فریڈم از ناٹ فری''
جلال آباد سے شنوک ہیلی کاپٹر میں آدھی رات کو صوبہ کنڑ میں بوسٹک کے فوجی اڈے پر لایا گیا ہوں۔ اس دو پروں والے ہیلی کاپٹر کو پاکستان میں تین برس قبل امدادی سرگرمیاں تو کرتے تو دیکھا تھا لیکن میدان جنگ میں آج مشاہدے کا موقع ملا۔
رات کی گھُٹ تاریکی میں اس تقریباً چالیس منٹ کے سفر کی قابل ذکر بات جلال آباد کے قریب اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد اس پر نامعلوم افراد کی جانب سے گولیوں چلنا تھا۔ جواب میں رات کی تاریکی میں دیکھنے والی دوربین پہنے دو فوجی کی جانب سے بھی ہیلی کاپٹر کے دائیں بائیں اطراف سے گولیوں کی جوابی بوچھاڑ ہوئی۔ یہ تمام سفر اس ہیلی کاپٹر نے جلال آباد اور پھر کنڑ کے تنگ پہاڑی سلسلوں میں کیا۔ بعض اوقات پہاڑ اتنے قریب اور اونچے تھے کہ محسوس ہوا اگر کوئی اس 'دیو ہیلی پرندے' کو نشانہ بنانا چاہے تو بڑی آسانی سے بنا سکتا ہے۔ تاہم خیریت رہی۔ دو شنوکس کے اس قافلے نے پہلے مونٹی نامی اڈے پر چند فوجیوں اور سامان کو اتارا اور بعد میں ہمیں بوسٹک نامی فاروڈ آپریٹنگ بیس پہنچایا۔ اس بیس کا یہ نام کیوں رکھا اس کی سمجھ آج صبح آئی جب میرے خیمے کے قریب ہی جونیر میجر تھامس بوسٹک کی یادگاری تختی دکھائی دی۔ یہ امریکی فوجی دو ہزار سات میں نورستان میں ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا تھا۔ اس تختی پر ایک عبارت یہ بھی لکھی تھی 'آذادی مفت نہیں ہے' یعنی فریڈم از ناٹ فری۔' چاروں اطراف سے اونچے پہاڑوں میں گہرا یہ اڈہ ایک چھوٹی سے وادی ہے۔ قریب میں ایک گاؤں بھی ہے جس کے مکانات سے کیمپ کے اندر باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سرحد اب چند کلومیٹر کی دوری پر رہ گئی ہے۔ دو قدرے چھوٹے پہاڑوں کے پیچھے ایک اونچے پہاڑ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان ہے۔ ان پہاڑوں پر چرواہے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر ان پہاڑوں سے اس بیس کو کوئی نشانہ بنانا چاہیے تو پھر کہوں گا کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ اسی طرح کے ویگل نامی ایک فوجی اڈے کا چند ماہ قبل تقریبا سو کے قریب مشتبہ طالبان نے مکمل صفایا کر دیا تھا۔ کیمپ میں چھتوں پر رڈار اور کیمرے جیسی کئی عجیب غریب چیزیں دکھائی دیتی ہے جن کی مدد سے یقینا اطراف پر نظر رکھی جاتی ہوگی۔ لیکن یہاں موجودگی ہی ان فوجیوں کے اس علاقے میں آباد لوگوں پر اعتماد کا شاید مکمل اظہار ہے کہ وہ یہاں بیٹھے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب! لگتا ہے آپ پر اتحادی فوج نے اپنا ’جادو‘ بالآخر چلا ہی ديا ہے اور وہ آپکو اپنی ’لائن‘ پر لانے ميں کامياب نظر آتے ہيں۔ ہيلی کاپٹر ميں جو فائرنگ آپ نے سُنی اس سے بظاہر تو يہی دکھائی ديتا ہے کہ ’طالبان‘ ہيں ليکن يہ بھی تو قياس کيا جا سکتا ہے کہ وہ سی آئی اے کے ’ٹرينڈ ايجنٹ‘ ہوں! جو آپکو جھکانی دينا چاہتے ہوں! بحثيت مجموعی آپ امريکی فوج کی مہمان نوازی سے متاثر نظر آرہے ہيں!
آزادی مفت نہیں يا ہر غلام بنانا مفت نہیں، يہی الفاظ روسيوں کے بھی تھے، ليکن ميری غيور قوم کو غلام بنانا مفت نہیں۔۔۔
ہارون رشید صاحب! آج کل کے حالات میں آپ کے سچ لکھنے کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔
پاکستانی ہوں يا افغاني، مسلمان ہوں يا غير مسلم، سب اپنے اپنے دل کو ٹٹوليں، غور کريں اور بتائيں کہ کيا امريکيوں کو یا اور کسی بھی ملک کی فوج کو يہ حق پہنچتا ہے کہ کسی کے ملک پر اس طرح قبضہ کر کے بيٹھيں؟؟ يہ کہاں کا اصول اور کون سی انسانيت ہے؟؟ اور پھر اگر اپنے دفاع اور آزادی کے لیے افغانی اور مسلمان لڑتے ہيں تو يہ جائز کيوں نہيں ہے اور وہ کون ہيں جو انہيں ’دہشت گرد‘ کہتے ہيں؟ اور اگر ايسا کہنے والے پھر مسلمان بھی ہیں تب تو انتہائی افسوس اور حيرت کی بات ہے۔
ہارون رشید صاحب اللہ آپ کی حفاظت کرے!
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادی اور محبت مفت میں نہیں ملتی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ افغانستان پر قابض امریکی اور نیٹو فوجی کس کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں! افغان عوام تو خود ان کے خلاف آزادی کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
افغانستان پر قابض امریکی فوج کو ڈک چینی، بش پالیسیوں سے آزادی کے لیے نہ جانے مزید کتنی قربانیاں دینی پڑیں گی! اپنا اور اپنی آزادی اظہار کا خیال رکھیے گا! اللہ آپ کی حفاظت کرے۔
یہ آپ بلاگ لکھ رہے ہیں یا طالبان کو امریکی اڈوں پر حملہ کرنے کے لیے جگہ کی نشان دہی کر رہے ہیں؟
محترم ہارون صاحب، امريکی فوجی کی يادگاري تختي پر ’فريڈم از ناٹ فري‘ لکھا ہونا کچھ مشکوک سا نظر نہيں آتا! ہاں اگر فوجی اپنے ملک امريکہ ميں کسی ’طالبان‘ کا نشانہ بنتا تو پھر يہ درست لکھا نظر آتا يا پھر ہو سکتا ہے وہ افغاني نژاد امريکي فوجي ہو تو بھي يادگاري الفاظ صحيح معلوم ہوتے۔ امريکہ تو افغانستان پر قابض ہے، مقبوضہ ملک ميں قابض وغيرملکی فوجيں بھی نعرہ لگا سکتی ہيں کہ وہ ’آزادي‘ کے لیے جانیں دے رہے ہیں؟؟ ويسے فدوی اگر آپکی جگہ ہوتا تو آپکی اسی رپورٹ کو کسی ’اور‘ طريقے سے لکھتا کہ جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتي۔ مثلآ آپکے الفاظ ’اڑان بھرتے ہي نامعلوم گولياں چلیں۔۔‘ کو خاکسار اس طرح لکھتا کہ ’اڑان بھرتے ہي نامعلوم گولياں چليں، مجھے ان گوليوں کي آواز ’جاني پہچاني‘ سي محسوس ہونے لگي تھي شايد ائرپورٹ پر ايسی ہی گوليوں کی آوازيں سنيں تھی يا پھر کوئی اور جگہ تھی ٹھيک طرح سے ياد نہيں۔۔۔‘
جناب جب امریکی آ کر کسی کی آزادی پر حملہ کریں گے تو ہیلی کاپٹر پر فائرنگ تو ہوگی ناں۔۔۔
پاکستان کے اتنے نذديک اڈے بنانے کی کيا ضرورت تھي؟ امريکہ کے ساتھ ہم جيسے وفادار جو ہیں۔۔۔
جناب بعض اوقات پہاڑ اتنے قریب اور اونچے تھے کہ محسوس ہوا اگر کوئی اس 'دیو ہیلی پرندے' کو نشانہ بنانا چاہے تو بڑی آسانی سے بنا سکتا ہے۔ جہاں آپ نے اپنے افسانے ميں طالبان کو دکھانا تھا وہاں نہيں دکھايا۔ جلال آباد کے قریب اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد اس پر نامعلوم افراد کی جانب سے گولیوں چلنا۔۔۔
افسانہ خود کہہ رہا ہے اپنی ناکامی کی داستاں۔
کس قدر کمزور صاحب تيرا انداز بياں