| بلاگز | اگلا بلاگ >>

نفرت چین نہیں لیتی

اصناف:

عارف شمیم | 2008-12-04 ،23:28

اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں۔ ٹی وی پر دس بارہ سال کے اسرائیلی بچے فلسطینی گھروں، بچوں اور بڑوں پر پتھر مار رہے ہیں، دوسری طرف سے بھی شاید ایسا ہی ہو رہا ہو لیکن اس وقت وہ ٹی وی کی سکرین پر نہیں ہے۔ دوسرے چینل پر ایک اسرائیلی یہودی ایک ٹی وی چینل کی میزبان سے بار بار کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری زمین ہے، ہمیں کوئی عدالتی آرڈر یہاں سے نہیں نکال سکتا۔ آج ہبرون مانگ رہے ہیں ہیں کل تل ابیب مانگیں گے۔

settler203.jpg

ابھی چند ہی روز پہلے ممبئی میں بھی اسی طرح کے اٹھارہ انیس سال کے لڑکوں نے دو سو کے قریب معصوم لوگوں کو بے دردی سے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حملے کی نہ تو کوئی بظاہر وجہ تھی اور نہ ہی بعد میں بتائی گئی ہے۔ نہ ہی انہوں نے کشمیر مانگا اور اور نہ ہی گرفتار شدگان کی رہائی کا کوئی مطالبہ کیا۔ کیا، کیوں ہوا کچھ پتہ نہیں چلا اور اگر کوئی سراغ ملا بھی تو وہ ہے نفرت، صرف نفرت۔ اتنی نفرت کہ کسی بڑے چھوٹے، معصوم بے گناہ، ہندو مسلمان کا خیال نہ رہے اور اگر دماغ میں کچھ ہو تو موت، دوسروں کی بھی اور اپنی بھی۔ اور اگر آنکھوں میں ہو کچھ ہو تو خون، دوسروں کا بھی اور اپنا بھی۔
babyface_killer.jpg

انڈین میڈیا ایک حملہ آوور کو 'بے بی فیس' کہہ رہا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ ہی زندہ پکڑا گیا ہے۔ اس نے اپنا نام اعظم امیر قصاب بتایا ہے۔ اعظم امیر کا تو مجھے نہیں پتا لیکن اگر ممبئی کے ریلوے سٹیشن کے باہر ایک ایک خونی بھیڑیے کی طرح گولیاں چلانے والا وہی تھا تو اس کا نام قصاب تو ضرور ہی ہے۔


کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ یہ سب ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، انٹرنیٹ بند ہو جائیں۔ نہ کوئی خبر آئے اور نہ کوئی خبر جائے۔ بچوں کو شہزادوں اور پریوں کی کہانیاں سنائیں اور ان کے ننھے منھے سوالوں کے سادہ سے جواب دیں۔ نہ وہ دیکھیں کہ 'بے بی فیس' کس طرح 'ریمبو' بن کر گن چلاتا ہے اور نہ ہی نفرت سے شرسار لڑیوں والے یہودی بچے فلسطینی بچوں اور بڑوں پر پتھر پھینکتے ہیں۔

چاہے ہبرون میں فلسطینی گھروں میں پتھر مارنے والے 'بچے' ہوں یا ممبئی میں درجنوں ہلاکتوں کے ذمہ دار 'بے بی فیس' لڑکے، دونوں طرف جزبہ ایک ہی ہے اور وہ ہے نفرت کا جزبہ۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 3:18 2008-12-05 ,اے رضا :

    عارف شميم صاحب، حق دار کو حق ملتا رہے تو کسی ’بے بی فيس‘ کا جواز ہی نہ رہےگا۔

  • 2. 5:42 2008-12-05 ,محمد اطہر :

    ہر کوئی نفرت تو دیکھ رہا ہے اس نفرت کی وجہ تلاش کرنے میں کوئی سرگرداں نہیں۔ ابھی بھی تھوڑا وقت ہے کہ ہم مظلوموں کو ان کا حق دیں اور رواداری کی فضا قائم کریں ورنہ جو فضا یہ مظلوم قائم کریں گے ہمارا اس میں رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔

  • 3. 6:30 2008-12-05 ,محمد اسلم :

    دونوں طرف نفرت ہی ہے۔ اس کی وجہ ظلم اور ناانصافی ہے۔

  • 4. 6:41 2008-12-05 ,ڈفر :

    لفظ بلفظ محمد اطہر صاحب سے متفق ہوں، ظلم کا جواب ظلم ہی ہو گا۔ آپ ظلم کریں تو قومی خدمت، جواباً مظلوم ظلم کرے تو دہشت گردی۔ صدقے جاؤں ان دہرے معیاروں کے۔

  • 5. 10:30 2008-12-05 ,RAZZAK SARBAZI :

    سلام۔ نفرت نے سب کچھ نگل لیا ہے ۔کوئی راستہ اگر بچا ہے تو ڈائیلاگ لیکن ڈائیلاگ کے لیے کوئی راضی نہیں۔

  • 6. 12:00 2008-12-05 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    ’پونچھ کر اشک اپني آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئي بات بنے
    سرجھکانے سے کچھ نہيں ہوتا، سر اٹھاؤ تو کوئي بات بنے
    زندگي بھيک ميں نہيں ملتي، زندگي بڑھ کے چھيني جاتي ہے
    اپنا حق سنگدل زمانے سے چھين پاؤ تو کوئي بات بنے
    رنگ اور نسل، ذات اور مذہب، جو بھي ہے آدمي سے کمتر ہے
    اس حقيقت کو تم بھي ميري طرح، مان جاؤ تو کوئي بات بنے
    نفرتوں کے جہان ميں ہم کو پيار کي بستياں بساني ہيں
    دُور رہنا کوئي کمال نہيں، پاس آؤ تو کوئي بات بنے‘
    (ساحر لدھيانوي)

  • 7. 12:21 2008-12-05 ,سيد فرحت علی :

    يہ جو کچھ بھی ممبئی ميں وقوع پذير ہوا بلا شک وشبہ غير انسانی و سفاکانہ فعل ہے ـ يقينا اب ٹی وی ديکھنے سے يا اخبار کا مطالعہ کرنے سے ايک خوفناک ہول سا دل ميں اٹھتا محسوس ہوتا ہے۔ مرنے والا کسی مذہب وملت يا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو بہر حال انسان ہے، اللہ کا بندہ توہے، کسی معصوم بچے کا باپ، کسی ماں کے جگر کا ٹکڑا، کسی باپ کا لخت جگر اگر ناگہانی ہلاک ہو جاۓ تو وہ درد ہم محسوس ہی نہيں کرسکتے ـ جس دو سالہ يہودی بچے کے ماں باپ ہلاک کر دیے گئے کيا وہ بچہ بڑا ہو کر ہم مسلمانوں سے نفرت کرنے ميں حق بجانب نہ ہو گا؟ ہمارے پيارے نبی کا ارشاد ہے کہ ميں ناگہانی موت سے پناہ مانگتا ہوں۔ آج جو کچھ فلسطين يا کشمير ميں ظلم و تشدد ہو رہا ہے وہ صحيح نہیں اس کے خلاف آواز ضروری اٹھائی جاۓ مگر اس کی پاداش ميں بے گناہ اور بے قصور لوگوں کا خون ناحق سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ يہ ايک ايسا گناہ ہے جس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی يہ ہے کہ يہ مذہبی جنونی لوگ کبھی غير مذہب کے نام پر تو کبھی فرقہ پرستی کے بہانے اور کبھی شريعت کے نام پر انسانيت کا قتل کرتے ہيں۔ اس سارے فساد کی آبياری ضياء الحق نے مسلسل گيارہ برس تک کی۔ اس کے بعد آنے والے دنوں ميں بی بی نے ايک طرف قوم کی دولت لوٹی تو دوسری طرف طالبان کا قبضہ کابل پر مظبوط کرنے ميں ان کی بھرپور مدد کی، پھر مياں برادران نے ايک طرف ملک لوٹا فيکٹرياں بنائيں دوسری طرف معاويہ طرز کی خلافت بنا کر امير المومنين بننے کی باگ ڈور شروع کر دی تاکہ اس طرح حکومت خاندان لوہاران کی لونڈی بن کر رہے۔ غريب غريب تر اور امير امير تر ہوتا چلا گيا ـ اب غريب کيا کرے نوکری نہيں، تعليم نہيں حد يہ کہ عزت نفس بھی محفوظ نہيں۔ غريب اپنے بچے کو يا تو مدرسے ميں ڈالے گا تاکہ اس کو کم از کم دو وقت کی روٹی ہی ميسر آسکے ، ملا اس کافائدہ اٹھا کر بچوں کو جہاد کی ترغيب دے کر دہشت گرد بنائے گا۔ يا کوئی بيوہ جسم بيچ کر معاشرے کے نام نہاد مہذب لوگوں کی خواہشات کی بھينٹ چڑھے گی يا بچوں کو بازار ميں فروخت کے لیے منڈی لگے گی ـ يہ وہ تلخ حقيقتيں ہيں جو ہمارے اطراف موجود ہيں ليکن نہ ہی ہميں نظر آتی ہيں اور نہ ہی ہم محسوس کرنا چاہتے ہيں ـ وگرنہ جب گذششتہ چند روز قبل ايک غريب عورت نے اپنے بچے برائے فروخت لگائے تو سندھ دھرتی کے غيرت مند پارليمينٹيرين نے بيان ديا کہ ’يہ عوامی حکومت کے خلاف سازش ہے۔‘ کسی غيرت مند ملا بشمول قاضی صاحب اور حق پرست قيادت کو توفيق نہ ہوئی کہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے کہ اگر غريب کو عزت کی روٹی نہيں دے سکتے تو کم از کم مذاق تو نہ بناؤ۔ اگر يہ فرض کر ليا جائے کہ ممبئی دہشت گردی انتہا پسند ملاؤں کی کارستانی نہيں ہے تو کيا کسی مذہبی ياسياسی تنظيم نے اس ظالمانہ فعل کے خلاف کوئی جلوس نکالا يا جلسہ منعقد کيا؟ اور نہيں تو کم از کم ہندوستانی ہائی کميشن جا کر اپنے افسوس کا اظہار کيا جاسکتا تھا۔ خلاصہ مختصر يہ کہ پاکستان ميں جيسے جيسے غربت بڑھے گی تعليم کم ہو گی ويسے ويسے ملا مظبوط اور طاقت ور ہو گا۔ نتيجہ دہشت گردی اندرون ملک وبيرون ملک پھيلے گي۔ خاکم بہ دھن ملک ٹوٹے گا۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ مجھے گالياں بھی ديں۔ ليکن ياد رکھيں کہ ’ريت ميں منہ دينے سے شترمرغ کی جاں بخشی نہيں ہوتی۔ الحمدو للہ ميں راسخ العقيدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہوں۔ نيز اس کے لیے مجھے کسی سے کسی قسم کی سند لينے کی ضرورت نہيں۔ يہاں ديار غير ميں آئے دن پاکستان ميں دہشت گردی کی خبريں اور ممبئی دہشت گردی کے بعد اپنے کومسلمان اور پاکستانی بتاتے ہوئے ايک غير محسوس قسم کا احساس جرم ہوتا ہے۔ اس کيفيت کو الفاظ ميں بيان نہيں کيا جاسکتا۔ اس درد کو وہ ہی لوگ محسوس کر سکتے ہيں جو اپنے وطن سے دور آباد ہيں اور کسی مخصوص سياسی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ پہلے بنگالی غدار بنا ، کبھی مہاجر بے غيرت تو کبھی پنجابی غاصب، کبھی سندھی تنگ نظر ، اور اب بلوچ دشمن پاکستان۔ واہ غريب کو خوب الجھاؤ آپس ميں لڑاؤ اور مزے کرو۔

    کہاں قاتل بدلتے ہيں ، فقط چہرے بدلتے ہيں
    عجب اپنا سفر ہے ، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہيں

  • 8. 16:02 2008-12-05 ,انور حسين :

    طاقت سے نفرت کو کچلنے کی کوشش کرنے کے بجائے نفرت کی وجوہات کو کم کرنے کی کوششيں ہی ديرپا امن لا سکتی ہيں۔ ہندوستان، اسرائيل، عراق اور افغانستان ميں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے اس ميں محبت اور رواداری کے پھول تو کھلنے کی اميد خود فريبی کے سوا کچھ نہيں۔

  • 9. 21:05 2008-12-05 ,shahhidaakram :

    عارف بھائی آپ نے خون دل ميں انگلياں ڈبو کر بلاگ لکھا ہے جوواقعی دل کے تاروں کو جھنجھوڑ گيا ہے۔ ہم ايک کے بعد ايک ايسے سانحوں سے گُزرتے جا رہے ہيں جو پوری دنيا پر ايک منحوسيت کی طرح وارد ہو گئے ہیں۔ کبھی يہ منحوسيت ہمارے لیے ممبئی دھماکوں کے طور وارد ہوتی ہے، کبھی پشاور اور کبھی کراچی ميں کی گئی دہشت گردی کی صورت ظاہر ہوتی ہے اور ميں صرف يہ سوچتی رہ جاتی ہوں کہ کن کن باتوں پر ہم کہاں کہاں مات کھا گۓ ہيں جو ہمارے ساتھ ايسا ہو رہا ہے۔ ہم انسان ہيں اور انسانيت پر يقين رکھتے ہيں اور انسانيت کا تقاضا يہی ہے کہ يہ نا ديکھا جائے کہ کون کس مذہب يا مسلک سے تعلق رکھتا ہے اصل مزہب، اصل مسلک تو انسانيت ہے جسے ہم کلی طور پر بھولے بيٹھے ہيں اور يہی وجہ ہے جو ہم بچوں سے اُن کا بچپنا اور معصوميت چھيننے کے گناہگار ہو رہے ہيں۔ بے بی فيس بچے بھی کسی کے بچے ہوتے ہيں کون ہے جو ان نفرتوں کو ہوا دے کر بے بی فيسوں کو نفرت اور خون کے دريا ميں دھکيل رہے ہيں کون ہے وہ؟ کونسی ہيں وہ طاقتيں؟کيا آپ اور ميں اُنہيں جانتے ہيں اور اگر نہيں جانتے تو کيوں نہيں جانتے؟ قصاب نام تو ماں باپ نے نہيں رکھا ہوگا۔ نام تو پيارے ہوتے ہيں ماں باپ چن کر نام رکھتے ہيں، سوچ سمجھ کر۔ اب وہ ہبرون کا رہنے والا بچہ ہو، فلسطينی ہوں، کشميری ہوں يا پاکستان يا ہندوستان، عراق، افغانستان ميں بسنے والے وہ معصوم جو ہميشہ سياستدانوں کی سياستوں کی بھينٹ چڑھتے ہيں خون کا رنگ سبھی کا يکساں ہوتا ہے بہانے والے کا بھی اور جس کا بہتا ہے اُس کا بھی۔

  • 10. 1:25 2008-12-06 ,مرزا محمد سعود بيگ ۔ Manchester, UK :

    نفرت کی اصل وجہ ظلم ہی تو ہے۔ دنيا ميں جہاں کہيں بھی ظلم حد سے بڑھا ہے تو لوگوں نے مجبوراً ہتھيار اٹھائے ہيں۔ ہم کسی انسان کو ذمہ دار کيونکر ٹھہرا سکتے ہيں جبکہ ہماری حکومتيں اپنی اپنی ذمہ داريوں سے نالاں ہيں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی غلطيوں کی ٹھيک ٹھيک نہ صرف نشاندہی کريں بلکہ ان کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کريں تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسليں کسی بھی قسم کی نفرت سے دور رہ سکيں اور اس دنيا کو پيار و محبت کا گہوارہ بنائيں۔ آمين

  • 11. 17:13 2008-12-06 ,Sajjadul Hasnain :

    عارف شميم بھائی
    کيوں ہوا ؟ کيسے ہوا؟ کيا ہوا ؟ يہ ايسے سوال ہيں جس کا شايد ہی کبھی جواب مل پائے۔ ممبئی ميں دہشت مچائی گئی، دو سو افراد کی جان گئی۔ اس کے باوجود آپ نے ديکھا کہ کيسے معاملات الجھائے گئے۔ اے ٹی ايس کے چيف ہيمنت کرکرے، اے سی پی اشوک کامٹے اور انکاونٹر سپيشلسٹ وجے سلسکر آئی پی ايس افسر کو کس چاک دستی سے موت کے گھاٹ اتار ديا گيا۔ ٹی وی ميڈيا کے نووارد اپنی پی ٹو سی کے دوران آج تک بھی کيمرے کے سامنے پر جوش سيليوٹ بجا لاتے ہوئے يہ کہتے نہيں تھکتے کے ديش کے ان شہيدوں کو ہمارا سلام۔ مگر انہيں شہيد کيسے کيا گيا اس بارے ميں کچھ کہنے کی انہيں ذرا سی بھی توفيق نہيں ہوتی۔ بچگانا رپورٹنگ سے پرے اگر کسی سنجيدہ جرنلسٹ نے ان معاملوں پر سوال اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے تو سياستدانوں کے پر جوش نعروں اور حب الوطنی کے احمقانہ مظاہروں نے معاملے کو دبانے ميں بڑا ہی موثر کردار ادا کيا ہے۔ اب يہی ديکھيے کہ خواتين تنظيموں کے وفود مختلف شہروں سے جوق در جوق ممبئی پہنچے اور علامتی مقام پر موم بتياں جلائی گئیں اور جب ايک سياستدان نے چڑھ کر کہا کہ يہ لپ سٹک اورغازہ ملنے والی خواتين جذبہ کيا جانیں تو پھر چاروں طرف سے وہ شور اٹھا کہ بس۔ ان حملوں کے بعد مہاراشٹر کی حکومت آج تک بھی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ وزيراعلی نے استعفی ديا، وزيراعلی بنائے گئے اور پھر نئے وزيراعلی کے خلاف وزير اعلی کے امکانی اميدوار نے علم بغاوت بلند کر ديا ہے ادھر مرکز ميں شيوراج پاٹل کو ہوم منسٹر کی حيثيت سے مستعفی ہونا پڑا يہ سب کچھ محض اور محض پاکستان کو الزام دے کر ممکن بنايا جاسکا ہے۔ ممبئی حملوں کے سيلاب نے مالے گاؤں دھماکوں کی تمام شہادتيں اور ہندو دہشت گردی کا ايک نيا چہرہ متعارف ہونے سے پہلے ہی گمنامی کی اتھاہ گہرائيوں ميں ڈبو ديا۔ يہودی ہر زمانے ميں ہولناک مظالم سر انجام ديتے رہے ہيں اور جب ان کے خلاف کوئی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سچ سامنے آنے لگتا ہے تو پھر ايک شور سا مچ جاتا ہے۔

    بالکل اسی طرح جب يہاں کچھ حقيقتيں آشکار ہونے لگتی ہيں تو پلک جھپکتے حب الوطنی کے پردے ميں کچھ ايسے لپيٹ ديا جاتا ہے کہ کوئی کچھ سمجھ ہی نہيں پاتا ہے۔ تقسيم سے ليکر آج تک ہندوستان کی سياست ميں يہی سازشيں موثر اور کارگر نسخہ ثابت ہوئی ہيں اور وہاں اسرائيل بھی اسی طرح کے نسخوں کو اکسير قرار ديتا ہے نائين اليون کے بعد کا سچ کوئی نہيں جانتا ليکن اس کی آڑ ميں اسلامی دہشت گردی کو ہوا دی گئی، مسلمانوں کا چہرہ مسخ کيا گيا، عراق و افغانستان تباہ کيے گئے اور آج بھی جب نائين اليون کا ذکر آتا ہے تو لوگ بن لادن ہی کے خلاف پوری قوت سے اپنے منہ کا جھاگ اڑاتے نظر آتے ہيں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مظلوم اور ظالم کی رٹ لگانے کے بجائے حقيقتوں اور امکانات پر غور کيا جائے اور ٹھنڈے دل کے ساتھ انتہائی واضح حکمت عملی تيار کی جائے۔ ليکن کيا يہ مسلمانوں سے ممکن ہو پائے گا۔ يہ بھی ايک بڑا سوال ہے۔
    خيرانديش، سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن

  • 12. 13:09 2008-12-07 ,sana :

    مجھے نفرت ہے نفرت سے ! عارف بھائی آپ مزيد کرب کيوں بڑھا رہےہيں۔ اس کرب زدہ زندگی ميں؟

  • 13. 11:06 2008-12-08 ,sana :

    رضا انکل، حقدار کو اگر اسکا حق مل بھی جائے تو بھی ’بے بي فيس‘ پيدا ہونے اس وقت تک بند نہيں ہوں گے جب تک انسان ميں لالچ اور حسد ختم نہيں ہوگا۔ اسماء خالہ کے تبصرے نظر نہيں آ رہے، اگر ميرا تبصرہ انکی نظروں ميں آۓ تو اپنی خيريت سے ہميں مطلع کر ديں۔

  • 14. 14:45 2008-12-08 ,نديم اصغر :

    محترم عارف صاحب! السلامُ عليکُم ـ
    ’عقل عيار ہے، سو بھيس بنا ليتی ہے!‘
    ديکھنے والی بات يہ ہے کہ اِن سب `بے بی فيسِز` (BABY-FACES) کے پيچھے در اصل کون کون سے مکرُوہ چہرے اور خُونی ہاتھ کار فرما ہوتے ہيں اور درپردہ اُن کےکيا عزائم ہوتے ہيں ! بالخصوص ممبئی کے حوالے سے اِن سوالات کے جواب ڈھونڈنے بيٹھيں تو سرِدست ’جتنے منھ، اتنی باتيں‘ کی مثال صادق آتی ہے ـ البتہ اتنا طے ہے کہ بھارتی حکام اور بھارتی ميڈيا کی ہر دم تبديل ہوتی ہوئی `کہانياں سراسر ناقابلِ يقين ہيں !
    خير انديش ـ نديم اصغر

  • 15. 15:21 2008-12-08 ,عمر احمد بنگش :

    قاتل کو یہ پتہ نہیں کہ کیوں قتل کر رہا ہے، جبکہ مقتول کو یہ پتہ نہیں کیوں قتل کیا جا رہا ہے!
    افسوس رے دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

  • 16. 7:07 2008-12-17 ,اعجاز اعوان :

    کتنا آسان ہے کہ سب کچھ ملا نامی بلا پر ڈال کر ہم سب اپنی ذمہ داری پوری کر ديتے ہيں- ميرا آپ سب سے سوال ہے اور سب کو دعوت فکر ہے کہ کيا ساٹھ سالوں سے تمام مسائل کا ذمہ دار ملا ہی ہے ؟
    آپ کو بلوچستان کا سردار، سندھ کا وڈيرہ ، پنجاب کا چوہدري، سرحد کا خان اور پورے ملک کے سرمايہ دار، جاگيردار ، سياستدان اور کرنل جرنل نظر نہيں آتے جن کی مہربانيوں سے آج ہميں يہ دن ديکھنے پڑ رہے ہيں ۔ يہ لوگ کبھی نہيں چاہيں گے کہ غريب عوام کی نظر ان کی کارستانيوں پر پڑے لہذا ان لوگوں نے اپنے زرخريد دہشت گردوں کو ملا ازم کی لگام پکڑا دی ہے۔ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اور اگر کوئی خود کو مسلمان کہلواتے ہوئے اسلامی تعليمات کے خلاف کوئی اقدامات کرے تو اسکا اسلام سے کيا تعلق ؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔