| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ووٹ کس کو دوں؟

نعیمہ احمد مہجور | 2008-12-03 ،18:15

مجھے یہ سُن کر بڑی حیرت ہوئی کہ کشمیریوں کی بڑی تعداد آجکل جان بوجھ کرتھکا دینے والے انتخابات میں ووٹ ڈال رہی ہے۔

20081130174509kashmir_203.jpg

حیرت اس لیے نہیں کہ لوگ آزادی کے حق میں مظاہرے بھی کرتے ہیں اور پھر بھارت کے آئین کے تحت ووٹ بھی ڈالتے ہیں میں ان کی رائے کا احترام کرتی ہوں۔ حیرت اس لیے کہ لوگ کیا سمجھ کر ووٹ ڈال رہے ہیں؟

کیا وہ اپنے انتخابی امیدواروں سے خوش ہیں؟

کیا ان امیدواروں نے ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت تبدیلی لائی ہے؟ یا کیاانکے مسائل کو حل کیا ہے؟

اگر ایسا ہے تو ان امیدواروں کو ایک بار نہیں سو بار ووٹ ڈالنے چاہے مجھے حیرت نہیں ہوگی بلکہ میں اپنا بھی ووٹ ڈالنے کا اختیار آپ کو دوں گی۔ مگر سوال کشمیر کا ہے اور اسکےانتخابی عمل کا۔ جتنا یہ مسئلہ گمبھیر ہے اس سے پیچیدہ اسکا انتخابی عمل ہے۔

حکومت بھارت نے سردیوں میں انتخابات کرواکے یہ تو دکھا دیا کہ وہ اپنی مرضی سے کشمیر پر کچھ بھی تھوپ سکتی ہے۔ ووٹ پڑے یا نہ پڑے اقتدار اعلیٰ کو اسکی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ کشمیر کے معاملے میں بھارتی حکمرانوں کو صرف اتنی پرواہ ہے کہ کشمیری نام کا کوئی بھی بندہ کرسی پر رہے اور یہ الاپ بجاتا رہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

سوال ووٹروں کا ہے کہ وہ کس بنا پر ووٹ ڈال رہے ہیں پوری وادی بجلی نہ ہونے کے سبب گھُپ اندھیرے میں پڑی ہے، پانی کی قلت نے لوگوں کو جھیلوں اور دریا کا پانی پینے پر مجبور کر دیا ہے، سڑکیں سنتالیس کی بنی ہوئی ہیں، پل اڑا دیے گئے ہیں، سکولوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات نہیں، ہسپتال اتنے گندے ہیں کہ اندر داخل ہوتے ہی قے آجاتی ہے، لاکھوں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان دفتروں کی خاک چھان رہے ہیں، سونیا گاندھی یا فاروق عبداللہ کے دوروں کے دوران گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے حتی کہ ووٹنگ کے دوران کرفیو کا غیر اعلانیہ نفاذ رہتا ہے اور لوگ پھر بھی ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں۔

پچھلے ساٹھ برسوں میں نہ بجلی ملی نہ پانی ۔نہ سڑکیں بنی اور نہ روزگار کے وسائل پیدا کیے گئے۔ جب آزادی کے حق میں مظاہرے ہوتے ہیں تو لوگوں کی بڑی تعداد ان میں شامل ہوتی ہے اور جب انتخابات ہوتے ہیں تو یہی لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔

اگر ووٹ ڈالنے کا مقصد صرف فوری طور پر انتخابی امیدواروں سے یا سیاسی جماعتوں سےسہولیات حاصل کرنا بھی ہے تو کیا ساٹھ برسوں میں زندگی کی پانچ فیصد بھی بنیادی سہولیات حاصل ہوئی ہیں۔

ووٹ دینے سے پہلے کم از کم امیدوار کو دیکھ لیا ہوتا اور ایک دو وعدے ہی لے لیے ہوتے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 2:59 2008-12-04 ,Sajjadul Hasnain :

    نعيمہ جی
    آپ نے تسليم تو کيا کہ آزادی کے لیے مظاہرے کرنے والے لوگ ووٹ دينے کے لیے بوتھ بھی آتے ہيں۔ مگر ميرا کشميری دوست تو يہ کہتا ہے کہ سرديوں ميں پولنگ رکھی ہی اس لیے گئی ہے کہ لوگ گھروں سے نکلنے کی ہمت نہ کریں اور حکومتی کارندے پانچ بجے کے آس پاس ساٹھ سے زائيد فيصد کے حکومت کے ٹارگٹ کو يقينی بنائيں۔ اس کے علاوہ وہ يہ بھی کہتا ہے کہ مرکزی سرکار اپنے اميدوار کھڑا کرنے کے لیے سياسی جماعتوں کو کروڑہا روپے فراہم کرتی ہے۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے کہ پولنگ کا جب پہلا مرحلہ شروع ہوا تھا تو صبح گيارہ بجے کے قريب ايک ہندی چينل کے نمائيندے نے واضح الفاظ ميں کہا تھا کہ ووٹ دينے کے لیے بوتھ پر صرف پانچ افراد آئے تھے۔ ميں نے بچپن ميں پاکستان کے ممتاز مزاحیہ اداکار عمر شريف کا ايک لطيفہ سنا تھا کہ لالو کھيت ميں پوليس نے کرفيو لگا کر آزادانہ گشت کيا۔ اب کشمير ميں کرفيو لگا کر اگر سرکاری اہل کار يا پھر سکيورٹی اہل کار آزادانہ طور پر ساٹھ فيصد پولنگ کو يقينی بناتے ہيں تو کونسا کمال کرتے ہيں۔
    خيرانديش، سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن

  • 2. 5:24 2008-12-04 ,ڈفر :

    کشمیریوں کے پاس کویی راستہ بچا ہی کہاں ہے؟پاکستان کا ااسرا تھا اس نے بھی پیٹھ دکھا دی۔ اب مرتے کیا نا کرتے ووٹ ڈالنے ہی نکل پڑے تو کویی اچنبھے کی بات نہیں

  • 3. 7:50 2008-12-04 ,شہزاد :

    نعيمہ باجی
    ميں ھوں تو ايک پاکستانی ليکن کشميريوں کے دکھوں کو بخوبی سمجھ سکتا ھوں-ھو سکتا ھے يہ وھ اپنی گھٹن دور کرنے کا ايک طريقہ سمجھتے ھوں-کر لينے ديں ايسا ھو سکتا ان کے ذخموں کو کچھ قرار ا جاے -

  • 4. 10:39 2008-12-04 ,Zaheer Chughtai :

    آپ کے بلاگ پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ليکن کشمير کے يہ حالات جان کر کافی دکھ بھی ہوا۔ کبھی کبھی آپ کے بلاگ پڑھ کر مجھے حيرت ہوتی ہے کہ بی بی سی نے آپ کو برداشت کيسے ہوا ہے، کيونکہ بی بی سی پر تو ہر طرف ہندوستان کی جے جے کار ہی ہوتی ہے۔ ساری دنيا کے متعلق سچ لکھيں گے ليکن ہندوستان اور اسرائيل کا ذکر آتے ہی بي بی سی والوں کے قلم کو بھی بريکيں لگنا شروع ہو جاتی ہيں۔ بلکہ باقاعدہ اميج بلڈنگ کی جاتی ہے۔

  • 5. 13:58 2008-12-04 ,نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان :

    محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ، آداب اور پيشگي عيد مبارک!
    مودبانہ عرض ہے کہ بھارت کے زيرِانتظام کشمير ميں جاری انتخابات ميں کشميريوں کا وسيع پيمانے پر اپنے حق راۓ دہی کا استعمال کرنا 'علحيدگی پسند تحريک' اور اس تحريک کے کرتا دھرتوں پر ايک خوبصورت عدم اعتماد ہے اور کشميريوں کی 'حُب الوطني' کا ايک جيتا جاگتا ثبوت ہے- يہ بھی نظر آتا ہے کہ اس تاريخ ساز ٹرن آؤٹ نے 'جہاديوں' اور 'ملائيت' کی کشمير ميں 'مسلح سرگرميوں' کو مہذبانہ طريقہ سے رد کر ديا ہے اور انکو کشميری کشمير ميں 'در انداز' سمجھتے ہيں- ان انتخابات کو بآسانی پاکستان ميں اٹھارہ فروري کو ہونے انتخابات سے تشبيہ دی جاسکتی ہے کہ روشن خيال عوام نے روشن خيالی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوۓ پاکستان ميں ملائيت کو شکست ہوئی جبکہ کشمير ميں کشميريوں نے انتخابات ميں حريت ليڈروں کے منع کرنے کے باوجود بھرپور شرکت کرکے کشمير ميں 'جہاد' کرنے والوں کو کلين بولڈ کرديا ہے- علاوہ ازيں کشميريوں نے صدر پاکستان 'ہِز ايکسيلينسي' آصف علی زرداری کی اس بات کہ 'کشمير کشميريوں کا ہے' پر مہر ثبت کردی ہے- سبحان اللہ! جہاں تک انتخابات ميں کرفيو شرفيو کا يا نظربنديوں کا تعلق ہے تو انتخابی عمل کو پرامن بنانے ميں ايسا کرنا حکومتی ڈيوٹی ہوتی ہے- پاکستان ميں بھی تو دوران اليکشن فوج فليگ مارچ کرتی ہے- علاوہ ازيں کشميري حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ ديکھا جاۓ تو کشمير ميں کرفيو کا اعلانيہ نفاذ کشمير گورنمنٹ کا ايک نيک کام ہے- بصورت ديگر عين ممکن تھا کہ کشمير ميں سرگرم 'جہادي' اپنا کرفيو لگا ديتے تاکہ ٹرن آؤٹ نہ ہوتا، بالکل جيسے اٹھارہ فروري کو کراچی ميں 'بھائي لوگ' نے پولنگ اسٹيشنوں پر اپنا 'کرفيو' نافذ کيا ہوا تھا- لوگوں کے ووٹ دينے پر يا نہ دينے پر کوئي پابندی نہيں ہوتی بلکہ يہ انکا اپنا حق اور فرض ہوتا ہے جسکے استعمال کرنے يا نہ کرنے کا حق بھی انہی کے پاس ہوتا ہے- ووٹ دينے کا مقصد اچھے لوگوں کو حکومت ميں شامل کروانا ہوتا ہے ديگر الفاظ ميں نمائندوں کا چناؤ کرکے حکومت کا ہاتھ بٹانا ہوتا ہے- اور وہ لوگ جو سہوليات حاصل کرنے کی سوچ رکھ کر ووٹ ديتے ہيں وہ ايک قسم ميں 'سرمايہ دارانہ' ذہن وسوچ رکھتے ہيں، خودغرض واقع ہوتے ہيں، مفادپرستانہ فلسفہ زندگی کے حامی ہوتے ہيں- ايسے لوگ اجتماعی کی بجاۓ انفرادی نقطہء نگاہ رکھتے ہيں جس سے ملک ميں يکجہتي، اور 'دو جسم مگر اک جان ہيں ہم' کی سوچ پيدا نہيں ہوتی جسکے نتيجہ ميں ملک ميں افراتفری اور انتشار پھيلا رہتا ہے جو کہ نوکرشاہی اور ملک دشمن عناصر کيلے کسی 'رحمت' سے کم نہيں ہوتا کہ انکا پہيہ چلتا رہتا ہے انکا تختہ الٹنے سے بچا رہتا ہے----

    مخلص،
    نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان

  • 6. 15:19 2008-12-04 ,sana :

    نعيمہ جی ميں آپکو کسي کو بھي ووٹ نہ ڈالنے کا مشورہ ديتی ہوں- ووٹ لينے والے صرف ووٹ لينے تک ہمدرد ہوتے ہيں- اسکے بعد ميں انہوں نے آپکو پہچاننے سے بھی انکار کر دينا ہے- انگوٹھا گندہ کرنے کا اور شناختی کارڈ کو پنچ کروا کر خراب کروانے کا اور وقت ضائی کرنے کا کيا فائدہ ؟ ليکن اگر ووٹ کے بدلے چار پيسے ہاتھ آسکتے ہوں تو ضرور ووٹ ڈاليں---

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔