چور، کتا اور گھر کا مالک
'ایک گھر کے مالک کے پاس ایک کتا تھا۔ ایک رات ایک چور نے گھر میں گُھسنے کی کوشش کی۔ کتے نے بھونکنا شروع کر دیا۔ چور نے اسے خاموش کرنے کے لیے گوشت کا ایک ٹکڑا پھینکا۔ کتے نے گوشت کھانے سے انکار کر دیا۔
حیران چور نے پوچھا تم گوشت کیوں نہیں کھا رہے؟ کتے نے جواب دیا کہ اگر میں یہ کھانے میں لگ جاؤں تو تم میرے مالک کا سارا سامان لوٹ لو گے اور بعد میں میرے مالک کے پاس خود اور مجھے کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ میں بھوکا مر جاؤں گا۔ لہذا اس نے اور زور سے بھونکنا شروع کر دیا اور چور پکڑا گیا۔'
یہ کہانی چھپی ہے 'صدائے آزادی' نامی اتحادی افواج کے اس مرتبہ کے ایک رسالے میں۔ لیکن مجھے اس کہانی کے مقصد یا 'مورل آف دی سٹوری' سمجھنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ ہم پانچ ایک کمرے میں بیٹھے اس مثال کو سمجھنے کی کوشش ایک گھنٹے تک کرتے رہے۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس میں چور طالبان ہیں یا کوئی اور؟ کتا افغان ہیں یا امریکی؟ اور گھر کا مالک کون ہے؟
آخر میں یہ لگا کہ اس رسالے میں چھپی اس کہانی میں شاید کتا امریکی ہیں، مالک افغان اور چور طالبان ہیں۔ کیا آپ متفق ہیں اس رائے سے؟
تبصرےتبصرہ کریں
نہیں، خاکسار آپ سے متفق نہیں ہے۔ فدوي کے تفصيلی تبصرہ کے لیے آپ کو انتظار فرمانا ہوگا کيونکہ بتی جانے والی ہے۔ شکريہ۔
میرے خیال میں طالبان چور نہیں۔ تھوڑی ہمت کر کے کہہ دیں کہ افغان مالک ہیں، طالبان کتا اور امریکی چور۔۔۔ کیونکہ میرے خیال میں وہ افغانستان اس ملک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔۔۔
معزرت کے ساتھ!
آپ تو اب یہی کہیں گے۔۔۔
نہیں!
اگر اس سے ڈر کر بھاگو تو پيچھے بھاگے اور پتھر اٹھا کر ڈراؤ تو خود ڈر کر بھاگ جائے۔ اس وقت عالمی سياست ميں تو ايک ہی کتا ہے۔۔۔
میرے خیال میں چور پاکستان ہے۔۔۔
میرے خیال میں اس کہانی میں افغان مالک ہیں، طالبان کتا اور امریکہ چور۔۔۔اصل صورت حال یہ ہے۔
نجيب الرحمان صاحب يہ بلاگ بتي سے نہيں افغانستان سے متعلق ہے، لہذا يہاں بتي کا رونا نہ روئيں۔۔۔ ’آپ کی آواز‘ ميں يہی موضوع چل رہا ہے ادھر جا کر اپنے دکھڑے سنائیں۔۔۔
گیم بہت پیچیدہ ہے۔ یہ سب کردار ایک امریکہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کتا بھی اور چور بھی۔۔۔؟
ہزار دفعہ سمجھايا ہے ہارون صاحب ادھر سے خير خيريت سے واپس آ جائیں۔ متنازعہ باتوں سے پرہيز کريں اور آپ ہيں کہ جن ميں گھرے ہوئے ہيں انہيں کتا کہہ رہے ہيں! يہ نہ ہو کہ آپ چلے تو پانچ تھے واپسی پر مائنس ون فارمولا لگ جائے۔۔۔
يہ کہانی افغان، پاکستان کی بيس سال کی مہمان نوازی کے لیے سبق ہے کہ حق ادا کريں۔۔۔
سلام کے بعد۔۔۔ جناب ہارون رشيد صاحب، مثال آسان ہے۔ طالبان اصلی افغانی اورگھر کے مالک ہیں۔ کرزئی وغيرہ افغانی ہونے کے ناطے ان کی مثال چوکيدار يا کتے کي ہے۔ امريکہ کی مثال چور کی ہے، جس نے ايک بےوفا چوکيدار يا کتے کے سامنے گوشت ڈال کر اورگھر لوٹنے ميں مصروف ہوا۔۔۔
عبدالولی چمن
ذرا زاویہ بدل کر دیکھیے۔۔۔ آج کل امریکی فوج کے پیچھے ہر جگہ افغان فوج ہوتی ہے ان کو بچانے۔۔۔ لہاذا اب افغانستان کا مالک ہے امریکہ، افغان کتا اور چور طالبان۔۔۔
ميرے خيال ميں چور امريکا ہے، کتا طالبان اور مالک افغانستان ہے۔۔۔
گھر تو پہلے سے لٹا ہوا تھا، الزام بےچارے امریکہ پر آگیا۔ کبھی اینٹ پر اینٹ نہیں رکھنے دی اس ملک میں۔۔ اگر کچھ بچا تھا تو اب انہوں نے بم مار دیا۔۔۔
مالک افغان ہیں جبکہ کتا وفادار جانور ہے، اور طالبان اور امریکیوں پر یہ نام اچھا نہیں لگتا۔
ہم سب كو معلوم ہے كہ مالك كون، كتا كون اور چور كون۔۔۔
آپ ہم کو چور، مالک اور کتا کے چکر میں الجھا رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ٹونی بلير صاحب خود اقرار کر چکے ہیں کہ 9/11 کے علاوہ کيا چارہ تھا۔۔۔
بات تو بہت سیدھی سی ہے! بس جرات نہیں ہے کہنے کی۔ یہاں مالک سے مراد افغانی اور کتا سے مراد اتحادی اور امریکی فوجی اور چور سے مراد غیر ملکی جنگجو (کیونکہ امریکہ تو یہ چاہتا ہے کہ طالبان اپنا تعلق عرب اور دیگر جنگجو سے ختم کر کے ان سے تعاون کریں)۔۔ امریکیوں کو کتا بننے پہ اس لیے کوئی اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ وہ لوگ تو کتے کو بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔
میرے خیال میں چور، کتا، مالک سب امریکی ھی ھیں۔ افغان صرف گوشت ھیں
چور توہميشہ ”باہر” سے آکر گھر ميں نقب لگاتا ہے-گھر کا اپنا بندہ نہيں-عقلمند کيليے اشارہ کافی ہے-کھل کر اس ليے نہيں لکہ سکتے کہ وہاں آپ کے ”مہمان نواز” ميزبانوں نے منرجم رکھے ہوے ہيں-
مالک افغان کتا طالبان چور پاکستان اور امرعکا
چور بھی کہے چور چوروں سے ہوشیار رہیے۔