'دین کی دعوت'
ایک امریکی اخبار 'بفیلو ٹائمز' نے خبر دی ہے کہ نیویارک کے قریب ایک اسلامی مدرسے کے پرنسپل کو مدرسے کی ایک اکیس سالہ طالبہ سے جنسی تعلقات استوار کرنے پر اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔
اخبار کے مطابق پہلےسے ہی شادی شدہ اور سات بچوں کے باپ پرنسپل ابراہیم میمن نے اپنی ایک اکیس سالہ طالبہ سے ایسے تعلقات کو عین اسلامی اور اپنی دوسری شادی سے تعبیر کیا۔
اگرچہ امریکی قوانین کی رو سے ایک وقت ایک سے زیادہ شادیاں سنگین جرم ہے۔
امریکی میڈیا میں لڑکی کے والدین بلکہ مولانا ابراہیم میمن کے مدرسے کو بھیجے جانیوالے بچوں کے والدین، اور ایک مشہور مسلم تنظیم 'مسلم پبلک افیئرز کاؤنسل' نے بھی مدرسے کے پرنسپل کے ایسے عمل پر سخت تاسف اور غصے کا اظہار کیا ہے۔
'والدین نے اپنا اولاد جیسا سرمایہ مولوی ابراہیم جیسے لوگوں کو امانت کر کے بھیجا اور انہوں نے امانت میں خیانت کی'، مسلم پبلک افیئرز کاؤنسل مقامی رہنما ڈاکٹر خالد قاضی کا کہنا تھا۔ لڑکی کے والد نے کہا 'ہم نے اپنی اولاد کو مدرسوں میں اسلامی تعلیمات کے لیے بھیجا لیکن ان مدرسوں میں نہ امریکہ کا اور نہ کہیں کا قانون چلتا ہے بلکہ ان کا اپنا قانون ہے۔'
مولوی ابراہیم کے خلاف مدرسے کی ڈسپلینری کمیٹی نے ایکشن لیا اور ایک انضباطی کارروائي کے نتیجے میں انہیں نہ صرف سات برسوں کے لیے پرنسپل کے عہدے سے ہٹ جانا پڑا بلکہ، اب وہ لڑکیوں کو کبھی نہیں پڑھائیں گے۔ اب لڑکوں کا خدا انکی عصمت اور عافیت برقرار رکھے! پر مولوی کا ہوگیا مواخذہ!
جو امام کی نیت تھی وہ کہتے ہیں کہ طالبہ کی اپنی نیت نہیں تھی اور اس سے قبل بھی کئي لڑکیوں کو مولوی اس طرح 'دین کی دعوت' دے چکا تھا۔ اخبار 'بفیلو نیوز' لکھتا ہے 'لڑکی کے مطابق مولوی سےاس کی (لڑکی کی) پہلی خفیہ ملاقات مدرسے کے بیسمینٹ میں مقفل ہیٹنگ روم میں ہوئی جہاں اس نے لڑکی کے جسم پر ہاتھ پھیرا۔ جب لڑکی نے اس پر اعتراض کیا تو پھر اس نے کہا کہ وہ عین اسلام کے مطابق اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے اعمال کو سندھ میں لوگ (طنزاً) 'دین کی دعوت' بھی کہتے ہیں۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
’دستور يہاں بھی اندھے ہیں
فرماں يہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست! خدا کا نام نہ لے
ايمان يہاں بھی اندھے ہیں‘
کيا حسن صاحب نے کبھی پادريوں کے قصے نہیں پڑھے؟ ان کا غصہ ہميشہ اسلام پر ہی کيوں اترتا ہے؟ ان کا طنز اکثر دين پر ہي ہوتا ہے۔ کبھي اسلام کو مولويوں سے الگ کر کے ديکھ ليا کريں۔ آپ جيسے لوگوں نے ہی مولويوں کو سر چڑھا رکھا ہے۔
شايد انہی ’داعين‘ کی شان میں اقبال نے کہا تھا کہ،
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات ميں دوڑا ديئے گھوڑے ہم نے!
یہ نہایت شرم ناک ہے۔ اس کو سزا ملنی چاہیے اور ملک سے نکال دیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے لوگ اسلام کا نام بدنام کرتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس بلاگ کی بنیاد لکھنے والے کی انگریزی زبان سے ناواقفیت ہے یا بی بی سی والوں کی اسلام سے نفرت اور بغض کی وہ پالیسی ہے جس کا اظہار بی بی سی کی خبروں اور تحریروں میں اکژ ہوتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر جاکر پڑھیں کہ سکول کے اس پرنسپل نے طالبہ سے جنسی تعلقات قائم کیے یا اس سے خفیہ شادی کی؟
پھر یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ اس غیر مہذب عمل (غیر اسلامی نہیں) پر اس پرنسپل کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ کبھی آنکھیں کھول کے اخبارات کا مطالعہ کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ جنسی زیادتی کے امریکہ میں روزانہ کتنے کیسز ہوتے ہیں اور آپ ان میں سے کتنوں پر طنزیہ کالم لکھتے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ اس تبصرہ کو آپ کے صفحہ پر جگہ نہیں ملے گی لیکن میں کیوں آپ کی بددیانتی پر خاموش رہوں؟
ایسی باتوں کو منظر عام پر نہیں لانا چاہیے بلکہ ایسے مولوی کو اسلام کے مطابق سزا دتنی چاہیے۔
حسن مجتبیٰ صاحب، مولوی کا عمل انتہائی قبیح فعل ہے، جس کی کسی صورت کوئی انسان اور مسلمان حمایت نہیں کر سکتا، لیکن اس عمل کو ’دین کی دعوت‘ کے مقدس الفاظ کو مذاق بنا لینا ایک دوسری طرح کی انتہا پسندی ہے۔ آپ جیسے لوگوں کو معاشرے میں زبان کے چسکے لینے کی بجائے اصلاح کا کام کرنا چاہیے۔ اسی لیے اسلام نے اختلاط مرد و زن سے روکا ہے۔ وہ قرآن کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، نتیجہ یہ ہی نکلے گا۔۔۔