تین کرنسیوں والا ملک
کل رات کابل میں تعینات پاکستان کے نائب سفیر آصف درانی کی جانب سے یہاں کام کر رہے چند پاکستانی دوستوں کو اپنی رہائش گاہ پر دی جانے والی دعوت میں شرکت کی۔ ان میں سینئر پاکستانی بینکرز اور تاجر شامل تھے۔
کئی گھنٹے تک چلنے والی اس نجی بحث میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ عالمی اقتصادی بحران پر بھی بات ہوئی۔ سب متفق تھے کہ پاکستان پر اس عالمی بحران کا اثر کم ہوگا تاہم کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ موجودہ بحران دانستہ ہے یا غیرپائیدار پالیسیوں کا نتیجہ۔
گیارہ ستمبر کے امریکہ پر حملوں میں یہودی لابی کی طرح اس شک کا بھی اظہار ہوا کہ شاید اس 'دانستہ' بحران کے پیچھے بھی امریکہ کی طاقتور یہودی لابی ہو۔ لیکن آخر وہ ایسا کیوں کرے گی یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
افغان معیشت پر بھی بات ہوئی۔ اس دوران یہ معلوم پڑا کہ افغان تاجر آج تک بعض لین دین کے لیے ڈالر اور افغانی کے مقابلے پاکستانی روپے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کی اپنی نئی کرنسی پر اعتماد کی کمی بتائی جاتی ہے۔
روپے کے ذریعے یہ کاروبار آج بھی پاکستان کے ساتھ لگے افغان صوبوں میں جاری ہے۔ جن سودوں کے لیے روپے کو ترجیح دی جاتی ہے ان میں گاڑیوں، مکانات، چاول، گھی اور پیٹرول تک کی خرید و فروخت شامل ہے۔ لیکن پاکستان ماہرین نے بتایا کہ جو مار آج کل روپیہ ڈالر سے کھا رہا ہے اس سے افغانیوں نے اب دوبارہ ڈالر یا افغانی کو اہمیت دینا شروع کر دیا ہے۔
اقتصادی لین دین کے اعتبار سے افغانستان آج بھی شاید مشکل ترین ملک ہوگا۔ مجھے بھی جیب میں ہر وقت پاکستانی، افغانی اور ڈالر رکھنے پڑ رہے ہیں۔ سودا کرنے والے سے پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ اپنی خدمات کے صلے میں کس کرنسی میں معاوضہ لیں گے۔ 'خارجی' کو پہچانتے ہی اکثر کے منہ سے ویسے ڈالر ہی نکلتا ہے۔
افغان حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جلال آباد جیسے شہر میں لوگوں کو پولیس نے پاکستانی روپے یا عرف عام میں کلدار کے طور پر جانے والے روپے کی لین دین کرنے والوں پر جرمانے بھی عائد کیے ہیں۔
اس وجہ سے روپے کا اثر کافی کم ہوا ہے لیکن مکمل طور پر تب ہی ختم ہوگا جب لوگوں کو افغانستان کے پرامن مستقبل کا یقین ہوجائے گا اور اپنی کرنسی پر ان کا اعتماد بڑھے گا۔ تب تک روپیہ بھی چلے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
جب تک خطے ميں امريکی و پاکستانی اثرورسوخ رہے گا روپيہ ڈالر چلتا رہے گا۔
افغانستان ميں مکمل طور پر امن تو شايد ممکن نہ ہو کيونکہ وہ ’پٹھانوں‘ کا ديس ہے۔ ہاں البتہ اتحادی فوج کے وہاں سے انخلا کے ’معجزہ‘ کے ظہور پزير ہونے سے حالات ميں قابل ستائش تبديلی يقيناً پيدا ہوسکتی ہے۔ جہاں تک مالی بحران کا تعلق ہے تو يہ بھی عالمی سامراج کی ايک سازش گردانی جاسکتی ہے تاکہ اس نے ’نيو ورلڈ آرڈر‘ کی تکميل کے دوران جو قتل وغارت گری دنيا ميں ’دہشتگردي کے خلاف جنگ‘ ليبل تلے مچائی ہوئی ہے اس سے برآمد ہونے والی خفت و شرمندگي کو دور کرنے اور دنيا ميں اپني ’دنيا پروري‘ کي دھاک بٹھا کر لوگوں کے دلوں کو جيت سکے۔ عالمي مالياتي بحران ايسا ہي ہے جيسے ايک مٹي کا گڑھا کھود کر اسے بھرنے کے لیے دوسرا گڑھا کھودا جائے۔
پاکستانی روپيہ افغانستان کی تجارت کا لازمی حصٌہ ہے اور رہے گا کيونکہ افغانی اپنی تقريبآ ہر ضرورت کےلیے پاکستان کے محتاج ہيں اور زيادہ تر تجارت غير قانونی اسمگلنگ کے راستے ہوتی ہے- افغان ہماری دريا دلی کا ناجاۂز فاۂدہ اٹھا رہے ہيں-
A racist comment by Najeeb Pshycho against Pakhtoons, for which he should be shameful..
اگر پاکستانی کرنسی افغانستان میں نہیں چلتی تو بیس لاکھ افغانی کیسے پاکستان میں گردش کرتے۔