'نون قحط'
انیس سو سینتالیس میں کشمیر پر قبائیلی حملوں اور پھر بھارتی فوج کی آمد کے نتیجے میں ہونے والی مختصر جنگ کے بعد جب جہلم ویلی یا راولپنڈی روڑ پر تجارت اور بعد میں آمد و رفت بند ہوئی تو نایاب ہونے والی ضروری اشیا میں گلابی رنگ کی ایک معمولی سی شے بھی شامل تھی۔ اسے پاکستانی 'نون' کہا جاتا تھا۔
جنگ کے فوراً بعد پاکستان سے آنے والے 'راک سالٹ' یا پہاڑی نمک کی قلت کچھ ایسی صورت اختیار کر گئی کہ کشمیری رسویئوں میں ایک نئی اصطلاح کا چلن شروع ہوا، 'نون قحط'۔
اس سے قبل پاکستانی نمک راولپنڈی روڈ کے ذریعے مری سے کشمیر آتا تھا۔ اس زمانے کے کشمیری ٹرانسپورٹر چراغ دین اینڈ سنز سرینگر سے مظفرآباد لاریز چلاتے تھے، اور کہتے ہیں کہ بیل گاڑیوں پر رات گئے بھی نمک اور دیگر سامان کی نقل وحمل جاری رہتا تھا ۔۔۔ لیکن جونہی پاکستانی قبائل جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے اور جنگ چِھڑ گئی یہ آمد و رفت یکدم بند ہوگئی۔ اب اچانک کشمیر میں نمک آنا بند ہوگیا۔ اسطرح 'نون قحط' شروع ہوگیا اور اُس دور کے بعض معاصرین کے مطابق نمک نایاب ہوگیا تو لوگوں نے پکوانوں میں کچھ ایسی انگریزی ادویات ڈالنا شروع کردیں جن میں 'سوڈئیم کانٹنٹ' یا نمک کی مقدار زیادہ ہوتی۔ چونکہ پاکستانی نمک چھوٹے اور قدرے بڑے پتھروں کی شکل میں آیا کرتا، سری نگر کے چندگھرانوں میں نمک کے پتھر اب بھی موجود تھے، کسی برتن کا ڈھکن، کسی بڑی صُراحی کے اوپر۔۔۔ قحط کے دنوں میں لوگوں نے نمک کی قدر جانی اور اسے پرہیز سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس 'مین میڈ' فقدان کے بعد ہندوستانی نمک آنا شروع ہوگیا، کالا نمک، جو باجرے کے دانوں کی شکل میں راشن گھاٹوں سے دستیاب ہوا کرتا، چھٹانک بھر فی کس۔
بزرگوں کے مطابق نون قحط کوئی تین یا چار برس جاری رہا، سن پچاس کے بعد سے بھارتی تجارتی نظام اور بھارت کے ساتھ سپلائی لائن پختہ ہونے لگی اور پاکستانی نمک پر انحصار کی علامتی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔
تاہم غیر رفائنڈ 'سی سالٹ' یا سمندری نمک کی ساخت اور رنگت دونوں ہی کشمیریوں کو نہیں بھائے، اور اس ہندوستانی نمک کو کشمیری پہلے پہل دھو کر استعمال کرتے ، پھر دھیرے دھیرے عادی ہوگئے، باقی چیزوں کی طرح۔۔۔ اس دورہ کا مشاہدہ رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ تک وہ پرانا پتھریلا، سفید وگلابی پاکستانی نمک سمگل ہوکر بھی آتا رہا، لیکن بہت کم مقدار میں، سرحد پار جانا اب خطرناک جو ہوگیا تھا۔ اور کالے نمک سے عاجز یہ بڑے بوڑھے اب بھی تبرکاً گُلابی 'راک سالٹ'استمعال کرتے۔ قصہ مختصر، پاکستانی نمک دھیرے دھیرے کشمیری کچن اور ذہن دونوں سے غائب ہوگیا۔
ساٹھ برس بعد، اکیس اکتوبر دو ہزار آٹھ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے داخل ہونے والے تجارتی ٹرکوں میں سوار دیگر اشیاء میں پاکستانی نمک بھی شامل تھا۔ سنہ سینتالیس کے بعد کئی برس تک کمشیر میں پہلے'لوز' بھارتی نمک اور پھر کافی بہتر آئیوڈائزڈ ٹاٹا سالٹ کا زمانہ چلا۔۔ اس سے قبل کشمیریوں کی نون چائے مری روڈ سے آنے والے نمک ہی سے نمکین ہوا کرتی تھی۔ گویا اب اس عمومی خورد نوش کی واپسی میں ایک بھولے بسرے طرز زندگی کی علامت کی واپسی ہوئی ہے۔
ماضی میں نانیوں کے اس قیمتی اساسے 'پاکستانی نون' کی چکوٹھی سے کمان پوسٹ کے راستے دوبارہ کشمیر آمد ایک مصائب زدہ آبادی کے لیے فی الوقت نفسیاتی مداوا ہی ہوسکتا ہے۔ 'سم تھنگ ٹوُ سمائل فار اے بروٹلائزڈ پاپولیشن'، ایک ان جی او دوست نے کہا۔ لیکن کیا اس علامتی واپسی کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیری واقعتاً کراچی، دبئی اور وسط ایشیا کی دوسری عالمی منڈیوں میں اپنا فروٹ اور دیگر ساز و سامان فروخت کرسکیں گے؟ کیا اِس کشمیر کا کوئی بینک اُس کشمیر میں شاخ کھول سکےگا؟ اُس کمشیر کے لوگ اِس کشمیر میں سیاحت کے لیے آسکیں گے؟ کیا تجارتی مال کا محدود علامتی تبادلہ وسیع اقتصادی اور سیاسی شراکت بن سکتا ہے، اور کیا اس سے کشمیر کے دو حصوں کی تقسیم ختم ہو پائےگی؟
اور پھر کیا مسلہء کشمیر کا حل پرانے رابطوں اور رشتوں کی بحالی میں پنہاں ہو سکتا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
اس نمک کی اہميت کا اندازہ ہم جيسے لوگوں سے پوچھو، جن کو يورب میں يہ نمک نہیں ملتا۔ پاکستان کے پاس يہ ایک نعمت ہے۔۔۔
اب تو عام پاکستانی خود نون ميم لام حتی کہ ا سے ی تک قحط ميں مبتلا ہوچکہے چليں آپ خوشنصيب سمجھے خود کو کہ صرف نمک گل ہوا تھا يہاں تو آٹا بجلی پيسہ سب ہی غائب ہوگيے
'اميديں جب بڑھيں حد سے طلسمي سانپ ہيں زاہد
جو توڑے يہ طلسم اے دوست گنجينہ اسی کا ہے'
ہميں نمک کی اہميت معلوم ہوتی تو آج ہماری شہ رگ کشمير کے ہاں يہ تجارتی ناٹک نہ کھيلا جاتا کشميری دنيا کے طويل ترين کرفيو کے شکار نہ ہوتے صدر زرداری سےآزادی کشمير کی بابت غلط سلط باتيں منسوب نہ ہوتيں-سارا کھيل نمک کا ہی تو ہے نہ ہو تو قحط بڑھ جاۓ تو بلڈپريشر--اب جو نمک کشميريوں کے ہاتھ آہی گيا تو سمجھيۓ کہ جلد بلڈپريشر بڑھےگا توبھارتی قبضہ گرد ارض کشمير سے بھاگ چاند پر اترجاينگے---!
اصل لفظ ھے "لون" نہ کہ "نون" ۔
کشمیری لوگ نمک کی لاج ضرور رکھیں گے۔ ویسے پاکستان اور انڈیا کو چایے کے ان کوششوں کو مظبوط کریں۔
ارے بھائ اتنی تعريف نہ کريں اس نمک کي- کسی تاجر کی نظر سے آپ کا کالم گزر گيا تو پھر خدا ہی مالک ہے اس کی قيمت کا- ايک يہ نمک ہی تو صرف سستا ہے پاکستان ميں-
ادھر تو پاکستانی نمک جيسا مل جاتا ہے ذائقے کا کوئی مسئلہ نہيں ہاں البتہ مہنگا ہونے کی وجہ سے کريلے دھوتے ہوئے تبرک کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور ن کا قحط تو ہمارے ہاں پڑا ہوا ہے اسکی جگہ پی پی پی دوسرے طرح طرح کے نمک قوم پر چھڑکے جا رہی ہے
اس نمکين تجارت سے کشمیريوں کی ياديں تازہ ہو گيں مگر انہں حق خود اراديت کي طلب نمک سے ذيادہ ہے.
وحيد مرذا صاحب پڑھ کر مذا آگيا اپنے نمک کی قدر کا احساس ھوگياِِـطا رق سعيد نمائندہ روذنامہ ڈان ٹوپہ ٹيک سنگھ
ميں صرف يہ کہوں گا کہ انڈين فوج پہلے کشمير ميں داخل ھوئ تھي- نھ کھ قبائلی
مرزا ساب مينوں چنگی طراں ياد اے جدوں ميں نکا جيہا ہوندا ساں اودوں کدی کدی منہ دا سواد بدلن واسطے ميں لون والی لسی وی پيندا ہوندا ساں تے ايس مقصد لئی لسی دے گلاس وچ لون دا ڈھيلہ استعمال کردا ساں- اوس سمے اج وانگر ريڈی ميٹ لون نئيں سی ہندا، صرف نکے نکے پتھراں دی شکل ورگا لون استعمال کيتا جاندا سي- ہانڈی واسطے لون دے ڈھيلياں نوں ميں چٹھو وچ کُٹ کے باريک کردا ہندا ساں- او لون تے او زمانہ مينوں بڑا ياد آندا اے پر فسوس نظر کدھرے نئيں آندا- بہرحال جے اسيں اکھاں دے ہنجواں ول غور نال ويکھيۓ تے فير لون دی اہميت دا اندزہ اساني نال ہو جاندا اے کہ حياتي وچ لون کنا قيمتي اے ----
نمک کو لون بولتے ھيں نہ کے نون پاکستان اس کی قدر سے بھی بے زار ھيں
کيوں زخموں پر نمک چھڑکتے ہو-برطانوی راج کے اس زخم کو بی بی سی کا تبصرہ کيسے دھو سکتا ہے-
Trade between the two parts of Kashmir is a positive step which is taken by the the Pakistani and Indian governments. It will be a big relief for both the Kashmiris along the Line of Control. It will be very helpful for the economy and relationships for both ocupied parts.
اپنے ملک پاکستان سے باہر میں نے تو اس لون کا بنا ہوا یک ٹیبل لیمپ دیکھا تھا یہ ایک غیر ملکی کے دفتر میں پڑا ہوا تھا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ اس کو یہ تحفہ کراچی سے آیا ہے۔ تاجر اگر کشمیر نہیں بھیج سکا تو اس نے اس کو ملک سے باہر ایک شو پیس بنا کر بیچ دیا۔ تجارت اور تاجر یہ کہاں رکنے والی چیزیں ہیں۔
وحید مرزا صاحب، یہی تو نک تھا جو آپ کر راولپنڈی سے میڈل ایسٹ لے آیا پھر آپ امریکہ چلے گئے اور وہاں سے اب آپ کراچی چلے گئے ، کہیں یہ لیمپ آپ تو بنا کر کراچی سے میڈل ایسٹ تو نہیں بھیج رہے؟
نون اور لون یہ دونوں ہی لفظ نمک کے لے بولے جاتے ہیں لیکن علاقے ان کے مختلف ہیں