ایسٹ اینڈ ویسٹ
لندن کی زیر زمین ریل میں تقریباً تمام مسافر اخبار یا کتاب پڑھنے میں محو ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھنے اور بات کرنے کی دلچسپی محال ہی ہوتی ہے مگر آج غیر معمولی طور پر جب دو لوگوں کے درمیان مشرق اور مغرب کے اقدار پر بحث ہو رہی تھی تو بیشتر مسافر بشمول میں اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور مفت میں آنند لینے لگے۔
لہجے سے ایک جنوب ایشیائی باشندہ لگ رہا تھا اور دوسرا خالص انگریز۔ ایشائی اپنی تہذیب اور ثقافت پر فخریہ انداز میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس وقت کی فراونی ہے، ایک دوسرے سے ملنا اور دکھ سکھ کو بانٹا ہماری روایت ہے۔
انگریز نے فورا کہہ دیا کہ پبس اور تفریح مرکزوں پر جتنی ہماری سوشلیزیشن ہوتی ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
آپ کے مقابلے میں ہمارا فیملی نظام ابھی بہت مظبوط ہے اور گھر کے اصول واقدار سے کوئی بغاوت نہیں کر سکتا۔ ایشائی نے کہا۔
ہماری فیملی میں ہر کسی کو اپنی مرضی سے زندہ رہنے اور فیصلے کرنے کا حق ہے۔ ہم جمہرریت میں رہ رہے ہیں اور دنیا کو جمہو ریت سکھا رہے ہیں۔ انگریز نے کہا۔
ایشیائی بولا، ہم آپ کی جمہوریت کا احترام کرتے ہیں مگرآپ کے لامحدود آزادی کے نتائج سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ایسی آزادی کا پودا نہ صرف ہماری سرزمین میں مرجھا جائے گا بلکہ ہمارا گھر فیملی اور سوشل نظام سب بکھر جائےگا۔
کس فیملی اور قدروں کی بات کرتے ہیں آپ۔ میرے والد کا حال ہی میں جب انتقال ہوگیا تو میں نے انکے کفن دفن پر اپنی ساری کمائی خرچ کی۔ انگریز نے کہا۔
جب وہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے کیا آپ نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا؟ ایشائی نے پوچھا۔
کون سا وقت گزاراتا؟ صبح سے شام تک نوکری کرتا ہوں، اپنے بچوں کا چہرہ ٹھیک سے دیکھنے کا ٹائم نہیں ملتا، والد کے لیے وقت کہاں سے لاتا۔
دفتر نکلنے سے پہلے جب مجھے اپنی امی کے انتقال کی خبر ملی تو میں دفتر کی بجائے ائیرپورٹ پہنچا اور آٹھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد اپنے گھر۔ تاکہ کفن دفن سے لے کر باقی تمام معاملات کو سنبھال سکوں۔ اپنی فیملی کو یہ احساس دلا سکوں کہ اس نازک گھڑی میں ہم سب شریک ہیں۔
تو آپ پروو کیا کرنا چاہتے ہیں؟ انگریز بولا۔
میں صرف بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے والد کو فیونرل سروسز کے حوالے کر دیا اور میں نے خود جاکر امی کا کفن دفن کردیا۔
ہم دونوں میں یہی تھوڑا سا فرق باقی رہا ہے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب عرض! محترمہ نعيمہ احمد صاحبہ، خيری آؤ تے خيری جاؤ۔ بحثيتِ مجموعي ديکھا جائے تو ’ايسٹ اينڈ ويسٹ‘ میں فرق ختم ہوا ہی چاہتا ہے! جو تھوڑا بہت فرق نظر آتا ہے اسے ملائيت نے اپنی بڑھکوں کے نيچے چھپايا ہويا ہے۔ حالانکہ اندر کھاتے جو فرق ہے وہ صرف انيس بيس کا ہی ہے۔ جب خاکسار آج سے چھبيس برس قبل بچپن کے زمانہ ميں اپنے پِنڈ واقع لائلپور تصور ميں پہنچ جاتا ہے تو اس وقت کے لوگوں ميں آج کی طرح بقول شاعر مشرق ’غازہء رنگ تکلف‘ کے داغ نہيں پڑے تھے۔ سائنسی آلات نے آج کی طرح لوگوں کا خون سفيد نہيں کيا تھا، اس زمانہ کے لوگ مجموعی طور پر ايک جسم وجان رکھتے تھے۔ ان سب کے دل ايک ساتھ دھڑکتے محسوس ہوتے تھے۔ کسی ايک آدمی کا دکھ سارے پِنڈ والوں کا دکھ بن جاتا تھا۔ اخلاقيات، ذمہ داری اور فرض شناسي کا يہ عالم تھا کہ ايک بہن اگر مدد کے لیے بھائيوں کو پکارتی تو پورے پِنڈ کی رگِ حميت پھڑک اٹھتی تھی اور سب کی خواہش ہوتی تھی کہ اس مدد ميں سب سے پہلے وہ آگے بڑھے۔ افسوس آج يہ حال ہے بقول شاعر
’بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائي
بيچ ہي ڈاليں جو يوسف سا بردار ہووے‘
جبکہ آج کی نسل ميں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر کوئی ’مادہ‘ کے پيچھے اندھا دھند بھاگی جا رہا ہے۔ خوشيوں کے معيار کو بھی مادہ پرستی سے مشروط کر کے رکھ ديا گيا ہے، حالانکہ ايک حقيقي، روحاني اور خالص خوشی کا مادہ پرستی سے دور دور تک رشتہ بنتا ہی نہيں ہے۔ بلکہ يہ کہنا مناسب ہوگا کہ مادہ پرستی دراصل ايک لانگ ٹرم خوشی کی موت ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنا الو سيدھا کرنا چاہتا ہے۔ بےنيازی کا يہ عالم کہ برسوں ايک پڑوسی کی دوسرے سے ملاقات نہیں ہوتي۔ باپ اپنی راہ جاتا ہے اور بيٹا اپنی بائيک کی کی راہ۔ کسی کو کسی سے محبت نہيں رہي، وہ صورتيں ناپيد ہوگئیں ہیں جن کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہوتا تھا۔ کوئی يار دوست يا شناسا بھی مل جائے تو يوں نظريں چرائے گا جيسے وہ کبھی آشنا ہی نہ تھا، بقول مکيش:
’دوست دوست نہ رہا، پيار پيار نہ رہا
زندگي ہميں تيرا، اعتبار نہ رہا‘
ان حالات وواقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے يقين ہے کہ آپ کے دل سے بھی يہ آواز نکلتی ہوگی کہ ’خداوند بتا تيرے جہاں کو کس طرح بدلیں!‘ آج کے انسان میں موجود بےچيني، خودغرضي، خشک پن، بے مروتی اور بےنيازی کا ذمہ دار سوائے سرمايہ داری نظام کے کوئی اور نہیں ہو سکتا! اس مشينی نظام ميں انسان خود بھی ايک پرزہ بن گيا ہے، روحانيت سے دوری اور مادہ پرستي سے نذديکي بھی اسی سرمايہ داری سسٹم کا شاخسانہ ہے، جب تک اس نظام کا جنازہ نہيں اٹھے گا تب تک انسان اپنی انسانيت کی طرف واپس نہيں لوٹ سکے گا کيونکہ:
’ہے دل کے لیے موت مشينوں کي حکومت
احساسِ مروت کو کچل ديتے ہيں آلات‘
انگريز کی بات زندگی اپنی مرضی سے گزارنے والی بالکل ٹھيک ہے اور کيا دونوں ميں بحث کے لیے صرف کفن دفن کا ہی موضوع رہ گيا تھا؟ ويسے مجھے يہ بات سمجھ نہيں آتی ايشيائی لوگوں کی کے انگريز کی تہذيب، کلچر، معاشرے کی کوئی ہزاروں عيب برائیاں بتاتے رہتے ہيں پھر چھوڑ کر اپنے پيارے ملک کيوں نہيں آجاتے؟
محترمہ داد ديتا ہوں آپ کے اندازِ بياں پر۔ اتنی کڑوی اور سچی بات کتنی آسانی اور سادگی سے کہہ دی۔۔۔
نعيمہ جی، ہم بچپن سے ہی يہ نعرہ سنتے آرہے ہيں کہ، ’ايسٹ آر ويسٹ، انڈيا اِز دا بسٹ!‘