بہروپئیے ڈکٹیٹر
لگتا ہے شہباز شریف کی والدہ بھی بچپن میں وہی کہہ کر ڈراتی ہوں گی جو پنجاب کے دیہاتوں میں کئی مائیں کہتی تھیں : بیٹا سو جاؤ نہیں تو پٹھان اٹھا کر لے جائے گا۔
گزشتہ ہفتے ہمارے ساتھی نثار کھوکھر کے بقول انہوں نے سندھ اور سرحد کے صحافیوں کی ایک ٹیم کو مدعو کیا اور باقی باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے فوجی آمر پٹھان تھے۔ اور کہا کہ جنرل ضیاالحق کا ڈومیسائل پشاور کا تھا اور پرویز مشرف تو کراچی کے رہنے والے تھے۔
پہلا سوال ذہن میں یہ آیا کہ کیا میاں شریف جنرل ضیاالحق سے پشتو میں گفتگو کیا کرتے تھے؟ دوسرا وہ لمحہ یاد آیا جب پرویز مشرف کی آواز پہلی دفعہ سنی تھی۔ میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ شخص تو اردو بولنے والا ہے پھر پنجابی لہجے میں کیوں بول رہا ہے۔ ایک سینئیر صحافی نے کہا فوج کی کمان کرنی ہے تو یہ تو کرنا پڑے گا۔
لیکن شہباز شریف کی تھیوری کو درست مانتے ہوئے کسی تجزیہ نگار نے یہ امید بھی دلائی ہے کہ چونکہ جنرل کیانی سو فیصد پنجابی ہیں اسلئے جو آپ سوچ رہے ہیں وہ تو کبھی نہیں ہوگا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ وہ نہیں ہوگا جو سب سوچ رہے ہیں مگر جس کا ڈر ہے وہی ہوگا!
دودھ پہ پلنے والے شير بھی بڑے ہو کر گوشت خور ثابت ہوتے ہيں۔
پتا نہيں شہبازشريف ہم پٹھانوں کے پيچھے کيوں پڑے ہوئے ہيں جو سب آمروں کو پٹھان بنا ڈالا ہے۔ ضياء کو پٹھان کہہ کر ہم پٹھانوں کي توہين کرنے کے ساتھ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدير خان کی خدمات کو بھی مشکوک بنا ديا ہے۔ شرم تم کو مگر آتی نہيں۔
مزے لُوٹتی ہے زباں کيسے کيسے!
نديم اصغر
پتہ لگاؤ کيا واقعی جنرل کيانی سو فيصد پنجابی ہيں اگر ايسا ہی ہے تو پھر جو مرضی سوچ لو! ہوگا وہی جو کيانی صاحب کے بڑے چاہيں گے اب يہ بڑے کون ہيں يہ آپ سب مل کر سوچو۔۔۔
واہ پٹھان نہيں ہوا شعلے فلم کا گبر سنگھ ہو گيا ، پٹھان پنجابی ہونے سے کچھ نہيں ہوتا جيسا ماحول اور تربيت ہوگی بندہ ويسا ہی بنے گا۔
ہم پنجابيوں کےليے باعث شرمندگی ہے کہ ہم ہر آمر کے دست و بازو بنے۔