جواب شکوہ
جب سے بگرام آیا ہوں قارئین کی جانب سے میرے بلاگز پر کافی دلچسپ اور تنقیدی نکات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کوئی میری رپوٹوں کے ذریعے میری غیرجانبداری کو چانچنے کی دھمکی دے رہا ہے تو کوئی افغانستان کے مسائل کا حل تمام فریقین کو مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ پر لانے کی تجویز دے رہا ہے۔،
ایک آدھ میری جانب سے پاکستانی عسکریت پسندوں کو 'جہادی' کہنے پر اعتراض کر رہا ہے تو بعض دیگر معزز قارئین ماضی کی ایسی کوششوں سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں کہ جس میں صحافی نئی بات نہیں کہہ سکے۔
سب کی رائے سر آنکھوں پر۔ لیکن بہتر ہے واضع کر دوں کہ مجھ خود بھی سچ کہنے اور حل تجویز کرنے کی خواہش ہے۔ لیکن صحافی میرے خیال میں جج ہرگز نہیں ہوتے کہ فیصلے کرتے پھریں۔ ان کی ذمہ داری محض حالات و واقعات کی درست اور اصل تصویر لوگوں کے سامنے رکھنے کی ہے۔
اگر ہمارے قاریئن 'امبیڈ' کی اصطلاح کو سمجھتے ہوں تو انہیں معلوم ہوگا کہ آج دنیا میں کوئی بھی فوج اس 'محدود سہولت' کی صحافیوں کو پیشکش ویسے ہی نہیں کرتی۔ وہ بھی جو وہ اپنے مفاد میں سمجھتی ہے اسے دنیا کو ہمارے ذریعے دیکھنا چاہتی ہے۔ جیسے کہ میں نے اپنے پہلے بلاگ میں لکھا تھا یہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ صحافیوں پر اتنی پابندیاں عائد کر دیتی ہے کہ آزادنہ رپورٹنگ تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے صحافی اس سہولت کو لینے سے پھر بھی انکار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ہے کہ میدان جنگ تک محدود سہی یہ رسائی کوئی کوئی فراہم کرتا ہے۔
ورنہ ہمارے پاس پاکستان کی مثال موجود ہے جہاں گزشتہ سات برسوں کی لڑائی میں صحافیوں کو اکثر اوقات محض فریقین کے اونچے اونچے دعووں اور ان کی تردید ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اب کل کی مثال ہی لے لیں۔ پاکستانی فوج کا دعویٰ کہ اس نے سوات میں ساٹھ عسکریت پسند ہلاک کر دیئے۔ اس کی بیان کی تصدیق کوئی صحافی کیسے کر سکتا ہے؟ میرے اس دورے کو محض ایک 'سرکاری دورہ' سمجھیں اور بس۔ میں بھی صرف وہ بتا سکوں گا جو دکھایا جائے گا۔ میں اپنی سطح پر اسے پرکھ تو سکتا ہوں لیکن فیصلہ صادر نہیں کرسکوں گا کہ آیا یہ سچ ہے یا جھوٹ۔ میری اس سفری داستان کو صرف معلومات کے لیے پڑھیں کہ اتحادی کیا کچھ کس طرح کر رہے ہیں۔ فیصلہ آپ نے ان حقائق کی بنیاد پر خود کرنا ہے، خود رائے قائم کرنی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بس آپ ادھر سے بچ کر خير خيريت سے واپس آ جائيں يہی کافی ہے معلومات کے غلط صحيح کے چکر ميں نہ پڑيں۔ ہميں اس سے کوئی خاص فرق نہيں پڑتا
جنوبی ایشیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔ جس طرح یہ لوگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس طرح یہ اگلہ سو سال میں بھی حل نہ ہوگا۔ انڈیا، پاکستان، ایران سمیت ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔ ان کے علاوہ جو فریق ہیں ان کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ناٹو کو چاہییے کے پہلے ان جنگی سرداروں کے بارے میں کچھ کریں جو کئی صوبوں پر قابض ہیں اور سب غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں۔ پانچ بڑے اسلامی ممالک کو چاہیے کہ سعودی عرب میں طالبان کے ساتھ بات چیت میں شریک ہوں۔ اگلے تین ماہ تک فریقین کی طرف سے جنگ بندی کی جائے۔ تمام امریکی اور غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔
ہارون صاحب،آپ ان لوگوں کی باتوں کا برا نہ منائيںـ آرام سے کام کريں اور خيريت سے واپس آئيں۔
'عبث ہے شکوہ تقدير يزداں
تو خود تقدير يزداں کيوں نہيں ہے'
محترم ہارون رشيد صاحب، حوصلہ افزا آداب قبول فرمايۓ! مودبانہ رقم طراز ہوں کہ زندگی ايک طرح سے 'بُل فائٹنگ' ہے- صحافتی زندگی ہو، سياسی زندگی ہو، نجی زندگی ہو اور يا پھر پيشہ ورانہ زندگی ہو، انسان کو ہر قدم پر چيلينج درپيش ہوتے ہيں جيسے آپ کو افغانستان ميں فوج وحکومت کی سخت پابنديوں کے سائے ميں اپنے 'صحافتی حلف' کی برقرای کا چيلنج درپيش ہے- کوئی بھی انسان پيش آنے والے چيلنجوں کا سامنا کيسے کرتا ہے، اسی بات سے اس کے زندگی اور طرزِ نگاہ بارے رويۓ کا تعين ہوتا ہے- انسان کو پيش آنے والا چيلنج بھی ايک طرح سے 'بُل' يا سانڈ ہوتا ہے جسے اسے زير کرنا ہوتا ہے اور اگر انسان اسے زير نہ کرسکے تو پھر وہ چيلنج گسکو زير کر لے گا! چيلنج يا 'بُل' کا سامنا کرنے کيلۓ ہر بندہ مختلف داؤ پيچ لڑاتا ہے- بعض بُل يا سانڈ کو سيدھے سينگوں سے پکڑ کر اس کے حملے کو روکنے اور اسے گرانے کی کوشش کرتے ہيں- جبکہ اکثر افراد 'لال کپڑے' کا سہارا ليتے ہيں اور سانڈ کو 'جھکاني' يعني جھانسہ دے دے کر تھکا ديتے ہيں اور موقع پاتے ہيں نيزہ اسکے جسم ميں گاڑھ ديتے ہيں- کہنے کا مقصد يہ کہ انسان کيلۓ زندگی سے گريز ممکن نہيں، زندگی کے دريا ميں چھلانگ لگائے بغير چارہ نہيں ہوتا اور جب ہم دريا ميں ہيں تو پھر اس کی لہروں سے لڑے بغير 'سُرخرو' نہيں ہوسکتے- محترم ہارون صاحب، ہميں معلوم ہے کہ آپ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہيں، باپ، بھائي، کا رتبہ رکھتے ہوں گے، فيملی رکھتے ہوں گے، پيٹ آپکو ہماري طرح لگا ہوا ہے، دھمکيوں، جان و مال، اغوا وغيرہ کا بھی آپکو بحثيت صحافی خطرہ رہتا ہوگا- خاکسار آپ سے صرف يہ پرارتھنا کرتا ہے کہ کوشش کيجئے گا کہ آپ اشارہ کنايہ ميں، 'لال کپڑا' استعمال کرکے سچ کواور اپنی ديکھی گئی تلخ وترش حقيقت کو کسي نہ کسي طرح، علامتي طرز اپنا کر، اشارہ کنايہ کا استعمال کرکے، 'بلواسطہ' طريقہء انتخاب کے ذريعے بيان کريں- اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپکو ہمت و حوصلہ دے، 'زرد رپورٹنگ' سے بچائے اور ضمير کے کچوکوں سے محفوظ رکھے- امين!
دعا گو،
نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان
ہارون صاحب چوری چھپے ”تھوڑا” سچ تو لکھ سکتے ہيں جسن طرح آپ نے جلال آباد کے ہوائی اڈے سے اس ”نامعلوم” شخص سے اگلواليا کہ وہ غلامی ميں رہ رہا ہے-
آپ کا بلاگ بلاشبہ آپکي خدمات کي غمازی کرتا ہے افغانستان کے منظرپر اپ کا تجربہ اور مشاہدہ قابل داد ہے ساری ٹيڑھی کھير افغانوں سے نابلد منصبداروں کی بنائی گئی ہے جس ميں مزيد ميوہجات اور ورق چاندی و طلائی کے اضافے جاہل علماء کرام اور ہمسايہ ممالک کے سياستدانوں کی پيشکش ہے۔ ويسے افغان خود بھی کچھ ايسی ناگفتہ صورتحال پيدا کرکے خوش رہتے ہيں۔ ايسے ميں نقصان پاکستان کا بہت بڑا ہوا ہماری پٹھان رعايا ان کی وجوہ باغی ہوئی اور اب سارے قبائلی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے جارہے ہے۔ گاندھي جی، باچہ خان اور قائداعظم کی عدم تشدد کا سيکھا سب فراموش کرديا گيا۔ بس سمجھيے کہ آتش فشان افغانستان ميں پھوٹ پاکستان پر لاوا باری کيے جا رہا ہے اس کی وجہ؟ پٹھان کا سفيد پوش ہوجانا ہے جس وجوہ اب وہ خود اپنا متلاشی بنا ہے يہ تلاش پھر سے گھڑ سوار تلوار برداروں کی فوج بنا„ايمان لاؤ„ چلاتے پاکستان اور بھارت کو روندنے کی چاہت ہے-جسےامريکہ پتھر کے عہد کو عود کہتا ہے
ہارون بھائی ھماری دعايئں آپکے ساتھ ہيں جيت ہميشہ سچ کی ہوتی ہے
ہارون صاحب آپ کیا صفائیوں میں لگ گئے، اپ اپنا کام کریں آپ جس مقصد کےلیے گئے ہیں اسے ادا کریں۔ میں ایک صحافی تو نہیں لیکن ایک صحافی کے گھر میں ضرور پیدا ہوا ہوں۔آپ امریکیوں پر نظر ڈالیں ان کا کیا مقصد ہے وہ اپ کے اس دورے سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہے۔ اپ چونکہ قبائلی امور کے ماہر ہے اور اپ کو قبائلی علاقوں کےلیے بی بی سی کے بیسٹ رپورٹر کا ایوارڈ بھی ملا ہے اس لیے اپ سے بہتر افغانستان کی صورتحال کون جان سکتا ہے۔
آپ پاکستانی ہونے کے ناطے یہ عوام کو بتانے کی کوشش کریں کہ بھٹو خاندان کو کیوں کر ایک ایک کر کے قتل کیا گیا۔ اور بعد میں آپ کی ذمہ داری ہے پڑوس کی خبر گیری کرنے کی۔
جسٹ چل اينڑ انجواۓ
ہارون صاحب، آپ وہاں معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ کرزئی صاحب طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں کہ نہیں، کیونکہ ان کو مزید افغانستان کا صدر بھی ہے۔۔۔ ویسے وہ بھی پشتون ہے اور طالبان تمام پشتون ہیں۔
بھائی جان ميں آپ کی کوششوں کی دل سے قدر کرتا ہوں
میری اردو تھوڑی کمزور ہے پر ایک شعر ہے کہ ’ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔۔‘
یہاں تو آپ کے پاس نظر کی سہولت بھی موجود نہیں ہے، اس لیے جو نظر آتا ہے اسی کو پیش کر کے اپنا اور ہمارا قیمتی وقت ذائع کریں۔
صرف سچ لکھنے کی کوشش کریں اور اپنا خئال رکھیں۔
I am shocked when I see people saying that 'Afghans are slaves of Americans'. We should first see the cause of that. We are the people who have thrown Afghans into 'slavery'. Haroon Rasheed Sb, you keep your work up and don't think of such objections.
سلام،
ایران کے صدر جناب احمدی نژاد جب امریکہ میں یونیورسٹی میں ایک مناظرہ ٹائپ انٹرویو کے لیے بلائے گئے اور جب انہوں نے وہاں منطقی، عقلی، علمی دلائل سے وہاں کے منتظمین کو لاجواب کردیا تو ان کے امریکہ سے جانے کے بعد ایک بڑا محاز کھڑا ہوگیا اور وہاں کے منتظمین کی سر پر آگئی کہ اب اس کو کیسے سنبھالیں اور عوام کو کیسے مطمئن کریں۔ سب سے بڑی مشکل جو ان کے لئے بنی ان سٹوڈنٹس کی تھی جو اسلام کو جاننے کے لئے کتابوں اور اسلامی ویب سائٹس کے ذریعے حقائق کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔اور اس سب مصیبت کا بالآخر انہوں نے ایک حل نکال لیا کہ سب کوجمع کرکے ایک ویڈیو فلم چلا دی جس میں طالبان مبینہ طور پر تکبیر کہہ کر لوگوں کو ذبح کر رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر اکثریت ہی نے دین اسلام کی مزید تحقیق ہی سے نہ صرف توبہ کرلی بلکہ دین ااسلام کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے قلم بھی اٹھا لیا۔
طالبان کو صرف ایک پیغام دے دیں کہ حقیقی اسلام کو اپنائیں ۔کیا رسول خدا (ص) کا یہی دین تھا؟ یا انہوں نے غیرمسلموں کہ بھی پناہ دی اور ان سے صلہ رحمی سے پیش آئے اور اسی سے لوگوں نے متاثر ہو کر دین قبول کیا۔ انہوں نے اور یقیناً آپ کے آبا و اجداد بھی اس میں شامل ہیں۔اگر آپ لوگ واقعی خدا کو مانتے ہیں قیامت پر اعتقاد رکھتے ہیں تو اس بے دینی سے بعض آئیں بارود کے بجائے اپنے اخلاق سے لوگوں تبلیغ کریں۔ والسلام
ہارون صاحب، اللہ آپ کو حفاظت کے ساتھ واپس پہنچا دے۔
محترم ہارون رشيد صاحب
سلام مسنون،
آپ ہی نے تو کہا ہے کہ آپ ’امبيڈ‘کو ’ان بيڈ‘ گردانتے ہيں، بے شک ايک صحافی ججوں کی طرح فيصلے صادر نہيں فرماتا ہے بلکہ وہی کچھ بتاتا ہے جو کہ اس نے ديکھا اور محسوس کيا ہے۔ آپ کی ديانت داری سے ہميں انکار نہيں ہے مگر يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا کو آپ وہی دکھايا جائے گا جو اصل ميں ہوتا ہے ؟ ہوسکتا ہے آپ کو يا پھر صحافيوں کی ٹيم کو اندر لے جانے سے پہلے وہ بھر پور انتطام کرليے جائیں جو يہ ثابت کرتے ہوں کہ وہاں ايسا کچھ بھی نہيں ہوتا جيسا کہ کہا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو وہ خفيہ بيرک ہی نہ دکھائیں جائیں جہاں ان کے اذيت خانے موجود ہوں اور ہوسکتا ہے کہ آپ کو صرف ايسے ہي قيديوں سے ملايا جائےجو سرے سے قيدی ہی نہ ہوں بلکہ ان کے ايجنٹ ہوں اور جيل کو جنت نظير ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو قيديوں کی ايسی فہرست دی جائے جو کسی بھی طرح اصل نہ ہو۔
جب کرنے اور نہ کرنے والے کاموں کی اتنی طويل فہرست آپ کو تھمائی جاسکتی ہے اور پابنديوں کے ايک لا متناہی سلسلے سے آپ کو جوڑا جاسکتا ہے تو پھر ان کے لیے يہ بھی تو ايک جز لاينفک ٹھہرا کہ اپنے آپ کو دنيا کی سب سے معزز اور انسانی حقوق کی سب سے زيادہ پاسداری کرنے والی قوم ثابت کرنے کے لیے جامع انتظام کيے جائیں۔ ايسا کرنا کيا بڑی بات ہوگی؟ بہرحال آپ شخصي طور پر يعني بذات خود معاملات کي جانچ کے لیے وہاں ہيں، جيل کے اندر کچھ تو ايسی چيزيں ملينگی جو لفافہ ديکھ کر مضمون بھانپ جانے کا کليو فراہم کرتی ہوں؟
قيديوں سے ملاقات کے پروگرام ميں کسی بھی طرح کی توقع نہيں کی جاسکتی ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ لوٹنے کے بعد ہوسکتا ہے آپ کو اسي جيل کے کچھ ايسے قيديوں سے ملنے کا اتفاق ہوجائے جو اسرار کے پردے ہٹانے ميں آپ کی مدد کرسکتے ہوں۔ آپ کو تو بخوبی پتہ ہوگا کہ ڈاکٹر عافيہ کی اذيت ناک چيخيں ايک صحافی ہی نے تو سنی تھيں اور اسی نے تو دنيا کو بتايا کہ ايک اعلي تعليم يافتہ، معقول مگر کمزور سي خاتون کو کس وحشيانہ سلوک سے دوچار کرديا گيا ۔ بی بی سی نے قيد و بند کی اذيتوں سے دوچار اس خاتون کی جو تصوير جاری کیں کيا وہ چيخ چيخ کر يہ اعلان نہيں کرتی کہ وہ ايک قيد خانہ نہيں بلکہ ہولناک اذيت خانہ ہے؟ ايسا اذيت خانہ جہاں انسان نما درندے انسانيت کی کھلے عام دھجياں اڑاتے ہيں اور شيطان دور کھڑا سکتے کے عالم ميں نہايت ہی متوحش نظروں سے ان انسانوں کو ديکھتا جاتا ہے اور سوچتا جاتا ہے کہ کيا يہ وہی اشرف المخلوقات ہے جس کو بہکانے کا ذمہ ميں نے ليا تھا؟
خير انديش سجادالحسينن حيدرآباد دکن
محترم ہارون رشيد صاحب، آداب عرض!
انتہائي مودبانہ عرض کرنے کي خاکسار جسارت چاہتا ہے کہ آپ جس مقصد کيلیے افغانستان کے سرحدی ايريا ميں پہنچے ہيں وہ مقصد ہی بذاتِ خود بہت عظيم ہے اور کسی بھی طرح کشمير 'فتح' کرنے سے کم حيثيت نہيں رکھتا۔ نيز اس مقصد کا بلواسطہ تعلق پاکستان کی سلامتی سے بھی وابستہ ہے۔ اور يہی وجہ ہے کہ خاکسار کی طرح ديگر معزز قارئين آپکی رپورٹ کے بے چينی سے منتظر ہيں۔ آپ سے خصوصي طور يہ پرارتھنا بھي ہے کہ وہاں اتحادي افواج اور کرزئي حکومت کے 'پراپيگنڈہ' کا جائزہ باريک بيني سے ليں کہ وہاں کے پراپيگنڈہ کا جھکاؤ پاکستان کے قبائلي علاقوں پر حملہ کي ترغيب ديتا ہے يا نہيں؟ ہارون صاحب، ايک بات اور کہ آپکے بلاگ کے الفاظ و مندرجات، آپکا ميدان جنگ ميں ہونا جہاں پر ہر وقت خودکش حملوں کا خوف، بارودی سرنگوں کے جال، فوجی طياروں کی چنگھاڑ، گوليوں کی گڑگڑاھٹ، اتحادی فوج کا بيزار اور خشک رويہ، فرائض منصبی ميں درپيش افغانستان حکومت اور اتحادی فوج کی عائدہ کردہ پابندياں، معزز قارئين کے آپکے بلاگ پر حوصلہ افزا و حوصلہ شکن تبصروں کا امتزاج اور سب سے بڑھ کر بلاگ کے ساتھ آپکی تصوير جسميں آپ کچھ سہمے سہمے سے دکھائی ديتے ہيں، سے خاکسار ضروری سمجھتا ہے کہ آپکو 'ہِلا شيري' دي جاۓ۔ اسي ضمن ميں آپکے حوصلہ و ہمت کی بڑھوتری کی غرض سے ايک خوبصورت اور زبردست فيڈبيک دينے والا گيت جو مہندر کپور نےگايا ہے فدوی آپکی خدمت ميں لے کر حاضر ہوا ہے تاکہ آپ کے خيالات وسوچ کا محور مزيد اونچا ہوسکے۔ ويسے يہ ايک ماني ہوئي حقيقت تو آپکے علم ميں بھي ضرور ہوگي کہ بقول برائن ٹريسي، 'جيسے خيالات ويسي زندگي'۔۔ آئيے مہندرکپور کو پڑھيں کہ وہ کيسی زبردست نفسيات کا استعمال کرکے بجھے ہوئے چہروں ميں کس خوبصورتي سے زندگي کي رمق پيدا کرديتا ہے:
'او نديا چلے، چلے رے دھارا
گنگا چلے، چلے رے دھارا
تجھ کو چلنا ہوگا
جيون کہيں بھی ٹھرتا نہيں ہے
آندھی سے طوفان ڈرتا نہيں ہے
تو نہ چلے گا تو چل ديں گی راہيں
منزل کو ترسيں کی تيری نگاہیں
تجھ کو چلنا ہوگا
باندھ تو کيا بہہ جائے کنارہ
بڑی ہے تيز سمے کی يہ دھارا
تجھ کو چلنا ہوگا،
ہاں، تجھ کو چلنا ہوگا۔۔۔'
انتہائی مخلص،
نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان