| بلاگز | اگلا بلاگ >>

بھرپیٹ کی مستیاں!

اصناف: ,,

وسعت اللہ خان | 2008-10-24 ،14:54

blo_wusat_saudi_150.jpgسعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں مزدوروں سے نجی کمپنیاں جو سلوک کرتی ہیں اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کئی مرتبہ آواز بلند کرچکی ہیں۔ لیکن ان ریاستوں میں استحصال زدہ مزدوروں کو نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے۔

مزدوروں کے علاوہ کوالیفائیڈ غیر ملکی ماہرین بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ان ریاستوں میں تنخواہ اور مراعات کا تعین صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ رنگت دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔ رنگ جتنا صاف مراعات اتنی زیادہ ۔

اسکے علاوہ ان حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ایسی پالیسیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں جن کی بظاہر کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی لیکن حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے تحت انہیں ہضم کرنا پڑتا ہے۔

مثلاً سعودی عرب گذشتہ دو برس سے ایسے لوگوں کو عمرے کا ویزا دینے سے ہچکچا رہا ہے جن کی عمر چالیس برس سے کم ہو۔ اس پابندی کے پیچھے نائن الیون کے بعد کی غیر یقینی فضا کارفرما ہے۔

تازہ فرمان یہ ہے کہ اب سعودی عرب میں انگوٹھا چھاپ مزدور داخل نہیں ہوسکیں گے۔ اس کا براہ راست اثر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے کارکنوں پر پڑے گا۔ جہاں مزدور طبقے میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ مزے کی بات ہے کہ آج کے سعودی عرب کا انفراسٹرکچر، بلند و بالا عمارتیں اور شاہراہیں گزشتہ چالیس برس کے دوران انہی لاکھوں انگوٹھا چھاپ مزدوروں نے خون پسینہ بہا کر تعمیر کیں جنہیں آج اچھوت بتایا جا رہا ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات میں اب سے ایک برس پہلے تک جس کارکن کا بھی ویزا زائد از معیاد ہوجاتا وہ قریبی ریاستوں میں ایک آدھ دن گزار کے واپس آجاتا اور اس کا ویزا رینئیو ہو جاتا۔ لیکن اب یہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ ویزے کی بحالی کے لیے کم از کم ایک ماہ کے لیے متحدہ عرب امارات سے جانا ہوگا۔ چنانچہ ایسے ہزاروں تارکینِ وطن جو دور دراز جانے کے مالی متحمل نہیں ہو سکتے انہیں ٹریول ایجنٹ قریبی ایرانی جزیرے کیش لے جاتے ہیں۔ جہاں ایک ماہ کی مالی و سکونتی خواری اٹھانے کے بعد یہ تارکِ وطن متحدہ عرب امارات میں دوبارہ داخلے کے اہل ہو جاتے ہیں۔

ایسی پالیسیاں بھرے پیٹ کی مستیاں نہیں تو اور کیا ہیں؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:08 2008-10-24 ,زبير احمد سعد :

    جناب اتنے وسائل ہونے کے بعد دنيا میں جوتے کھانے کی يہی وجہ ہے کہ غريب مسلم بھائی تو ايک آنکھ نہيں بھاتے، مگر گوری چمڑی کے آگے بچھ جاتے ہيں۔ جب تک عرب بھائيوں کو عقل نہيں آئے گي مسلم امہ کا يہی حال رہے گا۔

  • 2. 16:19 2008-10-24 ,انور حسين :

    سعودی عرب اور خليجی رياستوں ميں مزدورں سے سلوک دور غلامی کی جديد شکل ہے۔ رنگ اور مذہب کی بنياد پر فرق تو دنيا کے ہر خطہ ميں پايا جاتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ان ممالک میں استحصال کو سرکاری اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ سعودی عرب ميں داخلہ ہوتے ہيں عربی ميں ايگريمنٹ دراصل غريب اور ان پڑھ مزدور کو غلامی کی دستاويز پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ ان ممالک کو اب بڑی تعداد ميں مزدوروں کی ضرورت نہيں ہے اس لیے اگر يہ ممالک مزدوروں کی بھرتی اپنی ضرورت کے مطابق کرنا چاہتے ہيں تو يہ انکا حق ہے مگر جو افراد وہاں کام کر رہے ہوں ان کے حقوق کا تحفظ وہاں کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔

  • 3. 16:25 2008-10-24 ,Zaheer Chughtai :

    يہ تو درست ہے کہ ايسی پاليسياں بھرے پيٹ کی پيداوار ہيں ليکن کچھ خالی پيٹ والوں کے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہيے۔ آخر کب تک ہم لوگ عرب ممالک ميں مزدوری کر کے گزر بسر کريں گے۔ اب انہیں تو مجبور نہیں کيا جا سکتا ناں۔ خود اپنے ممالک میں روزگار کا بندوبست اگر کر ديا جائے تو کون ان ممالک کے نخرے اٹھائے گا۔ انگريزی کا ايک محاورہ ہے جس کا مفہوم يہ ہے کہ مانگنے والوں کی مرضی نہيں چلتي۔۔۔

  • 4. 16:34 2008-10-24 ,اے رضا :

    تين دن قبل مقامی ميڈيا کے ذريعے عرب امارات ميں مقيم تمام غير ملکي پروفيشنلز کو 31 دسمبر 2008ء تک رجسٹريشن کا حکم جاري ہوا جو آج گھٹا کر 31 اکتوبر 2008ء کر ديا گيا ہے۔ ياد رہے آج 24 اکتوبر کا دن گزر چکا ہے۔ باقی رہ گئے سات دن، جس ميں دو دن اختتام ہفتہ کی تعطيل ہے۔ واضح ہو کہ دي گئي ہدايات کے مطابق ہر بي اے پاس پروفيشنل شمارہوگا۔ نتيجتاً سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قريب پانچ لاکھ افراد رجسٹر ہونا باقي ہیں۔ ان کے لیے دبئی ميں دو يا شاید تين اور دارالحکومت ابوظہبی ميں فقط ايک رجسٹريشن مرکز قائم کيا گيا ہے جہاں لوگ ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ ہے کوئي سمجھ میں آنے والي بات؟ ليکن ڈيڈ لائن اِز ڈيڈ لائن۔۔۔ کر لو جو بھی کرنا ہے۔

  • 5. 17:28 2008-10-24 ,ايوب خان امريکہ :

    مجھے ايک سال پہلے کا وہ دن ياد ہے جب دبئی ائر پورٹ پر تلاشی کے نام پر مجھے زدوکوب کيا گيا۔ میں جب امريکہ آيا تو مجھے کسی نے چھوا تک نہيں۔ ہے ناں اچھنبے کی بات؟!

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔