سرپرائز سرپرائز!
صدر زرداری کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی بحالی انکی ایک سالہ حکومت کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ وفاقی وزرا راجہ پرویز اشرف اور بابر اعوان کے بعد اب نبیل گبول نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے افتخار چوہدری سمیت برطرف ججوں کی بحالی کا فیصلہ لانگ مارچ سے پندرہ روز پہلے ہی کر لیا تھا۔انتظار صرف چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کا تھا۔ حکومت نے اپنے فیصلے کی اطلاع نواز شریف کو بھی دے دی تھی ۔اس کے باوجود نواز شریف اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لیے لانگ مارچ لے کر نکل کھڑے ہوئے۔
بظاہر حکومت کے دعوے اور نیک نیتی پر شبہہ کرنے کی کم ازکم مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بس اتنی سی گذارش ہے کہ آئندہ جب بھی اس طرح کا سرپرائز دینے کا موڈ ہو تو نواز شریف کے ساتھ ساتھ دفعہ ایک سو چوالیس، لاٹھی اور آنسو گیس سے مسلح پولیس، کنٹینر ٹرانسپورٹرز، فوج کے سربراہ اور ادھر سے ادھر دوڑنے والے امریکی و برطانوی سفیروں اور لمبی لمبی کالیں کرنے والے ڈیوڈ ملی بینڈ اور ہلری کلنٹن کو بھی حکومت پندرہ روز پہلے بتا دیا کرے کہ جناب ٹینشن نہ لیں۔ حکومت جو سرپرائز دینے والی ہے اسے سسپنس تھرلر کی طرح انجوائے کریں۔
یہ الگ بات ہے کہ حالیہ سسپنس تھرلر کشکول بدست پاکستان کو کم از کم پندرہ ارب روپے میں پڑا۔
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ واہ کیجے
( جون ایلیا)
تبصرےتبصرہ کریں
پندرہ ارب روپے، توبہ اس ميں تو زبردست آکسفورڈ ٹائپ يونيورسٹی بن جاتی۔ بےشرم، بےحس، خود غرض،اعلیٰ و آخری درجے کےمطلبی سياستدان ہيں يہ سب۔ اور کب کر رہے ہيں صدر زرداری پاکستان کا دورہ۔ سال بعد تو دلہن نے اپنے ملک ميں پير رکھا ہے اور ساتھ ترکی کا دورہ۔ کيسے زندہ رہ جاتے ہيں اتنے دورے کھانے کے بعد؟
لاپتہ لوگوں کا کيس دراصل معزولی کی وجہ بنا۔ بڑے اسٹيک والوں نے جب شمالی پنجاب کا موڈ ديکھا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پر اس کےاثرات جانچے تو بحالی کا فيصلہ کيا اور جج بحال ہوگئے مگر عدليہ نہیں۔
.جمہوری حکومت کی يہی تو خوبی ہے کہ اس نے عوامی رائے کے سامنے ہار مان لی۔
نواز شريف کو اب اس مشکل وقت ميں پاکستان کی خاطر حکومت کا ساتہ دينا چاہيے اور سياسی دوکانداری کی ڈگر سے ہٹ کر حقيقی معنی ميں غريب لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنا چاہیے۔
واہ جناب واہ !!!
کمال کا لکھتے ہیں آپ۔
آپ ہمیشہ سے ہی دور کی کوڑی لے کر آتے ہیں۔ ۔ ۔
واہ جی۔۔۔۔ چوری اوپر سے سینہ زوری
شاید اسے ہی پاکستانی سیاست کہتے ہیں
وسعت بھائی! درست فرمايا آپ نے۔ اسی کو کہتے ہيں کہ چور چوری سے جائے ہيرا پھيری سے نہ جائے۔ يا پھر اس پر تو يہ بھی صادق آتا ہے۔ ايسے موقعہ کے لیے کہتے ہيں کہ چور کی داڑھی ميں تنکا۔ اب يہ جو کچھ بھی کہہ ليں ان کی حالت تو اس دھاتی کی مانند ہے جو اسی طرح کے کسی الجھے ہوئے مسئلے پر سو پياز يا سو جوتے کھانے کا قصد کرتا ہے اور اسے دونوں اشياء کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔
کس ہنر سے ياروں نے داستاں رقم کر لی
ميرے خون دل ميں ہی انگلياں ڈبونے سے
وسعت اللہ صاحب، پندرہ ارب کے ساتھ تجارتی ساکھ کو پہنچےاس جھٹکے کا کيا مول لگائیے گا جس پر وکلاء برادري، جج صاحبان، سياسی قائدين اور اليکڑانک ميڈيا سميت ساري قوم کی خاموشی باعث حيرت ہے۔ شاید اس لیے کہ دينے والے جيتے رہيں، گزارا تو ہو ہی جاتا ہے۔ خدا انہيں کبھی معاف نہ کرے جنہوں نے ايک محنتي اور باصلاحيت قوم کو بھکاري بنا رکھا ہے۔
ہمارہے سياستدان اس بات کو اب تک نہيں سمجھ سکے کہ منہ بند رکھنا بھی سياست کا حصہ ہے
سچ ہوتا ہے اور جھوٹ گھڑنا پڑتا ہے۔
وسعت انکل نہ سوچا کريں اتنا زيادہ۔ سب سياستدان قوم کو بيوقوف بنا کر حکومت کرتے ہيں۔ زرداری صاحب NRO کو بچانا چاہتے ہيں اس ليے CJ کو بحال کرنے کا کريڈٹ لينے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مياں صاحب اپنی پنجاب حکومت کو واپس لينا چاہتے ہيں اس ليے انہوں نے وکيلوں کا ساتھ ديا۔ اس حمام ميں سب ننگے ہيں وسعت انکل۔ -