کس نے زیادہ قیمت ادا کی؟
افغانستان میں موجودگی کے دوران سارا وقت یہ سوچتا رہا کہ آج کل زیادہ حالات کہاں خراب ہیں افغانستان میں یا پاکستان میں؟
دونوں ممالک کے دارالحکومت دہشت گردی کے نرغے میں ہیں۔ اگر کابل میں سرینہ ہوٹل ابتداء برس حملے کا نشانہ بنا تو اسلام آباد میں آٹھ ماہ بعد میریئٹ نشانہ بنا۔ اگر وہاں بھارتی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تو یہاں ڈینمارک کی ایمبسی کام آئی۔ وہاں اگر صدر حامد کرزئی پر تقریب آزادی کے دوران حملہ ہوا تو یہاں وزیر اعظم کی گاڑی پر فائرنگ۔ دونوں شہروں میں پولیس کی نوکری تو ویسے ہی آج کل سب سے خطرناک ہے۔ عام لوگوں کی ہلاکتوں کا تو دونوں شہروں میں کوئی حساب نہیں۔
اسلام آباد میں حالات قدرے چند برسوں سے خراب ہوئے ہیں تو سڑکیں بند کم اور حفاظتی کنکریٹ بلاکس کا قد کم ہے، لیکن کابل میں تو تین دہائیوں سے سکیورٹی مخدوش ہے، لہذا اہم عمارتیں دس اور پندرہ فٹ اونچے بلاکس کے پیچھے غائب ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی سفارت خانہ بھی دس فٹ اونچے مٹی کے بھرے بلاکس کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ پی آئی اے کا طیارہ جب اسلام آباد اترا اور ائرہوٹس نے اعلان کیا کہ 'بےنظیر بھٹو بین الاقوامی ہوائی اڈے' پر خوش آمدید تو ایسا جھٹکا لگا جیسے پاکستان نے شاید زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ افغانستان میں تو شاید کوئی اہم قومی رہنما پیدا ہی نہیں ہونے دیا جا رہا لیکن پاکستان میں جو ایک دو تھے انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔
کیا پاکستان کو بھی خدا نخواستہ کرزئی جیسے کسی رہنما کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
محترم ہارون رشيد صاحب، آداب!
يہ صحيح کہ حالات بالخصوص امن وامان کي صورتحال دونوں ممالک ميں ہی خراب ہے ليکن سوال يہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے حالات کے خراب رہنے کا سب سے زيادہ فائدہ کسے ہو رہا ہے؟ اور حالات خراب رہنے کي 'دعائيں' مانگنے والا کون ہے؟ ظاہر ہے جسے حالات کے خراب رہنے کا فائدہ ہوگا وہی انکے خراب کرنے کا بہت حد تک ذمہ دار کہلاۓ گا! دوسرا سوال يہ ہے کہ حالات ميں بہتری لانے کی کوششوں مثلآ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا، امن وامان کي اميد پيدا ہوتے ہي خودکش دھماکوں، دہشتگردي اور ميزائل شزائل داغ کر دونوں ملکوں کي عوام ميں 'اشتعال' پھيلانا يا ديگر الفاظ ميں دوست بنانے کي بجاۓ 'دشمن' پيدا کرنا وغيرہ کے پيچھے کونسے سازشي عناصر کارفرما ہيں اور کون امن وامان کي پيدائش ميں روڑے اٹکاتا ہے؟ پاکستان ميں تو سب جانتے ہيں کہ رنگ ميں بھنگ ڈالنا اور کسي پل چين سے نہ بيٹھنا صرف 'ملائيت' کا کام ہے اور يا پھر نہ صرف بيک وقت بلکہ خالصتآ آمريت وملائيت کی پيداواروں کا کام ہوسکتا ہے جيسا کہ ان دونوں کی انتہائي ماضي قريب ہي کي تاريخ ميں نماياں ديکھا جاسکتا ہے- اور يا پھر چند ناکام اور نو وارد سياستدان ميڈيا ميں جگہ گھيرنے اور اپنی ڈوبتی سياست کو سہارا دينے کيلۓ 'آوے اي آوے تے جاوے اي جاوے' نعرہ کا سہارا لے کر اودھم مچاۓ رکھتے ہيں- جبکہ افغانستان ميں چونکہ غيرملکی قبضہ ہے لہذا وہاں پر امن وامان کی غيرتسلی بخش صورتحال عقل کی کسوٹی پر فٹ بيٹھتی ہے- ليکن اس بات کا عقل کی کسوٹی پر فٹ بيٹھ جانا معجزہ ہی ہوگا کہ نہ افغانستان کی اپنی باقاعدہ فوج ہے، نہ پوليس ہے، اور اگر تھوڑي بہت ہے بھي تو انکی پيشہ ورانہ ٹريننگ، قابليت اور استعداد تو ايک بواۓ سکاؤٹ، اين سی سی ٹرينڈ سے زيادہ نہيں ہے- جب افغانی پوليس اور افغاني فوج کا يہ حال ہو تو پھر ايک عام 'طالبان' کی ٹريننگ کا کيا حال ہوگا!!!!! جبکہ آپکے بلاگز ميں ميدان جنگ کے آنکھوں ديکھے حالات پڑھ کر تو ايسا لگتا ہے جيسے طالبان اتحادی فوج ہو اور اتحادی فوج طالبان! دوسری بات جو بغير غوطہ تو دور کي بات نيند ميں بھی ناقابل يقين ہے کہ ايک طرف دنيا کی سُپر پاور فوج اور اسکے پاس جديد ترين آلات وھتيار اور جاسوسی سازوسامان جيسا کہ ہمارے بہت ہی محترم، ديرينہ ساتھي، اور ہميشہ کام کی بات کرنے والے تبصرہ نگار جناب اے رضا صاحب آپ ہي کے سابقہ بلاگ ميں اپنے قيمتی تبصرہ ميں بيان کرچکے ہيں، رکھتی ہے پھر بھی افغانستان ميں امن قائم نہ ہونا، طياروں پر فائرنگ، فوجی اڈوں کے اندر جنگ ڈرامہ نہيں تو افسانہ تو ضرور آساني سے کہلايا جاسکتا ہے! جہاں تک پاکستان ميں کسی 'حامد کرزئي' جيسے سياستدان کی خدانخواستہ ضرورت کے پيدا ہونے کا تعلق ہے تو رواں حالات کے مطابق ايسا سوچنا بعيد ازعقل ہرگز قرار نہيں ديا جاسکتا- اس بات کو تقويت اس بات سے مل جاتی ہے کہ صدر پاکستان 'ہِز ايکسيلينسي' آصف علی زرداری صاحب کے ايڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ملک ميں سياسی يکجہتی پيدا نہيں ہو رہی ہے يا نہيں ہونے دي جا رہي ہے- يہ جو بيک وقت آمريت وملائيت کی پيداوار ن ليگ پھيکے منہ سے جو پاکستان پيپلز پارٹی سے تھوڑا بہت تعاون کرتی نظر آتی ہے يہ اسکی مجبوری ہے اور صرف اپنے ذاتی فائدہ کی خاطر کر رہی ہے جيسے 'مشرف نواز' معاہدہ کيا تھا- بمطابق خاکسار، ن ليگ کا دہشتگردی بابت قرارداد کی حمايت کرنا بھی ايک قسم کي سرمايہ کاری کرنا ہے تاکہ پنجاب ميں گورنر پنجاب سلمان تاثير صاحب کو 'اِن ايکشن' ہونے سے روکا جاسکے-
خيرانديش،
نجيب الرحمان سائکو، پاکستان
(آخر ميں آپ سے ايک چھوٹی سی درخواست کہ موڈريٹر صاحب کو کچھ 'کھلائيں پلائيں' تاکہ وہ آپکے بلاگز پر معزز قارئين کے قيمتی تبصرے شائع کيا کريں محض ايک دو تبصرے شائع کرکے خانہ پری نہ کريں-)
اللہ بچائے ھم کو ايسے حکمرانو ں سے
ھارون رشيد بھائی انشاءاللہ ايسا تو کبھی نہيں ہوسکتا -اگر ہمارے ملک کے حالات حراب تو ضرور ہيں ليکن افغانستان جيسے نہيں موجودہ حلات عارضی ہيں-کرزئی جيسا حکمران تو امريکہ بھی چاہتا ہے ليکن ہم ايک زندہ قوم ہيں امريکہ کے ايک پٹو کا انجام تو سب نے ديکھا ہوگاان کے ساتھ ہم نے کيا کيا -اگر ائندہ بھی کسی نے کوشش کی تو اسکا اس سے بھی برا ديکھيں گے
ہمارے سابقہ اور موجودہ ھکمراں کرزئی جیسے ہی ہیں ان میں اور کرزئی کے ملک چلانے میں کو خاص فرق تو نظر نہیں آرہا۔ اگر کوئی فرق ہوتا تو پاکستاں کے حالت افغانستاں سے ابتر نہ ہوتے۔۔۔۔
پاکستان میں کرزیی جیسا حکمران موجود ہے
آپکو نظر نہیںآ رہا یا آ پ دیکھنا نہیں چاہ رہے؟
کيا مطلب ضروت پڑ سکتی ہے شوکت عزہز بھول گے کيا؟
شکر کريں کہ صحيح سلامت پہنچ گۓ اور اب مزيد شکر ادا کرتے رہيۓ اللہ کا کہ اب ادھر بھی سلامت رکھے، ہر سياستدان بذات خود کرزئی ہی ہے يہاں پھر اکيلا بيچارہ کرزئی ہی کيوں ہو بدنام ؟