بےچارا مارکس!
پاکستان میں پٹرول پچھتر روپے اور ڈیزل پچپن روپے فی لیٹر تک تو پہنچ گیا ہے۔ امید ہے اگلے بارہ ماہ کے دوران پٹرول ایک سو پچیس اور ڈیزل ایک سو پانچ روپے لیٹر تک پہنچ جائےگا۔ کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے پٹرول پر سرکاری سبسڈی ختم کرنے کا۔
اس اضافے کے نتیجے میں اشیا کی پیداواری لاگت، نقل و حمل اور آمد و رفت کے نرخ بھی بڑھیں گے اور یوں ملک میں وسائل کی مساوی تقسیم ہو نہ ہو غربت کی مساوی تقسیم کا خواب یقیناً شرمندہ تعبیر ہو جائےگا۔
جن حضرات کے پاس ذاتی سواری ہے وہ اب اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کو زیادہ وقت دے سکیں گے۔ کیونکہ ایک سو پچیس روپے لیٹر پٹرول میں آپ زیادہ سے زیادہ کام پر جانے اور پھر سیدھے گھر آنے کی ہی عیاشی کر پائیں گے۔ مہمانوں کی آمد و رفت بھی کم ہو جائے گی کیونکہ مہمان آپ کے خلوص سے پہلے آپ کے گھر تک کے کیلومیٹر ناپے گا۔ آٹے کی روٹی گن کر پکے گی اور کھانا ضائع کرنے یا حلق تک بھر لینے کی عادتِ قبیح سے نجات ملے گی جس سے خاندان کی جسمانی صحت بہتر رہنے کے ساتھ ساتھ اخراجات بھی قابو میں رہیں گے۔
اب تک تو تہتر فیصد آبادی خطِ غربت کے نیچے ہے۔ لیکن پٹرول کی قیمت میں اضافے کی رفتار دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں خطِ غربت غریب کے نیچے ہو گا۔
کارل مارکس نے کہا تھا ہمارے پاس کھونے کے لیے ہے ہی کیا سوائے زنجیروں کے۔ آج مارکس زندہ ہوتا اور زنجیر خریدنے جاتا تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے اور وہ بلبلاتے ہوئے پکار اٹھتا کہ ہمارے پاس کھونے کے لیے ہے ہی کیا سوائے اپنے!
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت اللہ خان صاحب آپ نےغريب غربا کی صحيح نمائيندگی کی ہے۔ اللہ آپ کو قائم و دائم رکھے۔ آمين
وسعت بھائی آپ کے بلاگ کمال ہوتے ہیں۔ آپ چند لائنوں میں سمندر کو کوزہ میں بند کر دیتے ہیں۔ امیروں کی تو خیر ھے جناب وہ تو مال سٹاک کر کے ریٹ بٹرھا کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ اور بسوں مٰیں سفر کرنے والے 80 فیصد پاکستانی نت نئے کراہوں پر کنکٹر سے لٹرتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوں کی سوچ اس لیے مثبت ہے کہ وہ جی بھر کر کھاتے ہیں اور دل لگا کر کام کرتے ہیں۔ اور یہاں مہنگائی کی وجہ سے لوگ موسمی پھل کھانے سے محروم ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ سارا دودھ بیچ دیتے ہیں تاکہ گھر کا چولھا جل سکے۔ ایک مزدور کی اوسط مزدوری 200 روپے ہیں جو کبھی کبھی ہٹرتالوں کی نظر ہو جاتی ہے اور موسمی ستم ظریفی اپنی جگہ ہے۔ اب لیجیے ہماری اشیا خوردنوش کی ریٹ لسٹ، گھی 150، ہماری گھر کی چینی32 آٹا وہ تو عام ہے مفت ہے جناب۔ سبزیاں اپنی جگہ، آلو عام طور پر 20 روپے کلو پیاز 20 گوبھی وغیرہ 40 روپے ہے۔ سب پکانے کے لیے آگ درکار ہے جو ہمارا میڈیا اور سیاسی رہنما مفت پریس کانفرنس میں فراہم کرتے ہیں۔ ھمارے ملک کا ایشو مہنگائی نہیں آزاد عدلیہ ہے، کیونکہ کالے کاٹوں والے جب آزاد تھے ملک کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا تھا۔ خدا کے واسطے غریبوں کو عدالتوں کی نہیں روٹی کی ضرورت ہے۔
بہت اچھی بات کہی آپ نے ليکن 75 روپے ميں بھی نہیں مل رہا اور کمال ہے بجلی کا آپ نے ذکر ہی نہیں کيا، جو ادائيگی کے بعد بھی نہیں مل رہی۔ کل رات تو ميری گنتی ختم ہو گئی کہ کتنی دفعہ گئی ہے اور کتنی دفعہ آئی ہے۔ بس اور کيا لکھوں اگر ميرے اختيار ميں ہوتا تو۔۔۔
آپ کے پاس کرنے کو ہے ہی کيا سوائے تنقيد کے۔
اصل ميں جانے والے چور اور آنے والے ان کے باپ ہيں۔ اس لیے کوئی فرق نہيں۔ معذرت کے ساتھ اگر حکومت چاہے تو سستا ہو سکتا ہے۔۔۔
وُسعت بھائی کيا کيا کہہ جاتے ہيں بلاگ کے اس واسطے سے۔ چلو اور کُچھ نہيں تو دل کا بوجھ تو ہلکا ہو ہی جاتا ہے آپ کا کہہ کر اور پڑھنے والوں کا پڑھ کر۔ رہے بےچارے کارل مارکس تو اچھا ہُوا يہ وقت ديکھنے سے پہلے ہی چل بسے ورنہ اپنے نظريات کے ہاتھوں خُود بھی پريشان ہو جاتے کہ کيا ہو گيا ہے دُنيا کو اور نہ جانے ابھی اور کيا کُچھ ہونے کو ہے۔
’محوِ حيرت ہُوں کہ دُنيا کيا سے کيا ہو جائے گی‘
بس ديکھتے جائيے او گُزرتے جائيے کہ يہ دُنيا ايک گُزرگاہ ہي تو ہے۔
خيرانديش
شاہدہ اکرم
ہمارے پاس کھونے کے لیے لاتعداد ليڈر موجود ہیں۔ ان کے ہلاک ہونے سے انہیں جنت ملے يا نہ ملے پاکستان ضرور جنت نظير ہو جائے گا۔۔۔