| بلاگز | اگلا بلاگ >>

انصاف چاہیے مگر نہیں

اسد علی | 2009-03-24 ،20:00

justice_scale203.jpgیک شخص کسی نظام کی علامت تو بن سکتا ہے لیکن کسی پورے نظٌام کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اچھے عدالتی نظام کی علامت تو ہو سکتے ہیں لیکن اس بات کی ضمانت نہیں کہ اب پاکستان میں ہمیشہ یا کم سے کم جب تک وہ موجود ہیں لوگوں کو انصاف ملے گا۔

انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے ایک اچھا اور فعال نظام قائم کرنا ہو گا جو کسی فرد واحد کی مہربانی کا محتاج نہ ہو۔لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری معاشرے کے افراد کا اپنا کردار ہے۔ لوگوں میں اس بات کا احساس ضروری ہے کہ قانون تو مرد عورت، بڑے چھوٹے اور 'چودھری کمی' میں تفریق نہیں کرتا جبکہ اب تک ہمارے معاشرے کی بنیاد ہی تفریق میں ہے۔

نو مارچ دو ہزار سات کوچیف جسٹس کی برطرفی کے بعد سے لاکھوں لوگوں نے جلوس نکالے، مظاہرے کیے اور قانون کی بالا دستی کی بات کی۔ قانون کے بہت سے نظریات جو عام طور عدالتی ماحول میں ہی سننے کو ملتے تھے اب عام ہوئے۔ لیکن کیا لوگ واقعی برابری چاہتے ہیں یہ بحث طلب معاملہ ہے۔ برابری شاید پسند کی جائے گی لیکن ان میں جنہیں برابر سمجھا جاتا ہے۔

اگر موجودہ سماجی ڈھانچے کو قانون کی بالادستی سے خطرہ محسوس ہوا تو اسکی پر طرح سے مزاحمت ہوگی اور اس میں بہت سے وہ لوگ شامل ہوں گے جو عدلیہ کی تحریک کا بھی حصہ تھے۔

پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جنہوں نے کمزور عدالتی نظام کے سہارے اپنی حیثیت بنائی ہے۔ ان لوگوں کے لیے ایسے معاشرے کا تصور بھی موت ہے جس میں ان کی اگلی نسلوں کو بزور بازو کچھ حاصل کرنا پڑے۔ ان لوگوں کو آزاد عدلیہ کبھی راس نہیں آئے گی اور یہ ممکنہ اقدامات کے راستے میں روڑے اٹکائیں گے۔

لیکن ان کے علاوہ بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً لوگ مساوات کے تصور سے دور ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قانون کی بالادستی کا عمل ان کے لیے تکلیفدہ ہوگا۔

ملک کے بڑے حصوں میں پیری فقیری ہے، وڈیرے اور ہاری کا چکر ہے۔ پاکستان میں کم ہی ایسے افسر ہوں گے جو یہ تصور بھی کرنا چاہیں گے کہ کبھی ان کی اولاد کو کوئی کام لائن میں لگ کر کروانا پڑے۔

ملک میں بڑے پیمانے پر ابھی مرد اور عورت کی برابری کا تصور بھی نہیں۔ سوات کے لڑکیوں کے سکولوں کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان سے پسند کی شادی کرنے کی خواہش پر لڑکیوں کو زندہ دفنانے کی خبریں آئیں تو نہ صرف منتخب ایوانوں میں بلکہ عام لوگوں کی سطح پر بھی کہا گیا کہ یہ بلوچ روایات ہیں اور صوبے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جسٹس خلیل الرحمان رمدے ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں جج تھے اور ان کے سامنے ایک قتل کے مقدمے کی اپیل تھی۔ مقدمے کے فریقین میں صلح ہو چکی تھی۔ ہم عدالتی رپورٹر لاہور کی گرمی سے بچ کر سستانے کے لیے عدالت میں بیٹھ کر کارروائی دیکھنے لگے جو اچانک دلچسپ ہو گئی۔

قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک غریب آدمی کا اکلوتا جوان بیٹا قتل ہو گیا تھا۔ اب وہ کنگال بوڑھا اپنے پوتے پوتیوں کا واحد سہارا تھا۔ عدالت کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ معززین علاقہ نے صلح کروائی جس میں اس نے قاتل کو معاف کر دیا تھا۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ صلح اللہ واسطے ہوئی ہے اور اس نے بغیر کوئی معاوضہ لیے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔

جج صاحب نے متعلقہ پولیس اہلکار سے پوچھا تو اس نے پورے اعتماد سے کہا کہ جناب یہ صلح معززین علاقہ نے کروائی ہے اور اس شخص نے اپنی خوشی سے قاتل کو معاف کیا ہے۔ معززین علاقہ کو پوچھا گیا تو کلف لگے سفید سوٹوں میں ملبوس تین چار لوگ کھڑے ہو گئے۔ وہ مطمئن تھے کہ انہوں نے ایک معاملہ رفع دفا کروا دیا ہے۔

جج صاحب نے ان سے پوچھا کے آپ کو مقتول کے بچوں کا خیال نہیں آیا کہ یہ کیسے پلیں گے اور صلح کرواتے ہوئے ان کو کچھ دلوا دیں جبکہ دوسرا فریق صاحب حیثیت بھی ہے۔ جواب میں صرف خاموشی تھی۔ ان لوگوں کے خیال میں ایک غریب بوڑھے کے اکلوتے غریب بیٹے کا قتل محض ایک غلطی تھی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:14 2009-03-25 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    'دستور يہاں بھی اندھے ہيں، فرماں يہاں بھی اندھے ہيں
    اے دوست! خدا کا نام نہ لے، ايمان يہاں بھی اندھے ہيں'

  • 2. 12:29 2009-03-25 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    'خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي
    جس کو نہ ہو خيال آپ اپني حالت کے بدلنے کا'

  • 3. 13:39 2009-03-25 ,Nadeem Rehman Malik :

    کوئی شک نہيں کہ ہمارے عوام بہت بھولے بادشاہ ہيں صديوں نہيں صرف چند سال پہلے کی بلکہ چند مہينوں کی بات واقعات بھول جاتے ہيں اور يہ تک نہيں جانتے کہ ان کے حقوق کيا ہيں اپنا حق کيسے اور کب مانگنا ضروری ہے - بس مظلوميت کی تصویر بنے رہيں گے کہ کوئی آئے اور ان کے آنسو کو پونچھے تسلی تشفی دہے اور خودبخود انصاف مل جائے بھلا اس طرح بھی کسی کو آج تک انصاف ملا ہے - بھلا زنجير عدل کا اب دور رہا ہے - مياں!! کس زمانے کی بات کرتے ہو دل جلانے کی بات کرتے ہو- سنا ہے کسی دور ميں چيف جسٹس کے پاس روزانہ 500 درخواستيں انصاف کے حصول کيلے آتی تھيں بندہ سوچے کے کيا انصاف صرف چيف جسٹس ہی دے سکتا ہے يہ ايوان صدر ،پرائم منسٹر ہاؤس ، يہ وزير کبير، ناظم ،ڈي سی کميشنر، آخر پھر ان کا کيا کام ہے-اگر يہ ملک چلا رہے ہيں تو ملک تو ويسے بھی ان سے نہيں چل پاتا ملک تو چلتا ہے آزاد عدليہ سے مضبوط معيعشت سے ،انصاف سے برابری سے يکساں حقوق ملنے سے- لہزا ہر شخص کا چيف جسٹس کو انصاف طلب نظروں سے ديکھنا فطری امر ہے-
    نديم رحمان ملک - مظفر گڑھ - پاکستان

  • 4. 15:20 2009-03-25 ,(sana (Apki Awaz Wali :

    اسد انکل جس کی لاٹھی اسکی بھينس والے معاشرہ ميں انصاف کی بات کرکے اپنا اور ہمارا وقت ضائع کرنے کا کوئی فايدہ نہيں ہے-

  • 5. 16:53 2009-03-25 ,sana khan :

    کيا لکھيں اب سب کچھ تو آپ نے ہی لکھ ديا C.J صاحب کو سب سے پہلے وکيلوں کا احتساب کرنا چاہيۓ مجھے تو يہ پتہ تھا کہ ہر گلی نکڑ پر درزی کی دکان يہ ڈاکٹر ہوتے ہيں ليکن اتنی بڑی تعداد ميں وکيل حيرت ہے کہ اسکے باوجود ہزاروں کيسز پينڈنگ ميں اور انصاف ناپيد ہے ويسے بھی ہم لوگ خود کونسے انصاف پسند قوم ہيں اورجی اسد چوہدری صاحب پچھلی تصوير آپکی بھی بي بي سي کے ہر بلاگر کي طرح لگتا ہے دس سے پندرہ سال تو پرانی ہی تھی ۔ٹاٹا

  • 6. 17:54 2009-03-25 ,اے رضا :

    اسد چودھری صاحب جس طبقاتي تفريق کا آپ نےذکر کيا ہے وہ دنيا کے ہر معاشرے ميں کسي نہ کسي صورت ميں ديکھي جا سکتي ہے ليکن انصاف کے ضمن ميں جو بےحيائي ہمارے ہاں روا ہے وہ شاید بہت کم ديکھنے ميں آئے - سيالکوٹ کي ايک عدالت ميں حق شفہ کے جعلي مقدمے ميں دفاع کر رہے ميرے ايک بزرگ کی روليکس ديکھ کر انصاف کي قيمت مقرر ہوئي ايک عدد ويسي ہي نئي'گھڑي اور ايک بوتل 'شنيل- فايئو' -

  • 7. 18:42 2009-03-25 ,وحيد کھوکھر :

    برادرم اسد چوھدری صاحب -

    آپ نے”انصاف چاھيۓ مگر نہيں ” کا پول کافی عمدہ طريق پر کھولاھے- جسٹس رمدے کي عدالت ميں بذريعہ ” علاقے کے معززين ” اپنے اکلوتے بيٹے کے قاتلوں کو بوڑھے باپ کا بخوشي معاف کردينا خاص کر قابل غور اور قابل تحسين ھے- يقينا” ہمارا سارا معاشرہ ہی ايسے بوڑھے ماؤں باپوں اور ايسے ہی ”علاقے کے معززين ” سے اٹا پڑا ھے- ايسے منافق معاشرے کو کوئی افتخار آسمان سے اتر کر ہی سدھار سکے تو بات بنے ورنہ بقول شخصے ايک ايسےمعاشرے ميں جہاں ”جس کی دم اٹھاؤ وہی مادہ ھے ” والا معاملہ ھو وہاں سارے شريف ، افتخار چوھدری ہی مانگتے ھيں ورنہ صاحبان اقتدار کوتو شريف پيرزادے ہي وارہ کھاتے ھيں -
    خيرانديش

    وحيد کھوکھر

  • 8. 20:06 2009-03-25 ,عبدالوحيد خان ، برمنگھم (يوکے) :

    وطن عزيز ميں عوام الناس اور معاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے اور بالا دست طبقے نے زيردست طبقے کے حقوق کو صلب کر رکھا ہے ليکن ججوں کی بحالی سے ايک ہلکی سی اميد تو پيدا ہوئی ہے کہ شايد معاملات درست سمت کی طرف چل پڑيں اور معاشرے کو عدم مساوات اور ناانصافی جيسے مسائل سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے سے جاگيردارانہ کلجر ، تعليم کی کمی اور غربت کا خاتمہ ممکن بنايا جائے بہرحال !!!!بسا کہ آرزو خاک شدہ

  • 9. 21:49 2009-03-25 ,راجہ عامر نواز usa :

    منصفانہ نظام قائم کئے پغیر کچھ نہیں پدل سکتا

  • 10. 5:23 2009-03-26 ,Asim Abbas :

    آداب،
    اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بحالیءعدلیہ تحریک نے عوام الناس کی توقعات کو آسمان پر پہنچادیا کہ مہنگاہی سے لے کر خودکش بم دھماکوں تک سب بد انتظامی افتخار چودھری کی معزولی کی سبب سے یے۔
    اس سوچ نے پاکستان کے آخری باقی رہ جانے والے ادارے کو دیگر اداروں کی مانند افراد میں مرتسم کردیا۔اب عدالت مطلب افتخار چودھری ہی ہیں۔
    وہ تمام بالادست طبقات جو اس تحریک میں انویسٹ کرچکے وہ کب بلند بانگ نعروں کو حقیقت بننے دیں گے ورنہ ان کے مفادات کا کیا ہوگا اور رہ گے عوام وہ بہت جلد کسی اور کھلونے سے بہلا دیے جاہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں اس جیسی تحریک اس لیے اٹھاہی جاتی ہیں کہ جن کے الو ٹیڑھے ہوگےء ہیں وہ جلد از جلد سیدھے ہوجاہیں۔۔۔۔۔سو کچھ کے الو سیدھے ہوچکے اور کچھ کے ہو جاہیں گے۔

  • 11. 6:16 2009-03-26 ,تابش فراز :

    بے شک! چیف جسٹس اِفتخار صاحب اچھے عدالتی نظام کی علامت تو ہیں مگر اُنھوں نے اِس کی شُروعات تو کی ہے۔

  • 12. 6:57 2009-03-26 ,tariq ayyaz :

    آپ کا مطلب ھے کہ اگر کوئی صحيح راستے پر چلنا چاھے اسکو روکا جائے کيونکہ باقی معاشرہ صحيح نہيں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔