانيوں کے ہاتھ سے تيزي سے نکلا جاتا ھے۔
سمجھ نہيں آتا آج کا مسلمان خاص کر پاکستانی مسلمان کہاں جا رہا ھے۔ پہلے شيعہ سنی اعتقادات کی بنياد پر ايک دوسرے پر کفر کے فتوؤں سے بات شروع ھوئی جو پہلے زبانی کلامی اور جلوسوں ميں نعرے بازی تک رہي۔ پھر اس ميں مختلف شدت پسند ’لشکريوں‘ نے چھلانگ لگا کر معاملہ اپنے ھاتھ ميں لے ليا يعنی بجائے اپنےنيک اعمال سے مسلمانوں کی تعداد ميں اضافہ کرنے کے، بقول ابن انشاء ’دائرہ اسلام‘ سے خارج کرنے کا ٹھيکہ لےکرايک دوسرے کی مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کرکےمرنے اور مارنے والے دونوں ايک دوسرے کو ’جنت رسيد‘ کرنے لگے۔ اسی دوران اکثريتی فرقوں کے ملاؤوں نے مشترکہ محاذ کے جھنڈے تلے قاديانيوں اور آغاخانيوں کی خبر لينے اور غيرمسلم قرار دينے کے مطالبےکا سلسلہ بھی شروع کيا۔ جب آغا خانيوں کے سربراہ نے جو کہ دنيا بھر ميں اپنی کميونٹی سميت معاشی استحکام کی بنا پرايک ممتاز مقام رکھتے ھيں، پاکستان ميں سے اپنا سرمايہ نکال لے جانے کی دھمکی دی تو حکومت نے ملاؤوں کے کان کھينچے اور آغاخانيوں کے پاکستان ميں استحصال کی کوششوں کو بريک لگ گئے۔ ويسے تو اسکے بعد سے ہندواور عيسائی برادری کی خبر بھی وقتا فوقتا لی جاتی ھے ليکن اب باقی ماندہ مسلمان اکثريت کے لیے کارخير اور ثواب کے ٹوکرے لوٹنے کيلۓ فقط قاديانی بچے ہیں۔
شميم صاحب ميں آپکا بلاگ پڑھنے والوں سے درخواست کروں گا کہ وہ آپ کا بلاگ ’بشمول آپکے فراھم کردہ لنکس‘ کو چند بار ضرور پڑھيں خاص کر آپ کے بلاگ کا درج ذيل حصہ ضرور پڑھيں کے پڑھنے والوں ميں بہت سے يا تو خود يا انکے قريبی عزيز بيرون ملک قيام پذير ضرور ہوں گے۔
’اب اگر کوئی دنیا کے کسی بھی ملک میں نماز پڑھنے یا عقیدے کا پرچار کرنے سے مسلمانوں خصوصاً پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جائے یا ملک سے نکال دیا جائے تو ہمیں برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خود اسی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔‘
واسلام خيرانديش
ايک دردمند
طالبہ علموں کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے۔
عارف صاحب! قادیونیوں کے غم میں گھلنے کی بجائے ان کی فتنہ آرائیوں پر قلم اٹھائیے۔ اٹلی، یوکے جرمنی میں کون ہے جو ان نام نہاد مظالم کو بنیاد بناکر پناہ کا طلب گار ہوتا ہے اور ملک پاک کو دشنام دیتا ہے۔ اگر وہ آپ کو اتنے ہی محبوب ہیں تو ازراہ کرم سبھی کو اپنے پاس بلا لیجئے۔
اگر ھماری قوم قرآن و سنت کی صحيح طور تقليد کرتی تو ھم بے بسی اور تباہی کے اس دھانے پر نہ ھوتے، جہاں ھم آج ھيں۔
يہ جو کچھ بھی ھوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ھے۔ يہ سراسر ظلم و ذيادتی ھے۔ اسلام کسی کو تعليم سے نہیں روکتا۔
اسلام مکمل آزادئ رائے کا اختيار ديتا ھے۔ حضرت محمد کے سامنے مسيلمہ نے نبی ھونے کا دعوی کيا ليکن آپ نے اسے کچھ نہ کہا۔ بعد ميں جب اس نے مسلمانوں کا قتل کيا تو حضرت ابوبکر نے اس کے خلاف جنگ کي۔ اصل ميں مسلمانوں کو حضرت محمد کی سيرت کا مطالعہ کرنا چاہيے تا کہ وہ ايسی جہالت سے باز آ جائيں۔
عارف شمیم
آپ اور ý والوں کواس طرح کی صحافت کے ساتھ ان عوام کے عقائد کا بھی خيال رکھنا چاھيے جن کی اکثريت کے ليے انکی ý اس کار خير کو کر رھا ھے آْب لوگ جانتے ھيں باکستان کا آئين صرف احمدی حضرات کو اپنے آپکو مسلمان کے طور پر پيش کرنے سے روکتا ھے اورصرف مذاھب کوتبليغ کی اجاذت ديتا ھے۔ احمدی حضرات نے خود کو مذھب declare نھيں کيا۔
اس معاملے کو صلح صفائی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اور ديگر مذہبی جماعتوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے احمديوں کو پوری دنيا ميں بھرپور پزيرائی ملتی ہے، اور ہم مفت ميں بدنام ہوتے ہيں۔ جماعت احمديہ تو ان طالب علموں کو دنيا کے کسی بھی ترقی يافتہ ملک ميں سيٹل کروا کے نقصان کی تلافی کر دے گي، ليکن دنيا بھر ميں اسلام، پاکستان اور فيصل آباد کو بدنامی سے کون بچائے گا؟
عارف صاحب آپ کا یہ بلاگ پڑھ کے یہ یقین مستحکم پوگیا کہ قلم سے انسان کی سوچ کو ڈائیورٹ کرنے کے لیے بہت سے قلمکار ’لفافے‘ لیتے ہے۔۔۔ احمدی کا مسئلہ مذہب کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ کسی عقیدے کا ہونا الگ بات ہے اور کسی کے عقیدے پر حملہ کرنا الگ بات۔اگر میرے ماں باپ کو بیچ چوراہے پہ کھڑا ہوکے گالیاں دے اور میں اسے اظہار رائے کی آزادی سے منسوب کروں تو مجھے اپنے دماغ کا چیک اپ ازحد ضروری سمجھ لینا چاہیئے۔ تو اس لیے تمہارے اس بلاگ کا پہلا سوال ڈاکٹر کی عظمت سے نہیں دنیا کے سب سے عظیم انسان کی عظمت سے شروع ہونا چاہیئے تھا۔۔ یہ اچھی ناانصافی کی تم نے۔ اپنی سوچ براڈ ضرور کرے لیکن اتنی جتنی اچھائی کے زمرے میں آتی ہو۔۔۔ یہ مادر پدر آزادی براہ مہربانی اپنے پاس ہی رکھیئے۔ اور جو لوگ مغرب کی عظمت کو صحیح ہونے سے غلط ملط کرتے ہے ان کی نادانی کو بھی سلام۔میرے بھائی سسٹم کا صحیح ہونا الگ چیز ہے اور ان کی تمام چیزوں کو صحیح کہنا ایک الگ بات۔
آپ نے حق گوئی کا حق ادا کر دیا ہے۔حیرت ہے ہمارے معاشرے کو کیا ہو گیا ہے کہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے 23 طلباء کو نکال باہر کیا۔یہاں تو بلا تحقیق حافظ قرآں تک کو اینٹوں اور پتھروں سے قتل کیا جا چکا ہے۔
’دوسری طرف اگر اسلامی جمعیت طلبہ یا ختم نبوت والے یہ کر سکتے ہیں تو احمدیوں کے ایسا کرنے سے کونسا قانون ٹوٹ جاتا ہے۔‘ شايد راقم کو اس بات کا معلوم نہيں کہ پاکستان کے قانون ميں احمدي اپنے مذہب کی تبليغ نہيں کر سکتے!
اخر تعليم کب تک يرغمال رہے گي-