کچھ تو زمانہ بدل گیا
اکثرمسلمان دانشوروں کا ماننا ہے کہ مسلم دنیا میں جب بھی جمہوریت جڑ پکڑ لے گی تو یہ اُس جمہوریت سے مستحکم اور مضبوط ہوگی جو مغرب میں سالہاسال سے قائم ہے۔
البتہ مسلمانوں کو کسی نئےتجربے کو جاننے، پرکھنے اور اپنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں اِس کے قیام کے بعد کچھ نہیں بدلا جیسا کہ بیشتر شکایت کرتے ہیں۔
گوکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں انتظامیہ سے لے کر آئین سازی تک کا عمل کافی سست رہا مگر اس دوران یہ ملک جن مشکل مراحل سے گزرا اس کو سہتے برداشت کرتے ہوئے بھی یہ ملک تقریبا اس وقت وہیں کھڑا ہے جہاں بھارت ہے۔
چند واقعات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اندرونی طور پر جہاں عوام کی سوچ بدل گئی ہے وہیں سیاست دانوں کو بھی وقت کے تقاضے کا احساس ہوگیا ہے۔
وہ ایک زمانہ تھا جب پہلے وزیراعظم کو دن دھاڑے گولی مار دی گئی۔
پھر قانون کے دائرے میں لانے کی ناکام کوشش میں ایک اور وزیراعظم کو سولی پر چڑھایا گیا حالانکہ پوری دنیا دہائی دیتی رہی، وہ زمانہ بھی گذر گیا۔
نوِے میں یہ سوچ اتنی تبدیل ہوئی تھی کہ مرنےمارنےکے بجائے وزیراعظم کو طیارے میں بٹھاکر ملک بدر کردیا گیا۔
سن دوہزار سات میں جب جنرل مشرف نےافتخار محمد چودھری کا مسئلہ کھڑا کیا تو یہ افواہیں گرم تھیں کہ ان کو بھی شاید ملک بدر ہی ہونا پڑے گا۔
مگر زمانہ کتنا بدل گیا ہے کہ موجودہ صدر کو عدلیہ کی بحالی کے لیے اپنے مخالفین کے سامنے جھکنا پڑااور عوام کے احساسات کو نظر انداز کرنا کتنا مشکل ہوگیا جمہوریت کی کتاب میں یہ اس کا حرف آغاز ہے۔
سن سنتالیس سے یہ سفر دشوار ہی سہی مگر کچھ تو حاصل ہے کچھ تو سوچ بدل گئی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ٹھيری ہوئ ہے شب کی سياہی وہيں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوے تو ہيں
محترمہ نعيمہ صاحبہ!
ميں سلام پيش کرتا ہوں اُس ماں کو کہ جس نے جسٹس افتخار جيسے سپوت کو جنم ديا ہے۔ وہ قوم جو ايک بدمعاش کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑی تھی اور جس کے سامنے کوئ کھڑا نہيں ہو رہا تھا۔ ايسا حکمران جو اپنی طاقت کے نشے ميں بدمست تھا کہ جس نے آتے ہی قوم کے منتخب وزيراعظم کو پا بند سلاسل کر ديا يہ قوم سوئ رہي، پھر آئنی صدر کو بے دخل کر کے خود کرسئ صدارت پر قابض ہو گيا يہ قوم سوئ رہي؛ حاکم طاقت کے نشے ميں بدمست ہاتھی کی طرح رستے ميں آنے والی ہر چيز کو روندتا چلا گيا اور پوری قوم تاريخ کے چوراہے پہ پڑی سوتی رہي۔
وکلا تحريک پاکستان کی ايسی تحريک تھی جس کے ساتھ مزہب کا نام نہيں جڑا تھا جو خالصتاّ پاکستان ميں صرف آئن اور قانون کی بالا دستی کے ليے تھي۔ جسٹس افتخار اور ان کے ساتھيوں نے پوری قوم کو جگاديا۔ اور نعيمہ صاحبہ ان بيچارے وکلا نے بہت فاقے برداشت کيے ہيں
آج پورا پاکستان اس ملک ميں آئن اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہے جو بلا تفرقے اميروغريب ہو۔
شکر ہے کہ ہمارے سياست دانوں نے بھی اس باتکا احساس کيا۔
نعيمہ جي آپ نے صحيح جايزہ ليا ہے- آزاد عدليہ کے ليۓ منظم جدوجہد لازمی طور پر قوم ميں تبديلی کا اشارہ ديتی ہے- ليکن يہ صرف شروعات ہے- ميں تو تب تبديلي کو مانوں گي جب ہماري قوم بجلي، مہنگائي، دہشتگردي، سرحد پار حملوں اور ہم خواتين پر مرد کے ظلم اور ہميں تعليم سے محروم کرنے کی سازشوں کے خلاف سڑکوں پر آۓ گي- اس ميں وکلاء کو بھی شامل ہونا ہوگا ورنہ ميں تو يہی سمجھوں گی کہ وکلاء کو صرف اپنے کام سے غرض تھي، قوم کی فلاح و بہبود سے انہيں کوئي لينا دينا نہيں-
جمہوريت ايک طرز عمل ہے کہ جسميں
لوگوں کو گنا کرتے ہی تولا نہيں کرتے
شاعر مشرق کے يہ اشعار آپ کے بلاگ کا جواب ہيں البتہ جمہوريت فوجی آمريت سے لاکھ درجہ بہتر ہے ليکن اگر غور کيا جاۓ تو آمريت کی وجہ بھی يہی جمہوريت بنتی ہے- مسئلہ دراصل يہ ہے کہ ہمارے ملک کا کلچر اور لوگوں کی سوچ ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ يہاں انگريزوں کا جمہوري نظام چل ہی نہيں سکتا -کچھ يہی حال برصغير کے اکثر ممالک کا ہے- آپ نے کہا کہ سينتاليس کے بعد کچھ تو سوچ بدلی ہے ليکن محترمہ مجھے کچھ بھی ايسانظر نہيں آتا کيونکہ صدر نے عوام کے سامنے نہيں ايک فوجی جرنيل کے آگے سرجھکا يا ہے جو شايد اگلے جنرل اسمبلی کے اجلاس ميں شرکت کے لۓ کپڑے بھی خريد لاۓ ہيں-
ويسے ديکھا جاۓ تو عام عوام نے اس جدوجہد ميں خوب ڈنڈے کھاے- ليکن ميڈيا جو قربانی دی اسی کے بدلے يہ تھوڑی تبديلی ديکھنے کو مل رھی ھے۔
جمہوریت قائم کرنے کے لیے کافی سمجھ،ارادہ اور منظم ہونے کی ضرورت ہےجبکہ اسے بگاڑنے کے لیے تھڑی سی حماقت ہی کافی ہے۔ ۔مسلمان اگر سمجھدار ہوتے تو سب سے پہلے اپنے اوپر مسلّط امریکہ نواز ڈکٹیٹروں سے نجات حاصل کرتے۔اصل جہاد یہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہماری عقل کا یہ عالم ہے کہ ہم انہی ڈکٹیٹرز کو اسلام کا خدمتگار اور اپنا حاکم بنایے بیٹھے ہیں۔بادشاہت اب صرف مسلمان زندہ رکھے ہویے ہیں۔