جب کوئی بیک آؤٹ کرے
ہم لوگوں کا اپنےسامعین کے ساتھ رشتہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ان سے کۓ چھوٹے سے وعدے سے مُکرنا ہمیں انتہائی برا لگتا ہے ۔
ہم کتنی کوشش کریں کہ انہیں وہ سب ملے جس کا انہیں انتظار ہوتا ہے مگر جب حالات ہمارے قابو میں نہیں رہتے تو ہم اپنے کو ہی کوسنے لگتے ہیں۔
میری بھی حالت اُس وقت ایسی ہوئی جب چار دن سے نشر ہونے والے اعلان کے بعد جموں و کشمیر کے گورنر نے اطلاع بھیجی کہ وہ ٹاکنگ پوانٹ پروگرام میں شریک نہیں ہوسکتے کیونکہ انہیں گلے میں تکلیف ہوئی ہے۔
میں تو ان کی اس وجہ کو مان بھی لوں لیکن وہ لوگ کیسے مانیں جن لوگوں نے انہیں انتخابات کے آخری انتظامات کا جائزہ لیتے دیکھا اپنے ماتحت عملے کو ہدایات دیتے سُنا اور نیم فوجی دستوں کو حساس علاقوں میں پوزیشنیں سنبھالنے کے احکامات دیتے پایا۔
یہ دوسری بات ہے کہ حکومت بھارت کو بخوبی احساس ہے کہ بیشتر لوگوں کی انتخابات میں عدم دلچسپی اور آزادی کی تحریک سے متعلق سوالات کا جواب دینا انتہائی مشکل ہے پھر بھی سیاست دانوں اعلی عہدے داروں کے لۓ لوگوں کو اپنی باتوں کے جال میں پھاسنا کوئی دشوار کام نہیں ہوتا۔
میں تو سمجھ رہی تھی کہ سیاست دانوں یا اہلکاروں کو بہلانے کا خوب ہنر آتاہے تو پھر جموں و کشمیر کے گورنر نے آخری وقت پر ٹاکنگ پوانٹ پروگرام سے بیک آوٹ کیوں کیا
کیاوہ کشمیر کے حالات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور بہلانے کا ہنر اب یہاں ناکام ہورہا ہے۔
کوئی تو کچھ بتادے؟
تبصرےتبصرہ کریں
’چلا گيا وہ مجھے چھوڑ کر مسافت ميں
گلہ نہيں ہے کہ ميرا ہي بخت ايسا تھا۔۔۔‘
ہند کے ارباب اختيار کی يہ پرانی عادت ہے۔ اس کی ابتدا انہوں نے کشميروں کو حق خوداراديت نہ دے کر دی تھي۔ مجھے بحثيت کشميری اس پر کوئی حيرانی نہيں ہوئي۔۔۔
صحافی اور براڈکاسٹروں کے ہاں ’کچھ تو بتلائیے کہ بتلائیں کيا‘ کا عالم طاری ہونا اس پيشے کی انفراديت ہے اور جس انجماد کو پگھلانے واسطے جرنلزم نے قوائد ضوابط اور کردار وضع کيا ہے، جس سے جرنلزم بالکل صراط مستقيم بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ ذرا سا قلم تا آواز کا زير و بم ايک فريق کے مقابلے ميں دوسرے فريق پر نچھاور کيا تو اپ جرنلسٹ سے ہٹ کر خود فريق بن گئے۔۔۔ اب اس پس منظر ميں گورنر کشمير کی ٹاکنگ شو ميں شرکت سے معزرت بوجہ ناسازي طبيعت آپ کو قبول کرنی چاہيے اور ان سے نئی تاريخ طے کرنی چاہيے۔ سياست ميں سياسی بيمارياں سياستدانوں کے ساتھ لگی رہتی ہيں جنکا جرنلسٹ کچھ بھی تو نہيں کر سکتے۔ ہاں آپ نے پروگرام کے منتظر سامعين کے سامنے واضحات کر کے خوب کيا اور جس صورتحال کا حوالہ سياسی تجزيہ نگار ايک يا دوسری پارٹی کے حق ميں دے سکتے ہيں۔۔۔
بھارت کو اب تو کشميريوں کو ان کے حال پر چھوڑ دينا چاہيے۔ جب بات يہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جھوٹ کا سہارا بھی نہيں ليا جا سکتا تو مزيد تشدد سے کب تک غلام رکھا جا سکتا ہے۔ يہ سب راج پاٹ يہيں رہ جائے گا تو کيوں نہ سب کو ان کی مرضی سے امن سے رہنے ديا جائے۔ کاش يہ سوچ حکمرانوں ميں بھی پيدا ہو جائے کہ سب نے ہميشہ تھوڑی رہنا ہے تو کيوں نفرتوں کو پروان چڑھائيں، کيوں نہ بھائيوں کی طرح رہا جائے۔ آخر يورپ ميں بھی تو جنگيں ہوئی تھيں ليکن پر امن بقائے باہمی اور ايک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے کتنی آشتی سے پھل پھول رہے ہيں۔ کوئی ملک کسی نے فتح نہيں کيا ہوا بھر بھی سب ايک ہی لڑی ميں پروئے جا رہے ہيں۔ ايسی ہی ايک فيڈريشن يہاں کيوں نہيں بن سکتی؟ کشمير، پاکستان اور بھارت کي۔ جس ميں کوئی کسی کو نہ دبائے، نہ دھمکائے اور بس سب امن و آشتي سے رہيں۔ يونائيٹيڈ اسٹيٹس آف سب کانٹيننٹ يا رياستہائے متحدہ بر صغير۔
مان بھی جائيں کہ ان کے گلے ميں تکليف ہے- جھوٹ ان کے گلے ميں اٹکا ہوا ہے جو نہ اگلا جائے ہے نہ نگلا جائے ہے۔۔۔
سلام نعيمہ جی
موصوف کو گورنر انڈيا نے بنا کر بھيجا ہے اور مانتے بھی وہی ہيں۔ اس ليے عقلمندی کر رہے ہيں کہ تنخواہ دينے والوں کی فکر ميں رہتے ہيں۔ انتخابی ڈرامہ جن کے لیے کيا جا رہا ہے انکی فکر کررہے ہيں۔ کشميری کون سا انہيں گورنر مانتے ہيں دل سے۔ جس دن موقع ملے گا کان سے پکڑ کر کٹھوعہ پاردھکہ ديں گے۔ سو پہلے تنخواہ حلال کر ليں پھر کشميريوں سے بھی بات کرليں گے۔۔۔ جلدی کيا ہے۔۔۔
بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے وزیروں کی منہ پر مکرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی حکومت سے رابطہ کرے۔ ہم ان میں خوکفیل ہیں!
’جب کہ جی چاہے نئی دنيا بسا ليتے ہيں لوگ
ايک چہرے پہ کئی چہرے لگا ليتے ہيں لوگ‘
گورنر صاحب قوت فيصلہ سے محروم ہوگۓ، لوگوں کو بہلانے کا فن بھول گۓ، اپنے وعدے سے پھر گۓ، حلات کا تقاضا ہے ناں سمجھا کريں۔۔۔
نعيمہ صاحبہ گورنر نے بہانہ تو لگا ديا تھا گلہ خراب ہونے کا ليکن آپکی صحافيانہ حس نے انکا بہانہ چلنے ديا ہے-
نعيمہ بہن، دکھ تو ہمیں بھی ہوا کہ اتنے اعلانات کے باوجود گورنر صاحب نے انکار کر دیا۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگے یا دلی سرکار نے منع کیا ہوگا۔ خیر ایسا تو ہوتا رہتا ہے اور ہمارے جیسے بی بی سی کے سامعین بھی اتنا شعور رکھتے ہیں۔
يہ کشميريوں کی بے مثال جدوجہد کی اخلاقی فتح ہے کہ ظالم دنيا کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں ۔۔۔
نعيمہ جی مُجھے آپ کی حالت کا تو اندازہ ہو رہا ہے ليکِن ويسے بہت مزہ آيا يہ بات معلُوم کر کے صاحب بہادُر بالکُل تندرُست اور بھلے چنگے ہونے کے باوجُود پروگرام ميں نہيں آئے۔۔۔ اب آپ يا باقی لوگ اِسے کُچھ بھی کہيں ميں تو يہی کہُوں گی کہ گورنر صاحِب کِتنے بھی بہادُر بنيں اندر سے اِتنے کمزور ہيں کہ عام عوام کے تُند و تيز سوالوں کے جواب دينے کی خُود ميں ہِمّت ہی نہيں پاتے اور شايد يہی عوام کی فتح ہے کہ اِتنی طاقت رکھنے والے بندے کی بولتی بند ہو گئی۔ يعنی گلا ہی بند ہو گيا ميرے خيال ميں اِسے ہی حقيقی فتح کہا جانا زيادہ درُست ہوگا ہے ناں۔۔۔