'دین اور وطن کے دشمن'
صوبہ سرحد کے شورش زدہ علاقے سوات میں ایک سال سے زائد عرصے سے فوجی کارروائی جاری ہونے کے باوجود حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت کی اس علاقے میں رٹ صرف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کرنے کی حد تک رہ گئی ہے، اور دوسری طرف طالبان کے غیر قانونی ریڈیو ایف ایم چینل کا اثر و رسوخ سوات میں کہیں زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ تیسری طرف عام شہری اسی میں عافیت سمجھتا ہے کہ اس علاقے میں جس کی عملاً عملداری ہے اسی کی سنی جائے۔
سوات میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران تقریباً گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانوں کی بمباری سے کئی شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کیے جانتے ہیں، لیکن ان ہلاکتوں کے باوجود طالبان نہ صرف زیادہ مستحکم ہوئے ہیں بلکہ ان کی عملداری ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد سوات پر قائم ہوگئی۔
نتیجہ یہ کہ ایک طرف حکومت اپنی ناکامی ماننے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف طالبان مستحکم۔ بیچ میں پسا کون، بے چارے شہری۔
سوات میں اب کہا جاتا ہے کہ کسی نے پوچھا کہ طالبان کیسے لوگ ہیں تو جواب ملا بہت اچھے کیونکہ وہ دین کے محافظ ہیں اور 'اللہ اور دین کے دشمنوں' کے خلاف لڑتے ہیں۔ پھر پوچھا گیا کہ فوج کیسی ہے تو جواب ملا کہ بہت اچھی کیونکہ وہ 'وطن کی حفاظت کرتے ہیں اور ملک کے دشمنوں کے خلاف' لڑتی ہے۔ تو پھر پوچھا گیا کہ دین اور وطن کے دشمن کون ہیں تو جواب ملا ہم شہری۔
تبصرےتبصرہ کریں
اس بلاگ کا مرکزي خيال: گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
اچھا جواب ديا دين اور وطن کے دشمن ہم شہری بہت خوب
زرا سو چۓ تو کہ اس کام کی ابتدا کيسے اور کب ہوئی - اگر قوم کی ياداشت کمزور ہو تو سن ليجۓ - باباۓ قوم حضرت قائد اعظم نے رياست بنا تے وقت کہا تھا کہ ”رياست کا آپ کے مذھب کے ساتھ کوئی تعلق نہيں” مگر اس اصول کی نفی سنہ 1974 ميں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ايک فرقے کو قانون کے مقا صد کے ليے ناٹ مسلم قرار دے کر اس فرقے کے لوگوں کا مذھب از خود متعين کرنے کا قانون بنايا- اب فا ٹا اور سوات ميں ايک طا قتور گروہ اپنے لوگوں کے مذھب کو متعين کرنے اورسارے پاکستان ميں اس طرز کی حکومت قائم کر نے کی کوشش کر رہا ہے - تو اس کام کي ابتدا تو قائد کے حکم اور راہنما اصول کی خلاف ورزی کر کے آپ نے خود کر دی تھی - اب بھی احباب حل وعقدسن 1974 کے کا م کو اپنا بڑا کار نا مہ گنتے ہيں - ابھی وقت ہے کہ بغير کسی تعصب کے سوچيں اور با قی ملک کو بچا ليں -
میں حیران ہوں کہ پاکستانی فوج بھارتی فوج کے ساتھ کیسے لڑے گی جو وہ طالبان کے ایک چھوٹے سے گروپ کو کنٹرول نہیں کر سکی۔ طالبان کا غیر قانونی طور پر چلنے والا ایف ایم چینل کو ٹریک نہ کرسکے جو کہ میرے خیال میں بہت آسان ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایف ایم پورے آب و تاب کے ساتھ زہر اگل رہا ہے۔ بچیوں کے سکولوں ۔ کے بعد اب لڑکوں کے سکول تباہ کیے جا رہے ہیں۔ کرفیو لگایا جاتا ہے تاکہ طالبان آسانی سے نقل و حرکت کرسکیں۔ آج رات کرفیو کے دوران آٹھ ٹرک کرفیو کے دوران مینگورہ کے مضافات میں گھس کر مورچے بنا دیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کرفیو کے باوجود وہاں کیسے پہنچے۔ فوج اکبر بگٹی کو تو گھر میں قتل کرتکتی ہے اور طالبان کو شلامی کرتی ہے۔ اللہ کے لیے کوئی اس فوج کو سمجھائے کہ سوات کی بے بس عوام کو طالبان کی گرفت سے نکالے اور یہ ثابت کرے کہ پاکستانی فوج کسی بھی دشمن پر حاوی ہو سکتی ہے۔
آداب ! ہمدانی صاحب ، اور اس ساری صورت احوال پر ہم دور بيٹھے لوگوں کا کيا کہنا فرض بنتا ہے - - - -
جيوے پاکستان ؟
جيوے پاکستانی ؟
يا پھر جيوے طالبان ؟
ويسے ايک آپشن اور بھی ہے ”جيوے افغانستان”
سہی کہا آپ نے۔ آدھا پاکستان زرداریوں کا اور آدھا طالبان کا ہے۔عام شہری تو اس ملک کے دشمن ہیں اسی لیےَ ہر کویَ انہیں ختم کرنے پہ لگا ہوا ہے۔
اور ہم شہريوں کو وطن دشمن بنايا کس نے ؟ نااھل ليڈروں نے يا ھماری جاھليت نے
سوات اور پورے پاکستان میں جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ ہماری اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم سب کو آزاد اور جمہوری پاکستان بنانا چاہیے جہاں پاکستانی فوج اور اس کے پالے ہوئے طالبان کا کوئی کردار نہ ہو۔
ایک طرف آپ ہیں اور دوسری طرف طالبان۔ بیچ میں سیدھا سادھا مسلمان۔
جنت نظیر سوات کو پاکستان کا سویٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔۔ اب تک کی حکومتی حکمت عملی کے مطابق طاقت کے ساتھ ساتھ مزاکرات کئے جا رہے ہیں۔۔۔ لیکن طاقت کا استمال طالباں کی طاقت بڑھانے اور عوام میں ان کے لئے ہمدردی پیدا کرنے کے علاوہ کچھ فائدا نہیں دے رہا۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طاقت کے استمال کی جگہ حکومت اس مثلے کی وجوہات ختم کرے۔۔۔ وجوہات کے خاتمے سے فضل اللہ اور طالبان خود بہ خود ختم ہو جائیں گے۔۔۔ اے این پی حکومت کی جانب سے مجوزا شرعیت بل کا فی حد تک سوات کے مثائیل کے حل کا سبب بنے گا۔۔۔ مگر شریعت کے نفاظ کے ساتھ ساتھ حکومت کو معاشی مثائیل پر بھی توجہ دینا ہو گی
طالبان، فوج اور آئی ایس آئی سب ایک ہیں۔ جب داڑھی رکھ لیتے ہیں تو طالبان کہلاتے ہیں اور جو داڑھی صاف کر لیتے ہیں تو فوج اور آئی ایس آئی کہلاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اب سمجھ آ جائے گی کہ طالبان کا کیوں خاتمہ نہیں ہوتا۔
اس ميں سب غلطی عوام کی ھے خود نااھل حکمران لاتے ہيں پھر روتے ہيں
میں صرف یہ کہوں گا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے
سب کچھ کرکے ديکھ ليا- ليکن حالات ٹھيک نہيں ہوئے- اب آخری بار انکي نسوار بند کرکے ديکھيں، شايد انکے دماغ کی گرمی کم ہو-
جناب چوہدری منير صاحب 1974 ميں جن کو نان مسلم قرار ديا گيا وہ کوئی فرقہ نہيں تھا بلکہ فتنہ تھا۔ جو کوئی بھی نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کو آخری نبی نہ مانے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اس ميں کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ والی بات نہيں۔ باقی رہی سوات کی بات تو جناب اگر آرمی چاہے تو ان ملک دشمن عناصر کا خاتمہ دنوں کی بات ہے مگر يہی تو سب کوسمجھ نہيں آرہا ہے کہ آرمی کس بات کا انتظار کر رہی ہے ۔ مگر جناب من اب آپ بہت جلد ان طالبان نامی دہشت گردوں کا خاتمہ ہوتے ہوئے ديکھيں گے کيوں کہ اگر آرمی آج سے چند ماہ پہلے ان کے خلاف سخت ايکشن ليتی تو آج ہر کوئی ان کو مظلوم اور آرمی کو ظالم کہہ رہا ہوتا مگر اب سب کے سامنے طالبان نامی دہشت گردوں کا اصل چہرہ واضح ہو گيا ہے تو اب سب چلا چلا کر کہہ رہے ہيں کہ ان سے جان چھڑواؤ۔
محترم ہمداني صاحب، آداب! لاہور شفٹ ہونے سے پہلے بچپن ميں جب ميں اپنے پنڈ واقع لائلپور ميں ہوتا تھا تو وہاں کبھی اللہ بخشے دادای جی کے ہاں سو جاتا تو کبھی نانی جی کے ہاں- دونوں گھروں ميں صرف ايک چھت اور ايک سيڑھی کا فاصلہ ہوتا تھا- ليکن ميرا زيادہ بچپن نانی کے گھر ہی ميں گذرا- روزانہ صبح سويرے چاٹی ميں مدھاني سے دودھ رِڑکا جاتا اور جسکی آواز ايسی محسور کن لوری کی مانند ہوتی کہ خواہش ہونے لگتی کہ يہ آواز نہ رکے- مدھانی گھماتے رہنے کے ساتھ ساتھ وقتآ فوقتآ انگشت شہادت سے چاٹی ميں مکھن پيدا ہونے کی سطح کا جائزہ بھی ليا جاتا- جب مکھن بن جاتا تو اس کے پيڑے بنا کر علحيدہ پرات ميں رکھے جاتے- خاکسار کا صبح کا ناشتہ پراٹھا اور مکھن ہوتا اور ساتھ لسی کا جگ- سچ بات تو يہ ہے کہ اس ناشتہ کے مقابلے ميں موجودہ ناشتہ يعني چاۓ بسکٹ ڈبل روٹي انڈہ سينڈوچ وغيرہ کسی شمار ميں ہی نہيں ہيں- يہاں يہ ياداشت لکھنے کا مقصد يہ ہے کہ حکومت 'چاٹي' ہے، نظام تعليم، پاليسي ساز و قانون ساز و آئين ساز ادارے ، اور اسٹيبليشمنٹ 'دودھ' ہيں، ان کو چلانے والے 'مدھاني' ہيں اور شہری 'مکھن' ہيں- ظاہر ہے جب مدھانی صحيح طرح سے چاٹی ميں نہ گھمائی جاۓ گی تو صحيح مکھن يعنی شہری پيدا نہيں ہوں گے اور جب مدھاني گھمانے والا سست ہو يا نيک نيتي سے مدھاني نہيں گھماۓ گا تو مکھن بھرپور پيدا نہيں ہوگا- اور دودھ ميں اگر ملکي و غيرملکي پاني کي ملاوٹ ہو تو بھی صحتمند مکھن پيدا نہيں ہوگا! لہذا ہم يہ کہنے ميں حق بجانب ہوگۓ ہيں کہ شہريوں کو دين و وطن کا دشمن ٹھرانے کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا کيونکہ شہري پيدا کرنا، شہري بنانا حکومت اور اسکے اداروں کا کام ہے يہ ازخود شہري نہيں بنتے- جسطرح بچے کا اپنا کوئی ذاتي تشخص نہيں ہوتا بلکہ وہ اپنی تعليم وتربيت اور داخلی و خارجی ماحول سے اپنا ذاتی تشخص کشيد کرتا ہے، بالکل اسی طرح تعليم وتربيت، ذرائع ابلاغ و ميڈيا، لٹريچر و نصابي و غيرنصابي سرگرمياں، سياسی و اخلاقی و معاشرتی و معاشی حالات اور حکومتی عزائم ہی کسی کو اچھا يا برا شہري بناتے ہيں- لہذا اگر ہم شہری دين و وطن کے دشمن ہيں تو ہميں 'بنايا' گيا ہے- بہتر تو يہ ہے کہ 'چور نوں ناں مارو چور دی ماں نوں مارو' کے مصداق ميڈيا، ملائيت، ملائي نظام تعليم، اسٹيبليشمنٹ اور تعليمي وغيرتعليمي نصاب کو دين و وطن کا دشمن قرار ديا جاۓ- ديکھا جاۓ تو ملک دشمن عناصر، بيورکريسی و ملائيت کے باوجود ہم شہريوں کو ايوارڈ ملنا چاھيۓ کہ ہم نے ملک دشمنوں، جہاديوں، دھشتگردوں، لکير کے فقيروں اور انتہا پسندوں کے زيرِ سايہ شہری بننے کی منازل طے کرنے کے باوجود ہم نے انہيں ووٹ نہ ديکر دين و وطن کی حفاظت کی ہے! سبحان اللہ!
جنرل مشرف کے شروع کےاقدامات سے يہ لگا تھا کہ شايد اس قوم کونا اھل سياست دانوں سے نجات ملے گی ليکن اقتدار کے حوس نے ان کے سارے ارادے بدل ديےجو بھی اميديں
تھيں وہ "وار اف ٹيرر"ميں شموليت سےوہ اپنےاپ کو حقيقت ميں لازوال سمجھنے لگے اور جن اقدامات کی توقع تھی وہ ختم ہوگيی۔ جيسےہی بش کےدور کا خاتمہ ہونےلگا تو ان کواپنے اقتدار کے خاتمے کی فکر ہونے لگی اور بوکلاہٹ ميں چوروں سے ڈيل کر دی۔ جنرل مشرف پھر بھی فوج کو کنٹرول کر سکتے تھے ليکن موجودہ حکومت کو پتہ ہی نہيں کہ کيا ہورہا ہے۔ باجوڑ ہو يا سوات فوج ٹيرر کو کنٹرول نہيں کرتی اور بمباری "دشمن"يعنی عوام پر کرتی ہے جانی 'مالی نقصان کے ساتھ ساتھ 'دشمن'کو ذہنی مريض بنا دیے تو دشمن ہم ہی ہوے نہ
پاکستان آرمی عوام کو مار رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں سند طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔
سوات میں فضل اللہ نے جب یہ فتنہ شروع کیا تو اس وقت سوات کے تما م محب وطن شہریوں نے فضل اللہ کے اندھے پیروکاروں کو سمجھانےکی کوشیش کی تھیں جن کو کافر کہلا کر چپ کرا دیا گیا۔ بعدمیں انہوں نے حکومت وقت سے مدد کی اپیل کردی تھی جو کہ نظراندازکی گئی۔حیرانگی ا س بات کی ہے،کہ جن لوگوں نے سڑک کے کنارے طالبان کے چندے کی چارپایوں کو نوٹوں اور سونے سے بھر دیا تھا (ان کو بتایا گیا تھا کہ اپنے پیر پہ خود کلہاڑی مار رہےہو)پھر بھی نمایشی انداز میں لوگ رقم، سونا، چاندی اور غیرملکی کرنسی سے چارپایاں بھرتے رہے اور انجام سے بےپروہ تھے۔ اب وہی طالبان گاؤں کے لوگوں کو ڈھال بنا کے ان کے بچوں اور بچیوں کے سکولوں کو بموں سے اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو خود بھی ما رہے ہیں اورفوج سےبھی مروا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے طالبان کو طاقتور بنانےکےساتھ ساتھ اپنے اپ کو طالبان کا چارہ بناکرفوج کے بھی دشمن بن گیے۔
اب بھگتو!