نواز شریف کو غصہ کیوں آتا ہے؟
پہلی وجہ تو اس ایس ایم ایس سے معلوم ہو سکتی ہے جو ان دنوں بکثرت پاکستان کے موبائل فونز پر گردش کر رہا ہے۔
' زرداری سائیکل پر ایوانِ صدر جا رہے تھے۔ راستے میں نواز شریف نے انہیں روک کر کہا۔۔۔سائیں آپ کو بی بی کی شہادت کے طفیل سب کچھ مل گیا۔ ہمیں بھی کچھ دے دیں۔ زرداری نے کہا میرے پیچھے بیٹھو۔ ایک اور چکر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔'
دوسری وجہ سلمان تاثیر ہیں جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں اس وقت لاہور کے ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر مارا گیا تھا جب سلمان تاثیر بے نظیر کے جیالے کے طور پر نواز مخالف تحریک میں پیش پیش تھے۔ اسکے بعد سلمان تاثیر نے سیاست ہی چھوڑ دی اور پھر انہیں پندرہ سال بعد بطور گورنر یہ موقع دیا گیا کہ نواز شریف کو سیاسی طور پر الٹا لٹکا سکیں تو لٹکا دیں۔
تیسری وجہ برج جدی ہے جس کے زیرِ اثر جنم لینے والے لوگ پہاڑی بکرے کی طرح خاصی قوتِ برداشت کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بپھر جائیں تو پھر کسی کی نہیں سنتے۔ نواز شریف پچیس دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔
اور نواز شریف کو غصہ آنے کی آخری وجہ ان کا سیاسی سانس روکنے میں مصروف لوگوں کا یہ شکوہ ہے کہ صاحب! کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ جس کا گلا دباؤ وہی آنکھیں نکالتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب کيا کہيں بس بقول شاعر
اندھيراتنا ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
شور اتنا ہے کہ کچھ سنائی نہ دے
حاکم وقت کھڑا ہے کٹہرے ميں
اور حکم ہے کوءی گواہی نہ دے
بس دعا ہی کر سکتے ہيں اور ہمارے بس ميں کيا ہے
نواز شريف صاحب کو غصہ آصف زرداری کی وعدہ خلافيوں کی وجہ سے اور ملک و قوم کے ليے درد رکھنے کی وجہ سے آتا ہے۔
نواز شریف کو غصہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے زرداری ہر دفعہ سائیکل پر ہی چکر کیوں دیتے ہیں۔ کبھی گاڑی میں بھی دیں۔
وسعت بھائی، سلمان تاثیر کی وجہ سے نہ صرف نواز شریف بلکہ پورے نو کروڑ پنجابی غصہ میں ہیں۔ اس نے پنجاب کے ساتھ پورے پاکستان کا امن تباہ کیا۔ لوگوں کی منہ سے دو روپے کی روٹی چھینی۔
محترم غصے کا ايک مثپت پہلو بھی ہے وہ يہ کے سياست کے کچھ راز فاش کر ديے جاتے ہيں۔
زرداری ہو یا نواز شریف قوم کا سگا کون ہے۔۔۔افسوس میرا ملک قحت کا شکار ہے۔
لانگ مارچ کے بعد ديکھو کہ زرداری کو کتنے چکر آتے ہيں؟
اپنی نا اہلی پہ-
وسعت اللہ صاحب، يہاں کوئي کسی سے کم نہيں ہے۔ جاگيردار اور لسانی گروہوں نے دھونس کي سياست کي تو مياں صاحب نے پيسے کی چمک متعارف کروائی۔ موصوف پاکستانی سياست ميں ہارس ٹريڈنگ کے بانی رہے ہيں۔ چھانگا مانگا کے ريسٹ ہاؤسوں کی داستانيں کسے ياد نہيں ہيں۔ ہميں سب ياد ہے ليکن چليےايک مقع انہيں بھي دے ديجيے جيسے دوسروں کو ديا ہے۔ شاید يہ سدھر چکے ہوں۔ ليکن سچ پوچھيے تو کسی ايک جماعت کا کوئی ايک ليڈر بھي قومي قيادت کے لائق نظر نہيں آتا ہے۔
آداب عرض! غصہ کی وجہ ہے ناکامي اور ناکامی کی وجہ کم علمی اور اس کی کئی وجوہات ہيں۔ جو لوگ شوق سے علم حاصل کرتے ہیں ان ميں اور صرف نوکری کی غرض والوں ميں بے حد فاصلہ ہوتا ہے۔۔ شکريہ
نواز شريف کو غصہ اس ليے آتا ہے کيوں کہ وہ دوبارہ يلو کار اسکيم چلانا چاہتے ہیں مگر پيسے نہیں ہیں ان کے پاس۔
وسعت بھائی کيا خوب لکھا ہے آپ نے۔ غصہ اسلیے بھی آتا ہے کہ بھائی کی نوکری چلی گئی۔ کاش مياں صاحب کو اتنا غصہ ان لوگوں پہ بھی آتا جو سوات کے
بے چارے لوگوں کو مار کے ان کےلاشوں کو چوک پہ لٹکاتے تھے۔
محترم وسعت اللہ خاں صاحب، آپ کي بالا باتوں کے علاوہ نواز کو اس وجہ سے بھی غصہ آتا ہے کہ انہيں کوئی ايسی بات نہيں سوجھ رہی کہ جس سے وہ اپنی يعنی نہ صرف بيک وقت بلکہ خالصتاً ملائيت و آمريت کی پيداوار ہونے کی حقيقت کو افسانے ميں بدل سکيں اور اس ليے بھی انہيں غصہ آتا ہے کہ ان کی ن ليگ ابھی تک صرف تاجروں کے ٹولے، سرمايہ داروں کے جتھے اور بينکروں، بزنس مينز، آڑھتيوں اور ٹھيکيداروں کے جمگٹھے ہی پر مشتمل ہے، اس ميں عام لوگ کيوں نہيں شامل ہوتے اور يہ بيس سال تک صرف پنجاب کے استعمار کے پنجرے ہی ميں کيوں بند رہی ہے؟ نيز نواز کو اس وجہ سے بھی بےچينی رہتی ہے کہ ان کو کوئی راہ نہيں سوجھ رہی جس سے ان کا معطل عدليہ کو ’پوجنا‘ ڈرامہ ثابت نہ ہو کہ ان کي ن ليگ ملک کی سب سے بڑی عدليہ سپريم کورٹ پر نہ صرف دن دھاڑے حملہ کرنے ميں ملوث رہ چکی ہے۔ علاوہ ازيں مياں صاحب کو غصہ آنے کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ ان کے يہ کہنے ميں کيا کشش و وزن رہتا ہے کہ وہ نظام عدل پر جان تک نچھاور کر ديں گے کہ موصوف کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہيں جب صرف جان ومال بخشی کی خاطر ’مشرف نواز معاہدہ‘ کر کے ملک چھوڑ گئے تھے۔ حاصل کلام جو نکلتا ہے وہ يہ ہے کہ مياں صاحب دراصل اپنی اندرونی بےچينی و احساسِ گناہ کا اظہار غصہ کی شکل ميں کر کے خود کو ’ہلکا‘ کرنے کی تگ و دود کرتے ہيں۔
يعنی سائيکل چرا کر لے گيا کوئی
يا ہم اسے سنبھال ہی نہ سکے جی