'گُڈ کاپ بیڈ کاپ'
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ آج کل 'گُڈ کاپ بیڈ کاپ' کھیلا جا رہا ہے۔ امریکی کامک کہانی میں مشترکہ تشویش کے لیے جو دو پولیس والے ہوتے ہیں ان میں ایک برا پولیس والا اور ایک اچھا پولیس والا بنتا ہے جب کہ دونوں کا مقصد تفتیش کے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں آصف علی زرداری 'بیڈ کاپ' ہیں اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی 'گڈ کاپ' یا اچھے پولیس والے ہیں۔ اور سب سے بڑا اچھا پولیس والا یا 'گڈ کاپ' آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بتائے جاتے ہیں جنہوں نے حکومت کی طرف سے گزشتہ ہفتے جرنیلی سڑک اور شاہراہ دستور کے درمیاں جا بجا 'بارہ مئی ٹائپ' کنٹینرز کی دیوار چین کھڑی کیے جانے پر مداخلت کر کے حکومت اور نواز شریف کے درمیان بظاہر کشیدگی کم کروائی۔ جسے سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت نے ' کیانی فارمولا' کہا۔
ایک بیڈ کاپ زرداری نے آخر وقت تک چیف جسٹس سمیت جج نہ بحال کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا اور گڈ کاپ یوسف رضا گیلانی نہ فقط 'ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں ڈوب ہی جائيں گے' بنے ہوئے نواز شریف کے لیے قابل قبول رہے بلکہ انہوں نے ججوں کی بحالی کا اعلان بھی کیا۔
لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اصل 'گڈ کاپ' تو جنرل کیانی ہی ہیں اور وہ اس وقت سے گڈ کاپ بنے ہوئے ہیں جب مشرف ملک کا 'بیڈ کاپ' بنا ہوا تھا۔ یہی گڈ کاپ تب اٹک قلعے یا اڈیالہ جیل سے یوسف رضا گیلانی اور پمز یا ضیا الدین ہسپتال سے آصف علی زرداری کی بھی رہائی کے پیچھے اہم ترین 'ریاستی ایکٹر' تھے۔
یہی اہم ترین ریاستی ایکٹر بحیثیت ڈي جی آئی ایس آئی پاکستان کے سینکڑوں لاپتہ لوگوں کی گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں اور تب بھی سادہ لباس جنرلوں میں شامل تھے بشمول باوردی جنرل مشرف جن کے سامنے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک بڑی 'نہ' کہہ کر پاکستان کی تاریخ کا ہی رخ موڑ دیا تھا۔ اسی گڈ کاپ نے ہی بینظیر بھٹو سے قومی مفاہمت پر بات چیت کے طویل نششتیں بھی کی تھیں۔
گزشتہ دنوں جب یہ بڑے 'گڈ کاپ' امریکہ کے دورے پر آئے تو کچھ دل جلوں نے یہ اڑایا کہ انہوں نے مشہور ڈیپارٹمینٹل سٹورز 'میسی' سے جو سوٹ خریدے ہیں وہ پہن کر ستمبر میں پھر نیویارک آئيں گے؟ لیکن ستمبر میں تو نیویارک میں جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہوتا ہے! آدمی سوچتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
تب ستمبر ميں خزاں کے لیے ملبوسات نئے ڈيزائن ميں آچکے ہوں گے جن کی خريداری اور جنرل اسمبلی ميں نشت و برخواست کے بعد يہ لوگ ’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘ کرتے گڈ کاپ بيڈ کاپ کی نئی امريکی سيريز کے اثر ميں آچکے ہوں گے۔ لوگ پرانی کہانی بھول نئے ہنگامے کی تيارياں کريں گے۔
جسے ديکھو زرداری پر لکھے جا رہا ہے وہ بھی کچھ زيادہ ہی۔ ميرے خيال سے تو جو نظر آتا ہے ہوتا نہيں اصل ميں۔ کيا پتہ ’ويری گڈ کاپ‘ کيانی اپنا راستہ بنا رہے ہوں حکومت کے ليے اور بيڈ کاپ کا معیار اب اتنا بھی کم نہيں جتنا بتايا جا رہا ہے۔ آخر گيلانی انہي کے بنائے ہوئے وزيراعظم ہيں پھر يہ منہ ماری والی باتيں افسانوی لگتی ہیں۔ بہت گھوم پھر کے جيسے بھی چيف جسٹس ہوگئے بحال ليکن عوام ہو رہی ہے بجلی کی لوڈشيڈنگ سے بےحال۔
بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں جناب
بات دل کو لگتی ہے
پر دماغ کچھ ثبوت شبوت مانگتا ہے
کیانی ہمارا کوئی سگا تو نہیں
لیکن دل ناداں یہ امید کرتا ہے کہ
’چنگا بندہ ہے‘
آپ کے آخری فقرے سے مجھے بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ لیکن لانگ مارچ کے تناظر میں ان کی ’بے لوث‘ کوششوں کو دیکھ کر ان آوازوں پہ کان دھرنے کو دل نہیں کر رہا۔ لہذا مجھے آپ کے اس تجزئیے سے اختلاف ہے۔ باقی پاکستان تو نام ہی ناممکنات کا ہے۔
حسن بھائی بات تو آپ کی ٹھيک ہے ليکن آپ کبھی تو کچھ اچھا لکھ ليا کريں مثال کے طور پر بجلی،پانی اور مہنگائی کا تدارک کيسے کيا جائے۔
حسن بھائی! آپ نے بڑے پتے کی بات کہہ دی ہے۔ اگر انہوں نے موقع و محل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’ميرے عزيز ہم وطنوں!‘ نہيں کيا تو وہ سادہ لباس ميں بطور چيف ايگزيکٹو کبھی بھی اور کہيں بھی خطاب کر سکتے ہيں۔ وہ آج جس مقام پر اور عہدے پر فائز ہيں وہ انکا آئی ايس آئی ميں’شاندار‘ خدمات کے عوض ہی ہے۔
شايد آب افغانستان ميں نئی حکمت عملی کو نظر اندز کر رہے ہيں۔ اب يہ آپشن سود مند نہيں۔ موجودہ فيصلہ پنجاب پوليس کے تيور کے ردعمل کے طور پر ہوا۔ مگر اس کے دور رس اثرات کو سمجھيں۔
کبھی کبھی بہت چھوٹی بات کہہ جاتے ہيں آپ، حسن مجتبٰی صاحب۔ اختلاف کے باوجود تعصب حاوي نہ ہونے پائے تبھی مزہ ہے ورنہ ايک جاہل اور پڑھے لکھے لبرل انقلابی ہونے کے دعوے دار ميں کيا فرق رہ جاتا ہے۔ بلا امتياز تمام پنجابيوں کو لتاڑنا چھوڑا ہے تو اب کسی کے سوٹوں پہ معترض ہيں۔ کيا کہنے کو بس يہي رہ گيا ہے؟ ستمبر ميں يہی سوٹ پہنے جنرل اسمبلی چلا آئے گا ، آپ کو کيسے پتہ ہے۔ کيا اب جوتش بھی شروع کر ديا ہے؟
حسن بھائی سلام؛
اللہ کرے کے آپ کا تجزيہ درست ہو اور کيانی صاحب ستمبر ميں امريکہ کا دورہ کريں۔
آپ کی آخری والی بات کچھ دل کو لگتی ہے کہ کہیں ایسا ہی نا ہو جائے۔
باقی جی تسی وی سیانے او
جناب اشرافیہ کی لڑائی ہے۔۔۔ کوئی گڈ یا بیڈ کاپ نہیں۔۔۔۔ سسٹم بچانا ہے۔۔۔۔وہ سسٹم جس میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں۔۔۔جو صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔۔۔ورنہ جن تیں چار ہستیوں کا نام آپ نے لیا ان میں سے کون بھلا ایک عام آدمی کے لیے سوچ رہا ہے
کون برا کون اچھا؟ جيسی عوام ويسے حکمران
جنرل کيانی کو گزرے دنوں ميں واقعی يہ اندازہ ہوگيا ہوگا کہ وہ کيا کر سکتے ہیں۔ جو مسئلہ کئی ماہ سے درد سر بنا ہوا تھا وہ انہوں نے ڈنڈے کے زور پہ آدھے دن ميں حل کرا ديا اور ججز بحال ہوگئے۔ اب آگے کی پيش گوئی يہ ہے کہ جسٹس تين ماہ سے زيادہ ٹکتے ہوئے نہيں نظر آ رہے۔ صدر صاحب انہيں فارغ کريں گے اور پھر وہی دھرنے اور مظاہرے اور کيانی کو تو معلوم ہے ہی کہ وہ کوئی اونچی چيز ہیں۔