کون کس کے اثر میں
مسلمان ملکوں میں امریکہ سے متعلق آج تک جتنے رائے عامہ کے جائزے کرائے گئے ہر بار یہ بات ظاہر ہوئی کہ بیشتر مسلمان امریکہ مخالف ہیں اور اپنے لوگوں میں امریکی اثر کو زائل کرنے میں ہمیشہ کوشاں دکھائی دیتے میں۔
نائن الیون کے بعد امریکی مخالفت میں شدت آگئی کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر القائدہ کے حملوں کے بعد نہ صرف بیشتر مسلمانوں کی شامت آگئی بلکہ ہر جائز یاناجائز تحریک دہشت گردی کے زمرے میں ڈالی گئی۔
مگراسلامی دنیا پر نظر ڈالئے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تمام تر اسلامی دنیا کا انحصارامریکہ پر ہے اور بیشتر ملکوں میں پرندے امریکی اجازت کے بغیر پر نہیں ہلا سکتے۔
ان ملکوں میں ہمیشہ مغربی اور امریکی میڈیا کو غلط سلط اثر ڈالنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے حالانکہ ڈریس کورڈ سے لے کر میکڈونلڈ کے کھانے پینے کا رواج عروج پر ہے جو متوسط خاندانوں کا اب سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔
خیال یہ تھا کہ اسلامی مملکتوں کی صرف سیاست ہی امریکی انتظامیہ کی مرہون منت ہیں اور اس کے عوض پیٹرو ڈالر سے لےکر اسلحہ کی منڈی کا امریکی کاروبار خوب چلتا ہے مگر اب یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکی معیشت کے جال میں پوری دنیا کی معیشت پھنسی ہوئی ہے جسکا تماشہ گزشتہ کئی روز سے عالمی منڈیوں کے تانڈو ناچ سے دیکھا جارہا ہے اور جسے گلوبل ایکونامی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یوروپی ملکوں کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ یورو کرنسی اور یونین کے مظبوط ہونے کےبعدیہ کسی حد تک امریکی انحصار سے خود کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگۓ ہیں لیکن وال سٹریٹ کے حالیہ بحران نے اسے غلط ثابت کردیا۔ایک بنک کے دیوالیہ ہونے سے ان کے مالیاتی ادارے تاش کے پتوں کی طرح گرنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ برطانوی وزیراعظم کو دہشت گردی قانون کا سہارا لے کر آئس لینڈ سے حساب چکاناپڑا۔
غریب ممالک جیسے پاکستان بنگلہ دیش یا بھارت تو معیشت کے میدان میں آجکل قلابے کھا رہے ہیں البتہ لوگ یہ کہتے تھکتے نہیں کہ امریکی تہذیب کےاثر سے بیشتر قومیں پاک ہورہی ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
السلامُ عليکُم، نعيمہ جی اکانومی کا اُترتا چڑھتا بُھوت جيسے اِس وقت ساری دُنيا کو اپنی لپيٹ ميں لے چُکا ہے،گو وُہ ايک حيران کُن بات تو ہے ليکن ہے بےحد زبر دست کہ اِس سب کی وجہ سے ہمارے عِلاوہ باقی دُنيا کو بھی کم ازکم آٹے دال کا بھاؤ تو نہيں مگر کُچھ نا کُچھ تو سبق مل رہا ہے اور چليں کُچھ تو ہميں بھی ٹھنڈ پڑے گی۔ اب پليز يہ نا کہنا کہ باقی مُسلمانوں کی طرح ہم بھی امريکی اثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ کيا کريں مُسلمان ہيں تو جو بات دِل کو نا اچھی لگے کيسے اچھا کہہ سکتے ہيں اور چُونکہ عوام ميں سے ہيں تو خواص سی بات کيسے کر سکتے ہيں ؟
مع السلام
شاہدہ اکرم
نعيمہ بہن
اس طرح تو سيانے معاللج بيماری کی تشخيص نہيں کرتے جس طرح آپ نے امريکہ اور اس کے مرہون معاشی بدحالی کے شکار کے نظام کا ايکسرے کرکے کيا ہے- غريبوں کا کيا وہ تو جوتے بھی کھاتے ہيں اور پياز بھي
شکر گزار
مياں آصف محمود