| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کیا کوئی پانچ جولائی مناتا ہے؟

blo_hasan_rama_150.jpgچار جولائی کو امریکہ کے یوم آزادی کے دن میں، میری بیوی اور بیٹا نیویارک کا رنگ میلہ دیکھنے گئے۔ یونین سکوائر، جو نیویارک کا ہائيڈ پارک ہے۔ یہاں امریکی قومی نغمے گانے والوں کے گرد رش سے زیادہ مجمع ہرے راما ہرے کرشنا گانے والوں پر تھا۔

نیویارک کا آسمان بادلوں سے بھرا تھا اور بارش کی ہلکی پھوار میں فائر ورکس ہوا میں آزادی کا عجیب خواب لکھ رہے تھے۔ پلس بار بی کیو۔

سکستھ ایوینیو ویسٹ مینہیٹن میں ایک بےگھرکالی لڑکی ہر آنے جانے والے کے لیے میک ڈونلڈ کا دروازہ کھولتی اور کسی بھی ٹپ پر 'گاڈ بلیس یو' کہتی۔ یونین سکوائر سے گزرتے ہوئے دو چھوٹے چھوٹے گورے بچے امریکی پرچم کا لباس پہنے ہوئے مجمع باز موسیقاروں میں شامل ہوگئے اور بڑے جوش خروش سے گانے لگے 'گاڈ بلیس امیریکا'۔۔۔

بروکلین برج پر ٹرین سٹیشن سے باہر نکلتے ہی پُل پر پولیس والے کھڑے تھے۔ 'خواتین و حضرات، پل آئندہ چار گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ کیوں؟ فائر ورکس کے موقع پر دہشت گردی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔' پولیس والے نے کہا۔

واپسی پر ٹرین میں جینی بوڑھا ایسے لگ رہا تھا جیسے چار جولائی امریکی یوم آزادی کے اشتہارات اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ اس نے ہاٹ ڈاگ کھاتے ہوئے ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

جیکسن ہائيٹس میں 'کنگ کباب' پر کھانے اور پان کے کیبن پر بڑی لائنیں لگی تھیں اور اس کے باجو والے تیھٹر پر فلم 'لو سٹوری دو ہزار پچاس' پر بھی۔

'کیا کوئی پانچ جولائی بھی مناتا ہے؟' میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا۔ 'ہاں، پاکستان میں بہت سے لوگ مناتے ہیں، ایک برے دن کے طور پر جب وہاں ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تھا۔' میرا بیٹا میرے جواب پر حیران رہ گيا۔

پانچ جولائي پاکستان میں ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار سب سے بہتر احمد فراز نے ہی کیا ہے:

'کیا خبر تھی کہ کل یہ شکستہ انا
اپنے زخموں کو ہی چاٹنے آئیں گے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ چکا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آئیں گے
قتل بنگال کے بعد جولائي میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آئیں گے'

گھر پر ٹیلی فون پر ایک دوست کا پیغام تھا: 'کاش دوسری قوموں کے لوگ بھی اسی طرح چار جولائي منائیں۔'

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:28 2008-07-07 ,shahidaakram :

    حسن صاحب ہم پانچ جولائی منائیں يا نہ منائیں، ليکن اُس دن سے جُڑی خوفناک ياديں اُس دن کے آنے پر دل و دماغ پر دستک ضرُور ديتی ہیں۔ وہ وقت بھی ياد آتا ہے جب صُبح چھ بجے کی خبروں ميں انتہائی نارمل انداز سے خبروں کے اختتام پر يہ کہا گيا کہ تمام لوگوں کو احتياط کے ساتھ مری پہنچا دياگيا ہے اور اپنی حفاظت ميں لے ليا گيا ہے۔ کُچھ اسی طرح کے الفاظ تھے جو اُس وقت تو سمجھ ميں نہيں آئے تھے کہ حفاظت ميں لينے کا کيا مطلب ہُوا۔ ليکن اب تو ان احتياطوں اور حفاظتی اقدامات کی تکنيک بہت اچھی طرح سمجھ ميں آ گئی ہے۔ دُکھ ہے تو اس بات کا کہ جو باتیں آج سے اکتيس سال پہلے ہوتی تھیں تھوڑے بہت ردّو بدل کے ساتھ ابھی بھی حالات ويسے ہی ہیں۔ يعنی ہم اب بھی اُسی جگہ پر کھڑے ہیں۔ ايک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پائے، ہاں ايک چيز میں ترقی کر گئے ہيں۔ جی آپ درُست سمجھے، خُود کُش دھماکوں ميں ترقی کر چُکے ہيں۔ بيٹے کو يہ ضرُور بتائيں کہ بچے ہم چار جولائی کے نہيں پانچ جولائی جيسے حالات ميں مُستقل پھنس کر رہ گئے ہیں اور چاہ کر بھی اس کيفيّت سے نکل نہیں پا رہے کہ ہميں سر اُٹھا کر ديکھنے کی شايد اجازت ہی نہيں دی جاتی۔ ايک کے بعد ايک جنرلز ہميں ہماری حد ياد دلانے کو جو موجُود رہتے ہيں۔ ويسے احمد فراز جيسا جی دار بندہ بھی شايد کوئی اور نہيں ہوگا يا شايد ہر دور ميں ايسے جی دار ہوتے ہيں جو ايسے لوگوں کے لیے ناک کا بال بنے رہتے ہيں۔ جو ايک طرح سے بہترين بات ہے مگر صرف ہمارے لیے۔ خُود اُن کے لیے تو آزمائش ہی ہوتی ہے۔
    خير انديش
    شاہدہ اکرم

  • 2. 14:35 2008-07-07 ,نجيب الرحمان سائکو :

    پانچ جولائي کو پاکستان ميں جبروتشدد اور قوت ودہشت کے ذريعہ انسانی آزادي، انسانی آوازوں، انسانی امنگوں اور خواہشوں کو دبانے کی روايت کا آغاز کيا گيا۔ قيدوبند کی صعوبتوں اور شاہی قلعہ کی غيرانسانی اذيتوں سے مخالف لوگوں، سيستدانوں، اخبار مالکوں، شاعروں اور دانشوروں کو ’سدھارنے‘ کی کوششوں کا سفر شروع ہوا۔ تعليمی نصاب اور قانون ميں مذہبی شدت پسندی اور منافرت کو ہوا دينے والے مضامين و قوانين نافذ کيے گئے۔ ملک ميں ’نظامِ مصطفی‘ کی آڑ ميں غيرمنصفانہ، غيرجمہوری اور انسانی حقوق کے منافی قوانين کا سلسلہ شروع کيا گيا۔ اسلام کے نام پر ملک کي نصف آبادي، خواتين کو دوسرے درجے کا شہری بنا ڈالنے کا آغاز ہوا۔ کالے دھن کی ريل پيل ہونا شروع ہوئي۔ سياست پر قدغنیں لگانے کی ابتدا ہوئي۔ معاشرہ کو غير سياسی کرنے کے لیے حربوں کا استعمال شروع ہوا۔ سياست کو ’گھوڑا سياست‘ ميں بدلنے کے لیے تاجرانہ ذہنيت پر مشتمل سرمايہ داروں کو لايا گيا۔ اسلحہ اور منشيات کی سمگلنگ کا نيا باب رقم ہونا شروع ہوا۔ معاشرہ کو تِتر بِتر کرنے کے لیے اسے لساني، نسلي، گروہی اور مذہبی بنيادوں پر تقسيم کيا گيا۔ جيالوں کو گرفتار کرنے کے لیے گھر گھر چھاپے مارے گئے اور سوشلزم پر مشتمل لٹريچر کو ضبط کرنے کي جاہلانہ مہم کا آغاز ہوا (خاکسار کے والد صاحب کے گھر میں بھي اسي ضِمن ميں متعدد مرتبہ آدھي رات کو پوليس اور بوٹوں والوں نے چھاپے مارے تھے، ليکن الحمداللہ والد صاحب کبھي نہیں پکڑے گئے کيونکہ ہمارے ’کامريڈ‘ بروقت اطلاع دے ديتے تھے)۔ ملک کی واحد خالصتاً سياسی پارٹی پاکستان پيپلز پارٹي کو جڑوں سے ختم کرنے کے لیے لسانيت، ملائيت اور فرقہ واريت کو رواج ديا گيا اور جيالوں پر اس قدر تشدد و مصائب ڈھائے گئے کہ ہلاکو خاں کی روح بھی کانپ اٹھی ہوگي۔ ملک کو ’اسلامائز‘ کرنے کی آڑ ميں جمہوری نظام کی تباہی شروع ہوئي۔ منافرت، تعصب، ملائيت اور زمينی حقائق کے خلاف سرمايہ داری کو فروغ بخشا اور ’جہاد افغانستان‘ کی آڑ ميں پاکستان کو ’دوزخ‘ بنا ڈالنے کی ابتدا ہوئي جس کے منفي اور اندوہناک اثرات رواں دنوں ميں بھگتے جا رہے ہیں۔ ايسے ميں کون ہے جو پانچ جولائی نہيں مناتا؟ ہاں بےحِس، بےضمير، ضيائی باقيات، اور مردہ دل لوگ ہی ہيں جو پانچ جولائی کو بحثيت ملکي تاريخ کے ’سياہ ترين‘ دن کے نہیں مناتے ہوں گے۔ بہرحال پانچ جولائی کوئی منائے يا نہ منائے، خاکسار ضرور مناتا ہے۔ پاکستان کے اس سياہ ترين دن کي بابت خاکسار آفس سے چھُٹي کرتا ہے اور سارا دن بُک شاپس سے کارل مارکس، ماؤ زی تُنگ، لينن، ٹراٹسکي، حبيب جالب، فيض احمد فيض اور ديگر سوشلسٹ لٹريچر خريد کر اپنا احتجاج ريکارڈ کرواتا ہے۔۔۔

  • 3. 14:48 2008-07-07 ,عمير :

    آپ کے دوست نے لفظ قوم استعمال کيا۔ کيا ہم ايک قوم ہيں؟ ميرا نہيں خيال! ہم صرف ايک ہجوم ہيں جسے کبھی جرنيل اکھٹا کر ليتے ہیں، کبھی سياستدان اور آج کل طالبان کافی مہارت سے اکھٹا کر رہے ہیں۔ اور ہجوموں کے مقدر ميں چار جولائی نہيں بلکہ پانچ جولائی ہی ہوتا ہے اور اگر کوئی اس ہجوم کو قوم ميں تبديل کرنا چاہے تو ان کے لیے چار اپريل اور ستائیس دسمبر ہوتے ہیں۔

  • 4. 17:58 2008-07-07 ,muhammad tariq joyia :

    جناب ہم کون کون سا دن منائیں؟ وہ دن جب لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی؟ یا وہ دن جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا؟ یا وہ دن جب سیاسی مقاصد کے لیے جماعت احمدیہ کو ’غیر مسلم‘ قرار دیا گیا؟ یا وہ دن جب ملک ٹوٹ گیا؟ یا وہ دن منائیں جس دن سے ضیاء نے مارشل لا کے ذریعے قابض ہو کر قوم کو مذہب کے نام پر تامرگ بےوقوف بنایا؟ یا وہ دن جب ہمارے صدر صاحبان جمہوری حکومتوں کو ملیا میٹ کرتے رہے۔ حالانکہ ان کو معلوم ہوتا تھا کہ پھر یہ حضرات لوٹ کر آئیں گے۔ پھر اسمبلی توڑنے کا کیا فائدہ؟ پاکستان کا ہر دن ہی اہم اور غیر معمولی ہے اور ہم ہاں ہم آپس میں بیان بازی میں مصروف ہیں، اور ہمارے پاس دن منانے کا وقت نہیں۔ کاش ہم اس ملک کو واقعی اسلامی ریاست بنا لیں جس کا کعبہ مکہ ہو نہ کہ امریکہ، انگیلنڈ۔

  • 5. 18:24 2008-07-07 ,sana khan :

    جمہوری ملک ہے امريکہ کوئی مانے يہ نہ مانے۔ جيو امريکی جمہوريت!

  • 6. 19:00 2008-07-07 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! خوش و مطمئن افراد کا چار جولائی منانا واجب ہے جبکہ ہم جيسے مسکينوں کے ليے آہ و فغاں کے ہمراہ شب گريہ اور يوم سياہ منانا ہي نصيب ميں لکھا معلوم ہوتا ہے۔ ہم بےکسوں کو تو يہ بھی معلوم نہیں کہ گزشتہ ساٹھ سال سے جاری يہ تماشہ کبھی اختتام پپذير بھی ہوگا يا نہیں؟

  • 7. 19:15 2008-07-07 ,نديم اصغر :

    محترم حسن صاحب! آداب۔ پانچ جولائی کی بات چلی ہے تو ايک آپ بيتی بِلا کم و کاست بلاگ کی نذر ہے۔ سن اُنيس سو ستہتر ميں راقم ايک ٹريننگ کے سلسلے ميں مُلک سے باہر تھا۔ جولائی کی ايک شب ميرا مترجم جو پاکستان اور يہاں کے سياستدانوں کی بابت قطعی نابلد تھا، تقريباً ہانپتا ہُوا ہوٹل میں ميرے کمرے میں آيا اور چھُوٹتے ہی مُجھ سے سوال کيا: ’کيا آپ کے مُلک ميں بھُٹو نام کی کوئی اہم شخصيت ہے؟‘ ’ارے دوست، وہ ہمارے وزيرِ اعظم ہیں!‘ میں نے جواب دِيا۔ ’اچھا؟ کسی اُولحق نامی شخص نے اُنہیں گرفتار کر ليا ہے!‘ مترجم نے اپنی سياسی و جغرافيائی لاعلمی پر کسی قدر جھينپ کر اطلاع دی۔ بےچارا مترجم! کہیں سے کچی پکی خبر سُن کر وہ صرف اِس قدر سمجھ پايا تھا کہ پاکستان ميں کچھ نہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ اُس غريب کو کيا خبر کہ پاکستان پر کيا واردات گُزر چُکی تھی اور ديارِ غير ميں يہ خبر سُن کر اِس راقم پر کيا بِيتی ہو گی!
    خير انديش، نديم اصغر۔

  • 8. 1:34 2008-07-08 ,ن ـ مصور :

    حسن صاحب! آپ نے جس مُلک کے يوم آزادی کو اس بلاگ کا موضوع بنايا ہے، ديکھا جائے تو آج دُنيا کے متعدد (بالخصوص اسلامي) ممالک ميں روا رکھی جانے والی خُونريزي، قتل و غارت، جنگ و جدل، خلفشار اور آمرانہ حکمرانی وغيرہ کا واحد ذمہ دار يہی مُلک ہے۔ اسی ’مادر پدر آزاد‘ قوم نے آج دُنيا کے بيشتر ممالک کی آزادی سلب کر کے انہيں ہر لحاظ سے اپنا دستِ نگر اور محکوم بنا رکھا ہے۔ آپ نے نيويارک کے رنگ ميلے اور امريکی قومی نغمے کی بات کی ہے، تو جناب، امريکی حکومت کے آج کے سب سے زيادہ مقبول قومی نغمے کے بول ہیں: ’دہشت گردی کے خلاف جنگ، جنرل(ر) مشرف کے سنگ!‘ رہی پانچ جولائي، تو اسے ہماری قوم بم دھماکوں کی شکل ميں آئے روز مناتی رہتی ہے۔ يہ ضيائی دور کا بويا ہی تو ہم مسلسل کاٹتے چلے آ رہے ہیں۔ اب تو يُوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں منايا جانے والا خوشی کا دِن اگر کوئی ہے تو وہ ’تِيس فروري‘ ہے!
    ن ـ مصور

  • 9. 13:58 2008-07-09 ,لياقت علی شفقت :

    چار جولائی سے ہمیں تو کوئی غرض نہیں۔ میں اپنے کمرے ميں بيٹھا سٹڈی کر رہا تھا کہ ميری بيٹی عينی نے آکر ميری آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کيا کہ آج کيا تاريخ ہے۔ ميں صحيح جواب نہ دے پايا جس پر اس نے کہا، آج چار جولائی تھی اور صبح پانچ جولائی ہے۔ آپ نے سياہ جھنڈياں کيوں نہیں بنائیں؟ ميرا ماتھا وہیں ٹھنکا کيوں کہ ميں باقعاعدگی سے اپنے بچوں کی سالگرہ کی طرح پانچ جولائی کو يوم سياہ کے طور مناتا ہوں، گھر والوں کے سامنے تقرير کر کے دل کی بھڑاس نکال ليتا ہوں، کيونکہ اور تو کوئی سنتا نہیں۔ ’سب سو گئے ہیں‘ اور میں پانچ جولائی اس طرح مناتا ہوں۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔