| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صدر زرداری کس سے مخاطب تھے؟

اسد علی | 2008-09-24 ،18:34

zardari_parliament203.jpgپیپلز پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہونے کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے انگریزی زبان میں خطاب کیا۔ اس طرح انہوں نے پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔


یا تو انہوں نے پاکستانی عوام تک اپنی بات پہنچانی ضروری نہیں سمجھی یا ان کاخیال ہے کہ سب پاکستانی انگریزی
سمجھتے ہیں۔ ویسے ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں علم سے زیادہ انگریزی زبان پر دسترس کو ہی قابلیت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو قابل ظاہر کرنے کے لیے بھی اردو میں انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ رواج روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جناب زرداری کی تقریر کا معاملہ صرف ایک خطاب سے زیادہ گہرا ہے۔ انگریزی عالمی زبان اور مختلف اقوام کے درمیان رابطے کا شاید سب سے بڑا ذریعہ۔ انگریزی کی سمجھ بوجھ علم کے خزانوں کی کنجی ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب یہی زبان معاشرے میں تفریق کا باعث بنتی ہے۔ تفریق انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم کی۔ اس تفریق کا تانا بانا ملک میں جاری خودکش حملوں سے بھی جڑتا ہے۔ حال ہی میں ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا تھا کہ خودکش حملہ آوروں میں ایک طبقہ ان لوگوں کا بھی ہے جو سماجی نا انصافی سے تنگ آ کر اس راہ پر نکل پڑے۔ انگریزی کی اچھی تعلیم صرف چند اداروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ جو ان اداروں کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا وہ پاکستان میں ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں یہ عمل اتنے عرصے سے جاری ہے کہ یہی معمول لگتا ہے۔ زرداری صاحب ایس غلطی کرنے والے پہلے شخص نہیں۔ اس سے پہلے ایک بار بینظیر بھٹو بھی انتخابات سے قبل ٹیلیویژن پر اپنی جماعت کا منشور انگریزی میں پیش کر چکی ہیں۔ مجھے اس روز کئی لوگوں کا منفی رد عمل یاد ہے جو بینظیر بھٹو کی تقریر کے بے چینی سے منتظر تھے۔ ایسے میں کئی لوگ مثال دیتے ہیں کہ قائد اعظم نے بھی تو انگریزی بول کر لوگوں کا دل جیتا تھا اور پاکستان بنا۔ انہیں ایک تو شاید تاریخ کے عمل کی پیچیدگی کا اندازہ نہیں اور دوسرا یہ کہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ملک میں انگریزی کو ہر چیز کا معیار بنا کر، اس کو ریاستی زبان کا درجہ دے کر ملک کی اکثریت کو اس سے دور رکھا جائے۔ اور حکمرانوں کے ایسی زبان بولنے سے جو عوام نہیں جانتے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آئے تو انتخابات کے بعد ہیں لیکن ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 22:16 2008-09-24 ,علی فائز :

    آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’اسلام‘ اور ’جمہوریت‘ تو پہلے ہی ناپید تھے، اب رہی سہی کسر اردو زبان کو نظرانداز کر کے پوری کی جا رہی ہے۔
    ’میں بندہ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا
    رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند
    لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
    جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند‘

  • 2. 23:25 2008-09-24 ,ولی ذين :

    زرداری نےانگلش ميں تقرير کر کے ثابت کر ديا کہ صرف بی اے والے ہی نہیں ميٹرک پاس بھی انگلش ميں تقرير کر سکتے ہيں۔ ہوگئی ناں ميٹرک والو کی ’بلے بلے ياہووو!‘

  • 3. 1:28 2008-09-25 ,انور حسين :

    انگريزی زبان کا استعمال اپنے آپ کو دوسروں سے زيادہ قابل ثابت کرنے کی کوشش کی کڑی ہے۔ زرداری صاحب کو تو ويسے بھی اس کی لازمی ضرورت رہے گي۔ ہم صلاحيتوں پر انحصار کر کے بہتر نتائج دينے کی کوشش کريں تو ملک اور قوم کا کچھ بھلا ہو سکے گا۔

  • 4. 2:22 2008-09-25 ,اے رضا :

    واپسي مبارک ہو اسد علي چودھری صاحب۔ اميد ہے بخريت رہے ہوں گے۔ اعتراض بجا ہے۔ بقول شيری رحمان صاحبہ وہ تقرير حکومت وقت کي جاري کردہ تھي جس کی تياری ميں وزيراعظم سميت متعدد افراد نے حصہ ليا ہو گا۔ حيرت ہے صاحب صدر سميت کسي کو بھي قومي فورم پر قومي زبان کا انتخاب ياد نہیں رہا۔

  • 5. 5:46 2008-09-25 ,محمد سرفراز :

    کمال موضوع پر آپ نے قلم اٹھايا ہے۔ پاکستانی ليڈران کا کمال ہے کہ انگريزی زبان بولنے کو اپنی اعلی کاکردگی و پاکستانی عوام رعب ڈالنے کا وسيلہ جانتے ہيں۔ دنيا کی تمام مہذب قوموں کے رہنما اپنی قومی زبان ميں ہر جگہ بولنے کو فخر سمجھتے ہيں اور ہم اپني عوام سے بات چھپانے کے لیے اپنی زبان نہيں بولتے۔ ہم جھوٹے جو ہوئے ۔۔۔

  • 6. 7:40 2008-09-25 ,shahzad :

    تنقید برائے تنقید۔۔۔

  • 7. 12:25 2008-09-25 ,فلک شير :

    ميں آپ سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔۔۔

  • 8. 12:39 2008-09-25 ,نديم اصغر :

    محترم اسد صاحب! اِس جانب بھي غور ہو کہ صدرِ مُملکت کے خطاب ميں تلفظ، لہجے اور الفاظ کی ادائيگی ميں جس قدر سقم، بے ربطي، اور تصنع جابجا نماياں تھا، اس کے پيشِ نظر پُورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جن ’کرم فرماؤں‘ کی خاطر موصُوف نے اپنا خطاب انگريزی زبان ميں فرمايا، وہ بھی ’موقع پر‘ پُوری بات ٹھيک طور پر سمجھ نہ پائے ہوں گے۔ کِس کام کی ايسی انگريزی دانی؟ اِس لحاظ سے يہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ: ’اگر اپنا کہا وہ آپ ہی سمجھے، تو کيا سمجھے !‘
    مخلص

  • 9. 14:21 2008-09-25 ,نجيب الرحمان سائکو :

    صدر پاکستان ’ہِز ايکسيلينسي‘ آصف علی زرداری صاحب پاريلمان کے مشترکہ اجلاس ميں عوام کے نمائندوں بشمول پنجاب کي استحصالي مارکيٹ تک قيدوبند، تاجروں کے جتھے، سرمايہ داروں کے ٹولے جبکہ بالخصوص نہ صرف بيک وقت بلکہ خالصتاً ملائيت و آمريت کي پيداوار ن ليگ کے منتخب شدہ عوامي کم تاجري طبقہ کے زيادہ منتخب کردہ سياسي کم معاشي ذہنيت زيادہ رکھنے والے لوگوں سے مخاطب تھے۔ جو پنجاب حکومت کي سانسوں ميں اضافہ کروانے کي ’خوشامدي‘ نيت سے مجبوراً وہاں موجود تھے، انگريزی جانتے تھے۔ لہذا جب انہيں انگريزی تقرير سے کوئی اعتراض نہيں تو آپ کو بھی نہيں ہونا چاہیے۔۔۔

  • 10. 16:56 2008-09-25 ,ن ـ مصور :

    ميں متوسط طبقے کا ايک پاکستانی ہُوں اور پورے وثوق سے کہہ سکتا ہُوں کہ صدر صاحب کم از کم مُجھ جيسے ہزاروں لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں پاکستانيوں سے تو ہرگز مخاطب نہیں تھے! والسلام۔ مصور

  • 11. 11:09 2008-09-27 ,Shahid :

    بہت اچھے زرداری!

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔