بظاہر اس میں کوئی بڑی بات نہیں
گجرات میں ایک لڑکی پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد گریڈ سترہ میں تعینات ہو گئی۔ بظاہر اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن جب ماحول کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک کامیابی سے کم نہیں۔
گریڈ سترہ کی اس نئی افسر کے والد کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کی بہنوں کے سکول جانے کا وقت آیا تھا تو انہوں نے بندوق تان لی تھی اور اپنے والد کو کہا تھا کہ اگر یہ گھر سے نکلیں تو 'میں خود انہیں گولی مار دوں گا'۔ اب ان کی اپنی بیٹی نے نہ صرف ایم اے کیا بلکہ مقابلے کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ وہ بھی حیران ہیں کہ یہ سب کیسے اور کب ہوا اور ان کو اس بار بندوق یاد کیوں نہیں آئی۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ شمالی پنجاب کے مختلف اضلاع میں آتے جاتے کئی برس پہلے یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوا کہ دیہاتی علاقوں میں لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے اور کئی گھروں میں جہاں لڑکے پرائمری پاس نہیں کر رہے وہاں بیٹیاں وظیفے حاصل کر رہی تھیں۔ جن چند مثالوں کا میں گواہ ہوں ان میں لڑکیوں کے گھر والوں کا صرف اتنا کردار تھا کہ انہوں نے ان کو سکول جانے سے نہیں روکا یا شاید ان کا اس طرف دھیان نہیں گیا۔ لڑکیوں کو سکول اور کالج پہنچنے کے لیے طویل مسافت، اساتذہ کی کمی، لائبریریوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل درپیش تھے لیکن یہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے۔ لاہور میں رپورٹنگ کے دوران ایک بار اس موضوع پر اعداد و شمار جمع کرنے کی اجازت چاہی تو مدیر اعلیٰ نے کہا کہ کبھی کبھار اچھے کاموں پر خاموشی اختیار رکھنی چاہیے، شور مچنے سے کام رک جاتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اتنے برس گزرنے کے بعد معاملہ آگے جانے کی بجائے پیچھے جاتا نظر آتا ہے۔ کہیں سکول جل رہے ہیں تو کہیں لڑکیوں کے قتل کا رسم و رواج کی بنیاد پر دفاع ہو رہا۔ کچھ عرصہ قبل انگلینڈ میں ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔ افطار کی دعوت تھی۔ اسلام کی باتیں ہو رہی تھیں، جب غالباً انہوں نے اپنی کم علمی پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک طویل بھاشن دے دیا کہ تعلیم کی بھی حد ہونی چاہیے کیونکہ حد سے زیادہ تعلیم مذہب سے دور لے جاتی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہر بندہ اپنے آپ میں ایک شخصیت کے۔ کسی کو بھی حق نہیں کہ وہ کسی پر دھونس جما کر اسے تعلیم سے روکے، پر جو ایسا کرتے ہیں وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔
موڈريٹر صاحب کو گراں نہ گزرے تو عرض ہے کہ ہمارے ہاں پنجاب ميں بھائيوں کا سارا زور بہنوں پر چلتا ہے جس کي بنيادي وجہ بچپن سے ماؤں کا اپنے بيٹوں کو ُميرا شير ميرا شيرُ کے خطاب سے نواز کر بہنوں کے ليے شير اور باہر گيدڑ بنانا ہے۔ مجھ سے پوچھيں کہ کس طرح گھر ميں اپنے بھائی اور باہر دوسروں کے بھائيوں سے نبرد آزما ہو کر يونيورسٹی تک تعليم حاصل کی۔ ايک بہن جو بھائي سے ڈر گئي آج عملي زندگي ميں اگر اس کو کسي مشکل کا سامنا ہے تو بھائي حضورصرف دلاسہ تک دينا گوارہ نہيں کرتے، مذکورہ صاحب تو بہنوں کے اوپر بندوق اٹھانے کی صرف دھمکی ديتے تھے کوئی ابھی جا کر تھرڈ ائير کی ميری بہن کا خوف ديکھے جس کے راستے ميں بھائی صاحب واقعی بندوق اٹھا کر آ جاتے ہيں جو نيند ميں بھی بھائی کے خوف سے چلانا شروع ہو جاتی ہے دوسری بات يہ کہ بھائی يہ ہاؤ صرف بہنوں کے ليے ہوتے ہيں۔ اپنی بيٹيوں کی دفعہ صمً بکم” ہو جاتے ہيں جيسے کہ ميرے ميرے شوہر جو بہنوں کے تو بھائی تھے مگر بيٹيوں کو مغربی لباس پہنانے ميں بھی عار محسوس نہيں کرتے۔ ہم چاروں بہنوں نے بھائيوں کا وہ روپ ديکھا ہےاور ديکھ رہے ہيں کہ خدا کا شکر ادا کرتی ہوں ميری بيٹيوں کا کوئی بھائی نہيں
لڑکی پڑھ لکھ بھی گئی اور اوپر سے گريڈ سترہ کی نوکری بھی سے نظر تو يہی آتا ہے کہ اب کم از کم اسکے شوہر کی خير نہيں ----
اسما اور ایڈیٹر کو سلام، میری بہن میں آپ کو سلام کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ میری تمام پاکستانی بہنیں اسی طرح ہمت پکڑیں۔
اُِن صاحب کے جواب پر ميں اتنا حيران ہوں کہ سمجھ ميں نہيں آ رہا کيا لکھوں۔ اس حماقتی بيان پر۔۔۔ کسی نے درست کہا ہے کہ صفر سے ٹکراؤ گے تو صفر ہو جاؤ گے- بہتر ہے صفر صاحب کو سلام کہہ کر رخصت لے ليں- اسی ميں مذہب کي، علم کی اور آپ کی بھلائی ہے-
ہمارے گھر کبھی ايسی بات نہيں ہوئی حالانکہ ميں اپنے مطالعہ اور جس قدر مجھے علم ہے ميں چہرے کے پردہ کو واجب سمجھتا ہوں اور اپنے حاندان کی لڑکيوں کی تعليم کو فرض - مجھے اج تک سمجھ نہيں آئی لوگ توہيں رسول بھی کرتے ہيں اور خود کو مسلمان بھی کہتے ہيں - رسول اللہ صلی عليہ وسلم نے علم حاصل کرنا مرد و عورت پر فرض قرار ديا ہے-اور اس کے بعد کچھ نہيں صرف حکم مانو يا گستاخی کر کے توہيں کرو
کيا کيا جائے ہمارے معاشرہ ميں بہن کو غيرت کہنے والے بھائيوں کی کمی نہيں اور بيٹيوں کو عزت سمجھنے والے ايک ہی تو ہيں۔ بہن آپ کا بھائی نام سے نفرت کرنا بجا مگر بہنا آپکے بھائی اور شوہر محترم اس معاشرے کے رکن ہيں۔ اللہ ان بھائيوں کو ہدايت دے ورنہ ايک دن بہنيں انہيں بھائی کے رتبے سے گرا ديں گی
اسلام علیکم، یہ جو بہنوں کا خوف ہے نہ یہ سب صرف ماؤں کا قصور ہے۔ خوامخواہ لڑکوں کو ضرورت سے زیادہ سر پر چڑھاتی ہیں اور بیٹیوں پر رعب ڈالتی ہیں۔ الحمداللہ ہماری ماں تو ایسی نہیں ہیں تو یہ سب نہیں چلتا۔ نہ ہی امی ابا چلنے دیتے ہیں۔ بلا وجہ کی روک ٹوک خرابیاں ہی پیدا کرتی ہے۔ بس جب ہم خود والدین بنتے ہیں نہ تو اس وقت ماں باپ کو یا رکھنا چاہیے اور اپنے گھر کا ماحول خود بنانا چاہیے۔ پھر سبس خیریت ہے۔ وسلام حنا
آپ کے مدیرِ اعلیٰ کا فیصلہ درست تھا۔ سکول جلانے والے معاملے کی وجوہات فرق ہیں۔ دو الگ معاملہ ہیں۔ پرانے رسم رواج اور دوسرا لال مسجد آپریشن کا رد عمل۔
مجھے اقبال کا شعر یاد آ گیا۔
ہم سجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
تعلیم کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔ علم کی بنیاد پر ماننے والا اپنے خدا کو ایک ان پڑھ آدمی سے بہتر سمجھ سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کس طرح کح تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری تعلیم کی بنیاد ان اصولوں پر ہونی ۔ چاہیے جس سے ہم اچھے سائنسدان اور اچھے مسلمان بن سکیں کون سی تعلیم روز آخرت کام آیے گی اور کون سی نہیں۔
محمد ساجد دانش
بھائی ميرے يہ وہ علم نہيں ہے جس کے بارے ميں فرض ہونے کا ارشاد ہوا ہے۔ قطعی علم صرف وحی سے اور اس کی روشنی ہی ميں حاصل ہوسکتا ہے۔ اور تجربی علم آئےدن اپنے نظريات بدلتا رہتا ہے اور بدلتے وقت صرف يہی کہا جاتا ہے کہ تجربے سے يہ بات ثابت ہوتی ہے اور بس پچھلا تجربہ رد ہو جاتا ہے۔
والسلام
تمام پاکستانیوں کو سلام، یہ ایک عظیم دن ہے کہ ایک چھوٹے ضلع سے کوئی لڑکی پڑھ کر افسر تعینات ہو گئی۔ شاباش بہن۔ دوسری لڑکیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرو اور ان کے لیے مثال بن جاو۔ فرسودہ نظام تعلیم اور سہولیات ککی کمی راستے کی رکاوّ مت بننے دو۔ میں آسٹریلیا میں ہوں جہاں پہلی بار خاتون گورنر جنرل ہے اور کابینہ میں کئی حواتین ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایسا میرٹ پر ہونا چاہیے کوٹے پر نہیں جیسی مشرف حکومت میں ہوا۔
اس خبر کے جواب ميں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ تعليم جو انسان کو اسلام سے دور کرے،اس کا چھوڑ دينا بہتر ہے،
امتحان ميں کاميابی پر مبارکباد،اس اميد کے ساتھ کہ آپ لوگ ملک کو سنبھال ليں-مع السلام
ہمارے معاشرے ميں ايسی بہت سی مثاليں موجود ہيں۔ مثال کے طور پر ميری ايک کزن جس کا گھر ميں پانچواں نمبر ہے اور غربت کے باعث صرف ايک بڑی بہن اور بھائی پڑھ سکے.يہ بچی ضد کر کے پڑھنا شروع ہو گئي. اور آج يہی بچی لاہور کی ايک بڑی يونورسٹی ميں گريڈ اٹھارہ کی ملازم ہے.اپنی تعليم کے ساتھ ساتھ اس بچي نے اپنی تين بہنوں کو پڑھايا جن ميں سے دو بہنوں نے ابھی ايم اے کا امتحان پاس کيا ھے اور ان دونوں نے آج تک کسی بھی تعليمی ادارے ميں تعليم حاصل نہيں کي
اور آج جو لوگ بچيوں کی تعليم کے خلاف ہيں جو لوگ آج سکولوں کو جلا رھے ھيں وہ مسلمانوں کو ايک مقدس فرض سے روک رہے ھيں کہ جسے اللہ کے نبی نے فرض کيا ھے
چوہدري صاحب، بات يہ ہے کہ لڑکيوں کي تعليم، گرلز سکولوں کے دشمن اور کاروکاری جيسی رسومات کے حامی يہ نہيں جانتے کہ آج کی لڑکياں کل کی مائيں ہيں، انکی گود ميں مستقبل کے مقدس نقوش پرورش پائيں گے- گويا لڑکياں ملک کے مسقبل کی امانت گاہيں اور نسلِ نو کی محافظ ہيں- يہ حقيقت ہے کہ عظيم انسانوں نے جن ماؤں کی گود ميں پرورش پائی تھی وہ مائيں بھی عظيم تھيں، يہ انہی کے حسنِ تربيت کا نتيجہ تھا جس نے ان شخصيات کو نکھارا، سنوارا اور بلند کيا اور بالآخر وہ ايسے مقامات پر پہنچ گۓ جہاں تاريخ فخر کرتی ہے- علاوہ ازيں معاشرہ ميں صنف نازک کي تعليم کي اہميت کا اندازہ اس بات سے بھي بخوبی ہوتا ہے کہ عورت کے بغير انسانی زندگی کی تکميل نہيں ہوسکتي- عورت اور مرد ايک گاڑی کےدو پہيے ہيں، دونوں ميں سے ايک پہيہ ناکارہ ہو تو گاڑی منزل مقصود پر نہيں پہنچ سکتي- لہذا ان دونوں کے اشتراک سےايسا ہونا ممکن ہے- دراصل عورت کو تعليم سے ليس کرنا اصل ميں پودے کو روشنی و پانی دينا ہے! ايک باشعورعورت ايک گھر کو، چند باشعورعورتيں ايک خاندان کو اور بہت سی باشعورعورتيں پورے معاشرہ کی اخلاقی ومعاشی حالت ميں انقلابی تبديلی پيدا کرسکتی ہيں- لہذا گرلز سکولوں کي حوصلہ افزائی مقدم ثابت ہوجاتي ہے- ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ گرلز کے نصاب ميں وہ باتيں زيادہ ہونی چاھيئں جوخانہ داري، ہانڈی روٹي، گھر کے بجٹ کو درست رکھنا، اخراجات کی وسعت ميں اعتدال رکھنا، بچوں کی نگہداشت، سلائی کڑھائی وغيرہ سے تعلق رکھتی ہوں کيونکہ ايک عورت کو ان کی ضرورت اکثر وبيشتر پڑتی رہتي ہے- حاصل کلام کہ لڑکی کا پڑھ لکھ جانا بظاہر تو کوئی بڑی بات نہيں جبکہ حقيقتآ فرسودہ رسم ورواج سے بھرپور معاشرہ ميں، ملائيت کے زيرِ سايہ رہتے ہوۓ اس بات کا ہوجانا کسی بڑی بات سے قطعآ کم نہيں ہے-
محترمہ اسماء صاحبہ کی 'آپ بيتي' پڑھ کر جہاں افسوس ہوا وہيں پر خاکسار غوطہ لگانے پر مجبور ہوا ہے- خاکسار يہاں پر موصوفہ سے چند گزارشات کرنا ضروری خيال کرتا ہے- ہر بات کے، ہر مسئلہ کے، ہر الجھن کے، ہر خوف کے، ہر گُھنجل کو ديکھنے، پرکھنے يا حل کرنے کے دو پہلو ہوتے ہيں، تاريک اور روشن، مثبت اور منفي، طاقتور اور بےجان! محترمہ کے الفاظ کہ 'ہم چاروں بہنوں نے بھائيوں کا وہ روپ ديکھا ہے اور ديکھ رہے ہيں کہ خدا کا شکر ادا کرتي ہوں ميري بيٹيوں کا کوئي بھائي نہيں' سے نظر آ رہا ہے کہ مسئلہ 'تحت الشعور' ميں جا بيٹھا ہے- خاکسار کی نظر ميں محترمہ اسماء صاحبہ پر 'تاريک پہلو' قابض ہے- پہلی بات کہ گھر کا سربراہ والدين ہوتے ہيں بھائی نہيں، لہذا والدين کا بيٹيوں کو سکول بھيجنے پر راضی ہونا مگر بھائيوں کا نہ راضي ہونا کسی گنتی ميں نہيں آتا! نمبر دو محترمہ نے يہ واضح نہيں کيا کہ آخر بھائی اپنی بہن کو سکول يا کالج کيوں نہيں بھيجنا چاہتا؟؟ اگر ايسا ہے بھی تو اسکی وجہ بہن کی معاشرہ بالخصوص سرمايہ داری کے نشے ميں مدہوش معاشرہ کی 'انگارہ برساتی آنکھوں'، بےراہ روی کے شکار نوجوان لڑکوں، ويگنوں، بسوں، بس اسٹاپوں اور گرلز سکولوں و کالجوں کے باہر منڈلاتے، سرِراہ آوازے کسنے والے آوارہ مزاج، اجڈ، گنوار اور بےضمير نوجوانوں سے حفاظت فرمانا تو ايک عام، پُختہ اور ٹھوس خيال ہے! قصہ کوتاہ يہ کہ ہميں کوشش کرنی چاھيۓ کہ دونوں پہلو مدنظر رکھيں جبکہ روشن پہلو کو ترجيح ديں کيونکہ بقول برائن ٹريسي 'جيسے خيالات ويسی زندگي'-
'سب کمالات ہيں تخيل کے
ورنہ کچھ بھي نہيں حقيقت ميں'
مخلص،
نجيب الرحمان سائکو، لہور
رب ذدنی علم
علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پر فرض ھے
غير مذھبی اور سا ئنس کے ليے چين جانے کی تلکين اسلام نے متعارف کی.
بھائی ہوتے ہی سارے۔۔۔۔۔۔۔
محترم سائکو صاحب کا جواب غوطہ حاضر ہے۔
مسئلہ ميرے تحت الشعور ميں ہی بيٹھے گا جب کہ اسکے سارے پہلو تاريک ہوں۔میں ایک خاندان کا احوال سناتی ہوں۔ بوڑھے باپ کا حال ان کے گھر جا کر ديکھيں جو لڑکيوں کو جائيداد ميں حصہ دينے پر (حصہ بھي بھائيوں کے مقابلہ ميں آدھا نہيں بلکہ بہت بہت کم) ايک بھائی کے ہاتھوں سارے گھر کی چيزيں۔ فريج سے ليکر ديوار پر ٹنگی گھڑی تک کرچی کرچي کروا چکا ہے۔ دوسرے بھائی صاحب نے اسی پاداش ميں پچھلے ہفتے اپنے باپ کو اکيلے پا کر رسيوں سے ايک کمرے ميں باندھ کر اتنا مارا کہ وہ بوڑھا آدھ مويا ہو گيا۔ آس پاس ديکھنے والے سب موجود تھے کوئی بچانے نہيں آيا کسی نے چھوٹے بھائی کو خبر دی تو وہ اس وقت بچانے تو آ گيا مگر بدلے ميں اب اسکی شرائط ہيں کہ کالج کی طالبہ بہن کو فورا کالج چھڑوا ديا جائے يا پھر مجھے کار ليکر ديں تو ميں اسے چھوڑ کر آيا کروں اور ايسا کرنے کی ابو ميں سکت نہيں۔ مزيد يہ کہ اگروہ چار بہنیں اپنا حصہ بھائيوں کو دے بھی ديں تو بھی مسئلہ حل نہيں ہو سکتا کيونکہ چھوٹا بھائی ڈيمانڈ کرتا ہے کہ مجھے بہنوں کا حصہ مل جائے جبکہ بڑا بھائی جو کہ بڑی بہن کا سوتیلا بھائی اور ابو کا سگا بيٹا ہے اور چھوٹے بھائی کی نسبت دگنے حصے کا مالک ہے اسکی ڈيمانڈہے کہ سارے حصے بشمول چھوٹے بھائی کے ميرا حق ہے اور يہ سب ماں باپ اور بھائی کو قتل کرکے حاصل کروں گا سنا ہے گزشتہ تين دن سے چھری ليکر گھر کے باہر گھوم رہا ہے پوليس کا کہنا ہے کہ اس نے جتنی مار کٹائی کی بظاہر ابو کو کوئی زخم نہيں آيا اور يہ کہ وہ قتل کی دھمکی دے رہا ہے قتل کر تو نہيں ديا اسليے ہم کچھ نہيں کر سکتے `گھر کا سربراہ` اپني ذلت پر روز روتا ہےاور مارے خوف کے امي ابو نے خود کوگھر ميں محصور کر ليا ہے اب بڑے بھائی نے کہہ ديا ہے يہ جو کالج جاتی ہے اس کا حشر ديکھنا اب آپ اس سارے واقعے ميں بہنوں کا قصور بمع `روشن پہلو` تلاش کر کے ديکھائيں مزيد آپ کی نالج ميں کوئی فورم ہو پاکستان ميں اس مسئلے کی مدد کے ليے تو بتائيں پھر ميں مانوں گی کہ آپ سائکو نہيں ہيں
خدا کے لیے لڑکیوں کی تعلیم کو روک کر ایک جاہل قوم کو پروان نہ چڑھاؤ۔
اسد صاحب آپ نے جو لِکھا وہ تو جو بھی ہے وہ ايک طرف جہاں انتہائی خُوش کُن اور قابلِ تحسين ہے وہيں جواب آں غزل کے طور پر ميری پياری بہن اسماء نے جو حقائق بيان کِۓ ہيں پڑھ کر جہاں دِل کے ہزار ٹُکڑے ہو گۓ وہيں مُجھے اِس وقت يہ سوچ کر اِتنی تکليف ہو رہی ہے کہ اسماء آپ وطن سے دُور نا صِرف بہن کے لِۓ بلکہ امّی ابو کے لِۓ بھی کِتنی پريشان ہو رہی ہوں گی بيٹياں ويسے بھی ماں باپ کے بہت قريب ہوتی ہيں باوجُود اِس کے کہ اُن کے ساتھ امتيازی برتاؤ کيا جاتا ہے پھر بھی دِل اُن کی پريشانيوں پر ايسے تڑپتا ہے کہ بس نہيں چلتا ان کو سکون دينے کے لِۓ کيا نا کر ڈاليں اِس وقت جو حالات اسماء آپ کے گھر ميں ہيں ميں سمجھ سکتی ہُوں آپ کے دِل کی حالت اور دُعا ہی کر سکتی ہُوں آپ نے تو يہ حالات لِکھ دِیے ليکِن ناجانے اور ايسی کِتنی ان کہی داستانيں ہوں گی جو اِن راجوں کے ہاتھوں کہيں دِلوں ميں پوشيدہ ہوں گی۔ آپ نے آدھی جائيداد کی بات کی يا اُس سے بھی کم يہاں تو کبھی جائيداد بيٹيوں کو دينے کی بات ہی کوئی نہيں سوچتا نا آدھی نا آدھی سے بھی کم اور اور يہ صِرف ايک گھر کی نہيں قريب قريب ہر گھر کی کہانی ہے ليکِن کيا کريں معاشرہ اور اِس کے دستُور ہی ايسے ہيں
خير انديش
شاہدہ اکرم
لڑکیوں کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ یہ پاکستان کو مشکل سے نککالنے کے لیے ضروری ہے۔ انگلستان میں عورتیں مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی۔۔۔
تعلیم ضروری ہے۔ لیکن لڑکیوں کے لیے تعلیم کے بعد نوکری ضروری نہیں اور نہ ہی ضروری ہونا چاہیے۔
لڑکیوں کو دفتر میں کئی طرح سے حراساں کیا جاتا ہے ہا ں اگر دفتر میں صرف خواتین ہوں تو بات مختلف ہے۔
قيامت کی نشانيوں ميں سے ايک يہ بھی ہے اس بيٹے اور بھائی کے ھاتھ کيوں نہيں ٹوٹے جو اپنے والدين پر اٹھے اور جو بھائی بہنوں کا حصہ نہ ديں وہ غيرت مند کيونکر ہوئے بہنوں کا مال کھانے والوں کا معاشرے ميں ايک نام ہے جو انہی پہ لاگو ہوتا ہے بہن و بيٹی پر ظلم اور اس کا حق کھانے والے کی بخشش نہيں ہو گی چھری مار بيٹا و بھائی بزدل و کمينہ ہے جو کزوروں پر ھاتھ اٹھاتا وہ نہ مرد نہ انسان مسلمان تو دور کی بات ہے اللہ تمام بہنوں کے بھائيوں کو صرف انسان بننے کی توفيق عطا فرمائے۔ امين