تین حرفی جواب ۔۔۔
سب سے پہلے حجاموں، فنکاروں، لختئی یا ناچنے والے لڑکوں، سکول جاتی بچيوں، پولیس والوں، فوجیوں، خاصہ داروں، صحافیوں، اے این پی کے کارکنوں، بودھی مجسموں، درویشوں، پیروں ،فقیروں،پتنگ فروشوں، عورتوں، یہاں تک کہ چرواہوں کے بعد اب یہ طالبان پشتو کے عظیم شاعر رحمان بابا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے رحمان بابا کے مزار کو بھی دھماکے کا نشانہ بنایا ہے۔
'لیکن جو کعبے کے بیچ سوئی ہے وہ اپنے پاؤں کہاں لے جائے گی' سندھی صوفی شاعر روحل فقیر نے کہا تھا۔ روحل نے یہ بھی کہا تھا:
'ساجن سائيں سیرکرن کو بن آیا انسان
کہیں یہ ہندو گبر یہودی کہیں یہ مسلمان '
بلکل اسی خیال کو تین سو سال قبل اس وقت کے گمنام شاعر رحمان بابا نے کیسی نہ پشتو روح میں کہا تھا :
'میں عاشق ہوں اور کار عشق کرتا ہوں
نہ میں خلیل ہوں، نہ دائود زئی اور نہ مہمند'
میں نے نیویارک میں سوات سے تعلق رکھنے والے ایک پختون نوجوان عمر خان سے رحمان بابا کے مزار پر حملے متعلق اس کی رائے پوچھی تو اس نے فوراً یہ تین حرفی جواب دیا 'آئی ایس آئی' ۔
کچھ روز قبل انہی طالبان نے ایک صوفی منش پیر کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش شہر کے چوراہے پر ٹانگ دی تھی اور کئی ماہ قبل باچا خان کے ساتھی حاجی ترنگ زئی کے مزار پر مسلح قبضہ کرلیا تھا۔ بلوچستان میں صوفی برادران چيزل شاہ اور رکھیل شاہ کے مزاروں اور اسلامہ آباد میں بری امام بم دھماکوں کے بعد اب رحمان بابا۔ کیونکہ جنونی سمجھتے ہیں کہ نہ انہیں ڈرون طیارے ختم کرسکتے ہیں نہ نیٹو کی فوجیں بلکہ صوفیوں کا تصور جاناں اور خیال کا آسمان انہیں دھڑام سے زمین دوز کردے گا۔
سنہ دو ہزار ایک میں ستمبر گيارہ سے کئی روز قبل اکادمی ایوارڈز کی تقریب میں ایوارڈ کی مورتی ہاتھ میں لہراتے ہوئے ایک اداکار نے کہا تھا 'شکر ہے کہ یہ اکیڈمی کی مورتی طالبان کی ہاتھوں سے بہت دور ہے'۔ دنیا اس وقت بھی خاموش تھی جب بامیان میں عظیم بدہ کی مورتی تباہ کی جا رہی تھی۔ کوئی مجھے سے کہہ رہا تھا کہ جب طالبان کا 'جنت جیتنے' کا موڈ ہوتا تھا تو وہ بامیان کے ہزارہ لوگوں کو قتل کر دیتے تھے۔
تبصرےتبصرہ کریں
’خدا کے سامنے کس منہ سے جائيں گے خدا جانے
محبت کا کوئی دھبہ نہيں ہے جن کے دامن پر‘
ڈئير حسن، آداب! جس طرح بغير سوچے سمجھے، بغير ديکھے بھالے، بغير غور وفکر کيے، اور رٹے رٹائے ’فوجي آمريت‘ کو برا بھلا کہہ کر خود کو دنيا کے سامنے ’جمہوريت کا داعی‘ دکھا کر نمبر بنانے کا فيشن چل رہا ہے، اور ’عدلياتی آمريت‘ کو ’آزاد عدليہ‘ گردانا جاتا ہے بالکل اسي طرح ہر معاملے ميں تين حرفي لفظ ’آئی ايس آئي‘ کو گھسيٹنے کا بھی فيشن چل رہا ہے اور يہ فيشن ’گھر‘ ميں پھوٹ ڈلوانے کے لیے ’استعمار‘ کا ہی لايا گيا ہے۔ علاوہ ازيں چونکہ يہ تين حرفی لفظ يعنی 'آئی ايس آئي' اس قدر بہتات و تواتر سے استعمال ہوتا ہے اس ليے اس کے پيچھے ضرور کوئی سازش کام کر رہی معلوم ہوتی ہے جس کے مقاصد ميں سے بڑا مقصد عوام کو فوج کے خلاف کرنا ہے تاکہ ملک انتہائی کمزور ہو جائے! جہاں تک رحمان بابا کے مزار پر حملے کا تعلق ہے تو يہ حملہ فرقہ وارانہ لہر کا ايک حصہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے انتہا پسندوں کے حمايتی جنونی ميڈيا کو ديکھ ديکھ کر يوں لگتا ہے کہ ہم سب انتہا پسند ہيں مگر آپ کی تحرير انتہا پسندی کی اس آگ ميں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔